’’انصار مدینہ‘‘

July 19, 2014

’’بنوں کے عوام نے انصار مدینہ کی یاد تازہ کردی۔ شمالی وزیرستان کے مہاجروں کو اپنے گھروں میں یوں بسایا جیسے یہ ان کے قریبی رشتہ دار اور دیرینہ تعلق دار ہوں۔ حتی کہ ایک خاندان نے مشران کے کہنے پر ایسے خاندان کو اپنے گھر میں ٹھہرنے کی دعوت دی اور لابسایا جو اس کا دیرینہ دشمن اور مخالف ہے اور عرصہ دراز سے آمادہ پیکار‘‘۔
وفاقی وزیر سفیران عبدالقادر بلوچ نے بنوں کے عوام کا ذکر انصار مدینہ کے طور پر کیا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا، ہر زبان سے مرحبا نکلا۔ نفسانفسی کے اس دور میں جب سب کو اپنی پڑی ہے، رشتے ، ناطے کمزور پڑ گئے ہیں، خاندان کا ادارہ، مغربی تعلیمات اور معاشی و سماجی مسائل کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اوراپنی الگ دنیا بسانے کے شوق میں لوگ ماں، باپ، بھائی، بہن سے دوری کو بھی فیشن اور انفرادی آزادی کا تقاضا سمجھتے ہیں محض اسلامی اور انسانی جذبے کے تحت اپنے کسی مخالف کو گھر میں پناہ دینا، اس کی روزمرہ ضروریات کا خیال رکھنا مواخات مدینہ تو ہے صرف بنوں ہی نہیں ہنگو، کوہاٹ، کرک، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام نے بھی جس کی یاد تازہ کی۔
بیعت عقبہ ثانیہ کے بعد رسول اکرم ﷺ نے کی اجازت دی تو مکہ مکرمہ میں بسنے والے مومن صادق اپنا گھر، مال و متاع چھوڑ کر عازم مدینہ ہوئے۔ مدینہ منورہ پہنچ کر یہ مہاجرین ہر لحاظ سے تہی دست، بے ٹھکانہ اور بے آسرا تھے۔ حضورؐ نے مہاجرین اور انصار میں سے دو، دو افراد (ایک مہاجر، ایک انصار) کے درمیان مواخات (بھائی چارے) کا رشتہ قائم فرما دیا۔ حضورؐ کے حکم کی تعمیل اور اپنے جذبہ مہمان نوازی کی تکمیل کے لئے انصار نے مہاجرین کو اپنے شہر میں اپنے ساتھ برابر کے حقوق دیئے۔ اپنے گھر، مال و زر اور جائیداد تک کو ان کے لئے پیش کردیا۔
سورہ الحشر میں انصار مدینہ کا ذکر یوں ہوا’’یہ (انصار) ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے۔ جو کچھ بھی ان (مہاجرین) کو دیدیا جائے اس کی کوئی حاجت اور تنگی یہ (انصار) اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ وہ خود محتاج و ضرورت مند ہوں‘‘۔
انصار مدینہ نے یہ طے کیا کہ چونکہ مہاجرین باغبانی نہیں جانتے اس لیے وہ مدینہ کے نخلستانوں میں کام خود کریں گے اور پیداوار میں حصہ دار اپنے ان بھائیوں کو بنائیں گے اس فراخدلی اور بھائی چارے پر مہاجرین بول اٹھے ’’ہم نے کبھی ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اس درجہ ایثار کرنے والے ہوں۔ یہ کام خود کریں گے حصہ ہمیں دیں گے ہم تو سمجھتے ہیں کہ ہجرت کا سارا اجر یہ لوٹ کر لے گئے‘‘ حضورؐ نے تسلی دی نہیں جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو گے تم کو بھی اجر ملتا رہیگا‘‘۔
الطاف حسن قریشی صاحب نے آئی ڈپی پیز کے مسائل و مصائب سے آگہی کے لئے ’’پائنا‘‘ اور روشن پیکجز کے تعاون سے اس خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا تھا اور طیب اعجاز قریشی،کامران قریشی اور سعادت اعجاز قریشی نے شہر بھر کے صاحب ثروت اہل خیر کے علاوہ دانشوروں، اخبار نویسوں اور سماجی خدمت میں مصروف نمایاں شخصیات کو ایک ساتھ لابٹھایا تھا۔ الخدمت فائونڈیشن کے ڈاکٹر حفیظ خان اور کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے بنوں میں مہاجرین کی حالت زار بیان کی اور اپنے تجربات شیئر کئے۔
ڈاکٹر حفیظ خان نے گلوگیر لہجے میں بتایا کہ ایسے باپردہ خاندان جن کی مائوں، بہو، بیٹیوں کے چہرے اور سر کے بال کبھی سورج کی کرنوں نے دیکھے نہ چاند کی روشنی نے وہ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں سر پر چھت نہ پردے کا کوئی انتظام ایک باپ کا دکھ بیان کیا جو طویل سفر، بھوک، پیاس اور گرمی کے سبب نڈھال اور نیم مردہ دو بچوں کو یہ کہہ کر میرے سپرد کرگیا کہ اگر بچ جائیں تو آپ کے ہوئے جاں بر نہ ہوں تو کفن دفن کا انتظام کرلیجے گا میں اپنی بیوی اور بیٹیوں کے لئے کوئی آسرا تلاش کروں جو میری ذمہ داری ہیں اور تاحال جینے کی امید سے سرشار۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ ’’اخوت‘‘ کی مدد سے اپنے پائوں پر کھڑا ہونے والے تین لاکھ خاندانوں نے بیس روپے فی کس کے حساب سے عطیہ دیکر ساٹھ لاکھ روپے جمع کیا جو بنوں میں مصروف رفاہی تنظیموں کے ذریعے متاثرین میں تقسیم کیا جائیگا تب لاہور ایوان صنعت و تجارت کے صدر سہیل لاشاری نے چیمبر ممبران کی طرف سے ایک کروڑ روپے عطیے کا اعلان کیا تو سامعین کو عجیب لگا؎
سمندر سے ملے پیاسے کو شبنم
بخیلی ہے یہ رزاقی نہیں ہے
وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے اپنی تقریر میں نقل مکانی کے لئے کم وقت دینے کے حکومتی فیصلے کا دفاع کیا اور ’’بتایا کہ آپریشن ضرب عضب کی حساسیت و نزاکت، دہشت گردوں پر اچانک کاری ضرب لگانے اور انہیں فرار کا موقع نہ دینے کے لیے یہ فیصلہ ہوا، نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دس لاکھ ہے مگر مجھے یہ مبالغہ آمیز لگتی ہے‘‘۔ میں نے موقع غنیمت جان کر عرض کیا کہ آپریشن سے قبل آبادی اور ہجرت کا اندازہ درست نہ لگانا اور اسلام آباد، لاہور یا کسی دوسرے شہر میں تعداد کے مطابق خیمے، پنکھے، واٹر کولر، بستر، چولہے، راشن کا بندوبست نہ کرنا بھی سرپرائز پالیسی کا حصہ تھا یا نااہل غفلت اور بے تدبیری کا شاہکار؟
میں 1960ء اور 1973ء کے تباہ کن سیلابوں میں نقل مکانی کے تجربے سے گذرا ہوں اور 2005ء کے زلزلے کے علاوہ 2010ء کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا مطالعاتی دورہ کر چکا ہوں میں مصیبت زدہ و متاثرہ لوگوں کی نفسیات دانی کا دعویٰ کرسکتا ہوں ناگہانی قدرتی اور انسانی ساختہ آفت متاثرین میں خوف، اندیشے اور بے یقینی کا زہر بھر دیتی ہے افراد خانہ کی تعداد زیادہ بتانا اور زیادہ سے زیادہ راشن اکٹھا کرنا اس اندیشے اور خوف کے باعث ہوتا ہے کہ کل معلوم نہیں کیا ہو، کچھ ملے یا نہ ملے؟ اس لیے حکومت اور سماجی تنظیمیں اس بارے میں فکر مند ہونے ا ور اسے متاثرین کی حرص، لالچ، خود غرضی کے بجائے نفسیاتی مسئلہ سمجھیں اور حیص بیص کے بغیر دل کھول کرمدد کریں اہم تر معاملہ یہ ہے کہ ان کی باعزت واپسی اور باوقار بحالی جلد سے جلد ہو یہ محفوظ مستقبل کے پختہ احساس کے ساتھ اپنے بہتر شہری سہولتوں سے آراستہ اور آرام دہ گھروں کو لولٹیں اور قومی کدوکاوش کے سبب شورش زدہ قبائلی علاقوں پر وہ بہار اترے کہ جسے اندیشہ زوال نہ ہو۔
حکومتی اداروں بالخصوص فوج کی کوششوں اور الخدمت فائونڈیشن، کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی، فلاح انسانیت فائونڈیشن اور دیگر رفاہی تنظیموں کی ریاضت کے سبب آئی ڈی پیز کی سہولتوں میں اضافہ ہورہا ہے ہر ایک کو احساس ہوگیا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ان کی دلجوئی، خبر گیری، اطمینان قلب اور آرام دہ واپسی کے علاوہ شمالی وزیرستان میں مثالی تعمیر و ترقی، تعلیم، صحت، روزگار کے وافر مواقع کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں پائنا کی تقریب کا مرکزی نکتہ بھی یہی تھا مگر ابھی تک بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
تاہم رمضان المبارک میں ہمیں ملک کے طول و عرض میں موجود ان لاکھوں یتیموں، بیوائوں، بے روزگاروں، بیماروں، معذوروں، ضرورت مندوں، محتاجوں کو ہرگز نہیں بھولنا چاہئے جو ریاستی اداروں کی ناکامی کے بعد اب رفاہی و فلاحی تنظیموں کے رحم و کرم پر جو مہاجرین کی طرح اندیشے اور بے یقینی کا شکار ہیں۔ یہ ادارے پوری قوم اور ریاست کی طرف سے فرض کفارہ ادا کررہے ہیں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ، اخوت، ڈور آف اویرینس، شوکت خاتم ہسپتال، المصطفےٰ ویلفیئر آرگنائزیشن، مسلم ہینڈز، گھرکی ٹرسٹ اور کئی دوسری تنظیموں کی دل کھول کر امداد نہ صرف باعث برکت و مغفرت ہے بلکہ پاکستان کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی تدبیر بھی ہے آمادہ سخاوت پاکستانی عوام بالخصوص جنہیں اللہ تعالیٰ نے وافر مال و متاع سے نوازا ہے مواخات مدینہ اور انصار مدینہ کی یاد تازہ کر کے اپنے خدا کی خوشنودی اور اس کےرسول ﷺ کی شفاعت کے حقدار بن سکتے ہیں۔ خدا اور رسول خدا کے پسندیدہ و یوثرون علی انفسھم و لو کان بہم خصاصہ۔