قومی جنگ میں ہم سب ایک ہیں!

August 12, 2016

وزیراعظم نواز شریف یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ پاکستان کی حکومت، عوام، مسلح افواج اور قومی سلامتی کے ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متحد ہیں اور اس جنگ کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ بدھ کے روز قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھاکہ ہمیں اپنے اتحاد کے ذریعے اور پہلے سے بھی زیادہ عزم کو بروئے کار لاتے ہوئے دہشت گردی کے نظریے کو شکست اور شیطانی قوتوں کو منہ توڑ جواب دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی کے اسی اجلاس میں وزیرداخلہ چوہدری نثار نے ان عناصر پر نکتہ چینی کی جن کے متنازع بیانات سے بعض مبصرین نے قومی اداروں کے مورال پر اثرانداز ہونے کا تاثر لیا۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کسی کی زبردستی سے نہیں، ایسے وقت میں اتفاق رائے سے شروع کیا گیا جب بات چیت کے ذریعے قیام امن کی کوششوں کے دوران طالبان کے ڈبل گیم کا پتہ چلا۔ قومی اسمبلی کے بدھ کے اجلاس میں اپوزیشن رہنمائوں کے بیانات سے بھی یہ موقف سامنے آیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ پوری قوم کی جنگ ہے اور اس میں سب کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ وزیراعظم نے دہشت گردوں کے ہاتھوں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل، آرمی پبلک اسکول پشاور، ہزارہ برادری پر حملوں، پشاور میں چرچ کو ہدف بنائے جانے سمیت کئی المناک سانحات اور مختلف شعبوں کی سرکردہ شخصیات کا خون بہانے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سرحدوں کے اندر زندگی کو محفوظ بنانا ہمارے قومی سلامتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ یہ ادارے اپنا کام کررہے ہیں۔ وزیراعظم نے خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں متعدد ایسے منصوبے ناکام بنائے جانے کا ذکر کیا جن کا مقصد پاکستانی عوام کو ہدف بنانا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پچھلے کچھ عرصے کے دوران کراچی، پشاور، اسلام آباد سمیت کئی شہروں سے نہ صرف اسلحے کے ایسے ذخیرے پکڑے گئے ہیں جن کا مقصد بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانا تھا بلکہ مختلف مقامات سے بھارتی اور افغان جاسوسوں کے پکڑے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے ایسے بیانات اور تبصرے سامنے آتے رہے ہیں جن میں نیشنل ایکشن پلان کو زیادہ موثر اور یکساں طور پر بروئے کار لانے کی ضرورت اجاگر کی جاتی رہی ہے۔ بدھ کے روز وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت ایوان وزیراعظم اسلام آباد میں قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق سیاسی و عسکری قیادت کے اجلاس میں کئی اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایکشن پلان کی تمام شقوں پر بلاتفریق عملدرآمد یقینی بنانے، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے اور اس ضمن میں سخت قوانین بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ میڈیا رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ سطح کے اس اجلاس میں سانحہ کوئٹہ سمیت سیکورٹی سے تعلق رکھنے والی مختلف رپورٹوں کا جائزہ لیا گیا، وفاق اور صوبوں کے درمیان انٹیلی جنس نظام مزید مضبوط بنانے کے اقدامات کی منظوری دی گئی، قوانین کی خامیاں ہر سطح پر دور کرنے پر اتفاق کیا گیا، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بھرپور طاقت بروئے کار لانے کی تفصیلات زیرغور آئیں اور اس سلسلے کے دوسرے اجلاس میں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ بعض حلقے مدارس کے رجسٹریشن کے لئے علما کا اجلاس بلائے جانے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لئے مزید سخت اقدامات کے امکانات بھی ظاہر کررہے ہیں۔اس باب میں تیزی سے سرگرمیاں سامنے آنے کی توقعات کی جارہی ہیں اور آئندہ 72گھنٹوں میں اہم پیش رفت کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ حساس اداروںکی رپورٹوں پر مبنی کارروائیوں اور آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں امن و امان کی صورتحال میں جو بہتری آئی ہے، اسے مستحکم کرنے کے لئے تیزی سے کارروائی ناگزیر ہوگی کیونکہ ایسے معاملات کے طول کھینچنےسے بعض پیچیدگیوں کا احتمال رہتا ہے۔

.