پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

August 03, 2014

کہتے ہیں اور بڑی حد تک درست بھی ہے کہ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔ ایسا ہوتا تو حکمران غلطیوں پر غلطی نہ کرتے اور ماضی سے عبرت حاصل کر کے ’’روشن حال‘‘ اور ’’بہتر مستقبل‘‘ کا سامان کرتے۔ ملک اس وقت جن چیلنجوں اور بحرانوں سے دوچار ہے اس کا تقاضا ہے کہ ملک میں کسی بھی سطح پر محاذ آرائی نہ کی جائے۔ انتشار اور فساد نہ پیدا ہونے دیا جائے۔ سب کہتے ہیں کہ ’’ہم ایک فیصلہ کن‘‘ مرحلہ میں داخل ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جو چار حلقوں میں انگوٹھوں کی شناخت کا مطالبہ لے کر اٹھے تھے وقت کے ساتھ ساتھ ان کا مطالبہ آگے بڑھتا گیا اور اب ان کی بات مڈٹرم الیکشن تک آ پہنچی ہے جبکہ علامہ طاہر القادری انقلاب سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ خبریں ہیں کہ وقت کے ساتھ رنگ بدل رہی ہیں۔ جمعہ کو ماہ آزادی کی تقریبات کے حوالے سے مزار اقبال پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے انکشاف کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ایک ماہ سے رابطے ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا ارشاد ہے کہ دھرنوں سے مسائل حل نہیں ہوں گے، عمران خان مارچ چھوڑیں اصل ایجنڈا بتائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسائل پر بات چیت کرنے کا اصل فورم پارلیمنٹ ہے۔ اس بارے میں دو رائے نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے فورم پر اس مسئلہ پر بات کیوں نہیں کی گئی۔ عمران خان نے بھی اعتراف کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے رابطہ کیا ہے اور پیغام بھجوایا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ مڈٹرم الیکشن سے کم کوئی بات قبول نہیں۔ مطالبات کی منظوری تک دھرنا دیں گے۔ اگرچہ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید پہلے ہی ’’مڈٹرم الیکشن‘‘ کا مطالبہ کر چکے ہیں اور مسلم لیگ (ق) کے چودھری برادران بھی بیانات کی حد تک بڑے متحرک ہیں اور عوامی تحریک سے ایک 10نکاتی معاہدہ بھی کر چکے ہیں اس طرح وہ ’’اقتدار کی سانپ و سیڑھی‘‘ کے کھیل کا حصہ بننے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ شیخ رشید عمران خان اور طاہر القادری کے درمیان ’’رابطہ کا پل‘‘ بننے کی کوششیں کر رہے ہیں تاکہ وہ بھی سیاست میں اِن ہو سکیں۔ ایم کیو ایم اپنا حصہ ڈالنے کی فکر میں ہے ۔ جمعہ کو حیدر عباس رضوی کی سربراہی میں ایک وفد نے لاہور میں علامہ طاہر القادری سے ملاقات کی ہے اور انقلاب کی اصولی حمایت بھی کی ہے اور وہ سندھ حکومت کا حصہ بھی ہیں۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود اسلام آباد میں اہم تنصیبات پر فوج متعین کر دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے آزادی مارچ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی اور یہ درست بھی ہے کہ جمہوری نظام میں ہر جماعت، گروہ کو جلسے جلوس کی آزادی ہے۔ ایسا کرنا ان کا جمہوری اور بنیادی حق ہے اور یہ بھی درست ہے کہ جلسہ جلوس ، لانگ مارچ سے جمہوری سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بہتر ہوتا کہ اسلام آباد میں فوج طلب نہ کی جاتی کیونکہ آئین کے مطابق ضلعی انتظامیہ کو ہنگامی صورتحال میں فوج کو امداد کے لئے طلب کرنے کا اختیار ہے۔ تحریک انصاف نے چھوٹے بڑے جتنے بھی جلسے کئے ہیں وہ انتہائی پرامن تھے اور اب بھی ان کی جانب سے واضح طور پر یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ان کا لانگ مارچ پرامن ہو گا۔ عوامی تحریک کے رہنما علامہ طاہر القادری بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا انقلاب مارچ انتہائی پرامن ہو گا اور ان کا ماضی اس کا گواہ ہے اور یہ درست بھی ہے کہ جب گزشتہ سال عوامی تحریک نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا تو کسی قسم کی کوئی بدنظمی نہیں ہوئی تھی، بارش و سردی میں مظاہرین پرامن طور پر بیٹھے رہے کہ اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت سے باقاعدہ ایک تحریری معاہدہ ہوا جس پر فتح کا اعلان کر کے دھرنا ختم ہو گیا لیکن معاہدہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوا اور ڈاکٹر صاحب واپس کینیڈا چلے گئے۔ ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ عمران خان نے ون ملین مارچ کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ علامہ طاہر القادری کا دعویٰ ہے کہ اس بار ایک کروڑ لوگ انقلاب مارچ کا حصہ بنیں گے۔ اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان عوامی رابطے عروج پر ہیں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں نمک مرچ لگا کر ٹاک شو ہو رہے ہیں۔ خبریں اور خبروں پر تبصرے بھی زوروں پر ہیں جس کا جو جی میں آئے کہے چلا جا رہا ہے۔ خبریں اپنی جگہ اور اچھے صحافی کی یہ ڈیوٹی ہے کہ وہ خبر تلاش کرے لیکن ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ ایسی خبر و تبصرہ نہ کیا جائے جس سے جمہوری اداروں اور جمہوریت کو نقصان ہو یا جس سے سسٹم ڈی ریل ہوتا نظر آئے۔ یہ کہنا کوئی خبر نہیں کہ مارشل لا لگ جائے گا یا فوج مداخلت کرے گی۔ ایسی کوئی صورت حال دور دور تک نظر نہیں آرہی۔ جمہوری نظام میں احتجاج یا دھرنا عوام کی جانب سے ایک سیاسی دبائو کی حیثیت رکھتا ہے اور حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے پریشر پر توجہ دے۔ جمہوریت میں ’’مکالمہ‘‘ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور تمام مطالبات و مسائل میز کے گرد آمنے سامنے بیٹھ کر حل کئے جاتے ہیں تاہم اس وقت صورتحال کچھ مختلف ہے کہ ساری فوج حالت ِ جنگ میں ہے اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن آپریشن جاری ہے۔ دس لاکھ کے قریب نقل مکانی کرنے والوں کو تمام تر سہولتیں مہیا کرنا بھی قوم کی ذمہ داری ہے۔ اگرچہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اور عوام فوج کے ساتھ کھڑی ہیں اور متاثرین کو ہر ممکن سہولت بھی مہیا کی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک ایک امتحان و آزمائش سے دوچار ہے اس لئے انتہائی تدبر اور تحمل کی ضرورت ہے۔ جلسے جلوس اپنی جگہ، ہر صورت اس بات کو مدنظر رکھنا ہو گا کہ آپریشن ضرب عضب کو ہر صورت کامیاب ہونا ہے۔ بلاشبہ فوج کو بڑی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں اور یقین ہے کہ جلد یہ آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو گا۔ حکومتی پارٹی کی جانب سے عمران خان ، علامہ طاہر القادری کو مذاکرات کی دعوت خوش آئند ہے اگرچہ اس میں کچھ تاخیر ہو گئی ہے لیکن اب بھی اگر اخلاص کے ساتھ آگے بڑھا جائے تو سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی اور یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مڈٹرم الیکشن سے جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ!!