پاکستان زندہ باد ہے ،زندہ باد رہے گا

August 24, 2016

بھارتی وزیر اعظم نے جس طرح بلوچستان کے حوالے سے بیان دیکر پوری دنیا کے سامنے بھارتی عزائم کو بے نقاب کیا اس سے بھارت کا سفاک اور مکار چہرہ دنیا کے سامنے پوری طرح عیاں ہوچکا ہے اور جو لوگ بلوچستان میں جاری شورش اور دہشت گردی کے پیچھے بھارت کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے تھے انھیں بھی یقین ہوچکا ہے کہ بھارت ہی ہے جو ایک منصوبہ بندی کے ذریعے بلوچستان میں اپنی خفیہ ایجنسی کے حاضر سروس اہلکاروں کو پاکستانی سرزمین میں داخل کرکے عدم استحکام پیدا کرکےگوادر اور سی پیک منصوبے کے خلاف پوری طرح غیر اعلانیہ جنگ میں مصروف ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس غیر اعلانیہ جنگ میں دماغ تو بھارت کا استعمال ہورہا ہے لیکن لوگ ہمارے ہی ہیں جنھیں رقم اور برین واشنگ کے ذریعے پاکستان کے خلاف استعمال کیاجارہا ہے، لیکن تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والوں کے لئےبھارتی چالوں کو سمجھنا بہت ہی آسان ہے،کیونکہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کا یہ کھیل کوئی نیا نہیں ہے بلکہ آج تک بھارت ایک ہی طرح کی چالوں سے پاکستان کے خلاف نبر آزما ہے، تھوڑا سے پیچھے جائیں، بنگلہ دیش کے واقعات کا تجزیہ کریں وہاں بھی بھارت نے ہمارے ہی سیاستدانوں کو پیسے اور الگ ریاست کے قیام میں مدد دینے اور پھر وہاں آزاد حکومت کے قیام اور پھر وہاں کی حکمرانی کا لالچ دیکر استعمال کیا، ان کےذریعے بنگلہ دیش کے معصوم عوام میں احساس محرومی پیدا کیا اور پھر اس احساس محرومی کو یہاں تک ہوا دی کہ مشرقی پاکستان کے عوام اپنی ہی حکومت اور فوج کے خلاف نبر آزما ہوگئے،جن کے اندربھارت کےتربیت یافتہ فوجی بھی مکتی باہنی کے نام پر شامل کئے جنھوں نے پاکستانی فوج کے خلاف جارحیت کی اور پھر مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کی غلط پالیسیوں کے باعث ہمارا مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیا، یہ بھارت کی بہت بڑی کامیابی تھی جس سے نہ صرف پاکستان کی وحدت کو نقصان پہنچا بلکہ کشمیر سمیت بھار ت میں چلنے والی کئی آزادی کی تحریکوں نے بھی دم توڑ دیا، وقت گزرتا گیا نوے کی دہائی میں ایک بار پھر کشمیر میں آزادی کی تحریک نے سر اٹھایا بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور ایک بار پھر پاکستان کو کمزور کرنے کے لئے بھارت نے پھر وہی کھیل دہرانے کی کوشش کی، پاکستان میں کمزور اور ضمیر فروش سیاستدانوں کی تلاش شروع کی، کراچی میں ایک بار پھر احساس محرومی کا کھیل شروع کیا گیا اس دفعہ نشانہ بنے بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین، جو سند ھ کے شہری علاقوں میں مکمل طور پر سیٹ تھے، تعلیم اور تہذیب ان کی پہچان تھی، ملک بھر میں یہ افراد بابو یا بھیا کے نام سے پہچانے جاتے تھے یعنی تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے لوگ، پاکستان کی بیوروکریسی ہو یا نجی کاروباری ادارے، بینک ہوں یا سرکاری ادارے ہر جگہ ہی یہ پڑھے لکھے اردو بولنے والے افراد حاوی تھے، سیاست میں بھی پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی یا مسلم لیگ ہر جگہ ہی ان اردو بولنے والوں نے اپنا مقام بنا رکھا تھا،لیکن پھر ان کے اندر بھی ایک منصوبہ بندی کے ذریعے احساس محرومی کا بیج بویا گیا، انھیں ڈرایا گیا، انھیں بتایا گیا کہ اگر انھوں نے اپنا نام اور شناخت حاصل نہیں کی تو انھیں واپس بھارت بھیج دیا جائے گا، غرض جب احساس محرومی انتہا پر پہنچا تو اردو بولنے والی قوم کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں قلم کی جگہ اسلحہ آچکا تھا اور پھر یہ اسلحہ اپنوں ہی کے خلاف استعمال ہوا اور پھر اس کے جواب میں ایک ریاستی آپریشن ہوا جس میں دونوں طرف کے ہزاروں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ریاست کی طرف سے ایک بار پھر ان اردو بولنے والوں کو سیاسی دھارے میں شامل کیا گیا تو معاملات بھارت کے ہاتھ سے نکل گئے،لیکن بھارت نے ہار نہ مانی اور پھر یہی منصوبہ بندی بلوچستان میں استعمال ہوئی، وہاں احساس محرومی پیدا کرنے کے لئے سیاسی افراد کی تلاش شروع کی گئی، وافر مقدار میں پیسہ علیحدگی پسند بلوچ رہنمائوں پر خرچ کیا گیا، بھارتی خفیہ ادارے کے اعلیٰ عہدیدار بلوچستان پہنچ چکے تھے، بلوچ علیحدگی پسندوں کو بیرون ملک سیٹ کرادیا گیا تھا، انھیں عالمی فورموں پر آواز اٹھانے کے لئے وسائل اور دماغ فراہم کردیا گیا تھا، سوشل میڈیا میں بھارتی ماہرین بلوچوں کے نام سے پروپیگنڈہ کررہے تھے، سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ پاکستان نے اچانک بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکار کورنگے ہاتھوں پکڑ کر دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا جس سے بھارت کے منصوبے کو شدید نقصان پہنچا لیکن کیونکہ بھارت اپنی طرف سے اس منصوبے کو بہت آگے لے جاچکا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ بلوچستان کا پھل بالکل پک چکا ہے اور کسی بھی وقت بھارت اس پھل کو پاکستان کے درخت سے الگ کرسکتا ہے لہذا بھارتی وزیر اعظم نے جو ش خطابت میں اپنی تقریر کے دوران بلوچستان کے ان غدار لیڈروں کا ذکر بھی کردیا جنھوں نے بھارت کا پاکستان کے اندر مداخلت کا شکریہ ادا کیا تھا لیکن بھارتی وزیر اعظم نے بہت بڑی غلطی کردی تھی کیونکہ جو لوگ بلوچ علیحدگی پسندوں کی اس وجہ سے حمایت کرتے تھے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ بھی اب بھارت کے خلاف اور پاکستان کے حق میں بات کرتے نظر آرہے ہیں، بھارت کے لئے یہ بہت بڑی ناکامی تھی کیونکہ نریندر مودی کی ذرا سی غلطی نے پاکستان کو عالمی برادری میںیہ کیس جتوادیا تھا، یہاں بھی ناکامی کے بعد بھارت نے ایک بار پھر کراچی میں ناپاک کھیل کا آغاز کیا،بھارت کشمیر میں تیز ہوتی ہوئی جدو جہد آزادی سے بہت زیادہ گھبرایا ہوا ہے اور وہاں بھارتی قابض فوجیوں کے ہاتھوں کئے جانے والے مظالم سے عالمی برادری کی نظریں ہٹانے کے لئے پاکستان میں بہت بڑے سانحے کے درپے ہے جس کے لئے بلوچستان میں خود کش حملوں سمیت وہ کراچی میں بھی کسی طرح کا آپشن استعمال کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے گا، یہی کچھ گزشتہ روز ہوا جب ایک سیاسی جماعت کو استعمال کرتے ہوئے پہلے پاکستان کے دل کراچی میں پاکستان کے خلاف نعرے لگوائے گئے، پاکستانی اداروں کے خلاف انتہائی نازیبا زبان استعمال کی گئی اور جب بات یہاں بھی نہ بنی تو پاکستانی میڈیا اداروں پر حملے کرائے گئے، مجھے گزشتہ شب ان خواتین کو دیکھ کر افسوس ہوتا رہا جو خود کئی بچوں کی مائیں تھیں وہ کس طرح ڈنڈے لیکر ٹی وی چینل کے دفتر پہنچیں اور کس طرح انھوں نے قانون کو ہاتھ میں لیا، کس طرح شیشے توڑے، ان کے چہرے پوری طرح عیاں تھے،کسی بھی وقت پولیس اور رینجرز ان کو گرفتار کرسکتی ہے، وہ خواتین جنھوں نے کبھی جیل نہیں دیکھی وہ کس طرح کئی کئی دن جیلوں میں بسر کریں گی،لیکن شاید یہ ہی بھارت کی کامیابی ہو جسے عوام میں احساس محرومی کا ایک اور موقع ہاتھ آجائے گا کہ دیکھو تمہاری مائوں اور بہنوں کو جیلوںمیں ڈالا گیا ہے لیکن یہاں بھارت کا اصل چہرہ دکھانا بہت ضروری ہے جہاں مسلمان انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزاررہے ہیں،جہاں بکرے کا گوشت بھی مسلمان ڈر کرکھاتے ہیں کہ کہیں ان پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر سر عام قتل نہ کردیا جائے، جہاں مسلمانوں کے لئے نہ ملازمت ہے نہ کاروبار، نہ اچھے اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ ہے اور نہ ہی یونیورسٹی میں تعلیم اور جہاں مسلمانوں کو مذہب تبدیل کرنے کے لئے دبائو ڈالاجاتا ہے جہاں مسلمانوں سے بھارت ماتا کی جے اور رام رام کے نعرے ڈنڈوں کے زور پر لگوائے جاتے ہیں ایسا بھارت بھارت نوازوں کو ہی مبارک ہو، محب وطن پاکستانی کا صرف ایک ہی نعرہ ہے کہ پاکستان زندہ باد ہے اور زندہ باد رہے گا۔

.