انتہائی دانش مندانہ اقدام

August 26, 2016

پیر کی رات کراچی ایک بڑے سانحے کی زد میں تھا۔ کراچی پریس کلب کے باہر ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ایم کیو ایم کے کارکن جمع تھے جن سے’ذہنی دباؤ کا شکار‘ الطاف حسین خطاب کر رہے تھے۔ اِس خطاب میں پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ اور دنیا بھر کے لئے سرطان قرار دینے کے ساتھ ساتھ فوج اور رینجرز کی قیادت کو بے نقط سنائی گئیں۔ اِس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ قائد نے اپنے پیروکاروں سے پاکستان مخالف نعرے لگوائے اور انہیں ٹی وی چینلز توڑ دینے پر انتہائی اشتعال انگیز لہجے میں اُکسایا۔ وہ قریب کی ایک عمارت میں داخل ہوئے جس میں دو ٹی وی چینلز کے دفاتر تھے اور وہاں گھنٹوں غنڈہ گردی اور توڑ پھوڑ کی جاتی رہی۔ اِس وحشیانہ کھیل میں ایک شخص ہلاک اور آٹھ دس زخمی ہوئے اور یہ خونریز مناظر ٹی وی پر پورے پاکستان میں دیکھے گئے۔ حالات کا جائزہ لینے وزیر اعلیٰ سندھ کے ہمراہ ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اے آر وائی کے دفتر پہنچے، تو انہیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا پیغام موصول ہوا کہ میڈیا ہاؤس پر حملہ آوروں گرفتار کر کے فوری طور پر قانون کے کٹہرے میں لائے جائیں۔ پولیس نے کمال فرض شناسی کا ثبوت دیتے ہوئے تشدد پر آمادہ افراد گرفتار کر لئے۔ ٹی وی چینلز پر ڈاکٹر فاروق ستار الطاف حسین کی زہریلی تقریر کی مدافعت کی نیم دلانہ کوشش کرتے رہے۔ رات گئے فاروق ستار پریس کلب آئے اور اندر داخل ہونے کی سرتوڑ کوشش کی، مگر رینجرز نے انہیں اندر داخل نہیں ہونے دیا اور حراست میں لے لیا اور علی الصباح رہا کر دیا۔ الطاف حسین کے پاکستان مخالف نعرے عوام کے اندر زبردست اشتعال پیدا کر رہے تھے اور ہر طرف سے شدید مذمت کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ قومی حلقوں میں ایک ہاہاکار مچی ہوئی تھی کہ ملک کی سلامتی اور صحافت کی آزادی پر شبخون مارا گیا ہے اور پاکستان کی سیکورٹی فورسز کے خلاف اشتعال پھیلایا جا رہا ہے۔ بعض سیاسی قائدین کی طرف سے ایم کیو ایم پر پابندی لگانے اور الطاف حسین پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کے مطالبے ہونے لگے۔ وزیراعظم نے رات گئے ایک نپا تُلا بیان دیا جو عوام کی اُمنگوں کا ترجمان تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایک لفظ کا حساب لیں گے، کسی کو پاکستان کے خلاف باتیں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں گی۔
سیاسی حلقے الطاف حسین کی جانب سے اچانک زہر آلود تقریر اور اپنے پیروکاروں کو تشدد پر اُکسانے کے اسباب کا جائزہ لیتے رہے۔ ایم کیو ایم کے چند رہنماؤں نے اپنے مطالبات کے حق میں بھوک ہڑتال کر رکھی تھی جس کے باعث انہیں سیاسی جماعتوں کی ہمدردیاں حاصل ہو رہی تھیں اور حکومتی منصب دار مسائل حل کرانے کی یقین دہانیاں کرا رہے تھے۔ ان کے بعد عمومی تاثر یہ پیدا ہوا کہ حکومتی اعلانات کے بعد بھوک ہڑتال ختم کر دی جائے گی، مگر ناگاہ الطاف حسین نے ’ڈرون حملہ‘ کر ڈالا اور خود کو اور اپنی جماعت کو زندگی اور موت کے مسئلے سے دوچار کر دیا۔ سوال اُٹھنے لگے کہ جب الطاف بھائی پاکستان کے خلاف اِس قدر بغض اور نفرت رکھتے ہیں اور اِس کی تخلیق کو تاریخ کی سب سے بڑی حماقت سمجھتے ہیں، تو اُن کی جماعت کو پاکستان میں زندہ رہنے اور اِس کے کارکنوں اور عہدے داروں کو پارلیمان اور منتخب اسمبلیوں میں بیٹھنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ ایک شخص کا ہذیان ایک ایسی جماعت کا مستقبل تاریک کیے دے رہا تھا جس کی عوام کے اندر جڑیں بھی ہیں اور اِس کے وابستگان تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ اِس کی قومی اسمبلی میں پچیس اور سندھ اسمبلی میں باون نشستیں ہیں اور سینیٹ میں اِس کی چوتھی پوزیشن ہے۔ الطاف حسین ماضی میں بھی ایم کیو ایم کے لئے بڑے مسائل پیدا کرتے آئے تھے اور فسطائی انداز میں پارٹی چلا رہے تھے۔ وہ 1992ء سے لندن میں ہیں اور ریموٹ کنٹرول سے معاملات چلاتے آ رہے ہیں۔ اِ ن کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں اور غیر جمہوری رویوں سے پارٹی کی عوام پر گرفت کمزور پڑتی جا رہی تھی اور اب ایک ایسا مرحلہ آ گیا تھا کہ اِس جماعت کا عسکری ونگ قانون کی گرفت میں آتا جا رہا تھا اور کراچی آپریشن میں اِس کے وہ عناصر کیفرکردار کو پہنچ رہے تھے جو ’را‘ سے تربیت اور فنڈز حاصل کر کے شہر کا امن و امان تباہ کر رہے تھے۔ آخر کار ایم کیو ایم کے کارکنوں کو یہ احساس ہوا کہ انہیں الطاف حسین اور پاکستان میں سے پاکستان کا انتخاب کرنا ہو گا اور 22اگست کی رات نے انہیں انتخاب کا موقع فراہم کر دیا۔
عامر لیاقت حسین اور ڈاکٹر فاروق ستار جب 23اگست کی صبح رینجرز کی حراست سے باہر آئے، تو انہوں نے مقامی رابطہ کمیٹی اور اراکینِ اسمبلی کی مشاورت سے ایک ایسا فارمولا وضع کیا جس میں قائد سے ایک فاصلہ رکھا جائے اور عوام کے اعتماد پر بھی آنچ نہ آنے پائے۔ ڈپٹی کنوینر فاروق ستار جن کے نام پر ایم کیو ایم الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے، انہوں نے 23اگست کی شام پریس کلب میں پریس کانفرنس کی اور ایک ہیجانی فضا میں بڑی حد تک ناپ تول کر بات کی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ 22اگست کے واقعات پر ہمیں بہت شرمندگی ہے اور ہم اُن سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم پاکستان کی سالمیت اور سلامتی کے لئے جدوجہد کرتے آئے ہیں اور ایم کیو ایم کی مستقل پالیسی یہی ہے۔ جو لوگ اِس پالیسی پر یقین نہیں رکھتے، وہ اپنی کوئی اور جماعت بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الطاف حسین کی صحت اچھی نہیں، اِس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے فیصلے اب پاکستان کے اندر ہوں گے اور ہم کسی کو بھی بائیس اگست کی رات کے واقعات دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اِس پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کے تمام اہم لوگ موجود تھے جن کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے۔ کراچی شہر اور اِس کے باہر پریس کانفرنس کا خیر مقدم ہوا اور منتخب اراکینِ اسمبلی نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ نااہل ہونے اور مقدمات کے گرداب سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ عام کارکن میں ایک نیا جذبہ اُبھرتا ہوا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہتر طور پر اظہار کر سکے گا اور قومی اداروں کی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ لندن سے جو پہلی پریس ریلیز آئی، وہ زمینی حقائق سے بیگانہ تھی اور یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ پریس کانفرنس نے کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی۔ محترمہ نسرین جلیل سے میری اِس موضوع پر ٹیلی فونک گفتگو ہوئی، تو انہوں نے بتایا کہ قائد الطاف حسین نے بعد ازاں کراچی کی رابطہ کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا ہے اور ڈاکٹر فاروق ستار کو جماعت کی سربراہی سونپ دی ہے۔
غائر نظر سے دیکھا جائے، تو مائنس ون فارمولے پر عمل ہو گیا ہے اور ڈاکٹر فاروق ستار نے کمان سنبھال لی ہے جو ایک تجربے کار اور دھیمے لہجے کے سیاسی لیڈر ہیں اور بہت جلد حالات کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں الطاف حسین پر بہت زیادہ تبریٰ بھیجنے سے اِس لئے اجتناب کیا کہ کارکنوں میں ایک جذباتی ردِعمل پیدا ہو سکتا تھا۔ اب یہ کام حکومتِ پاکستان کا ہے کہ وہ اِس بارے میں حکومتِ برطانیہ سے باضابطہ رابطہ قائم کرے کہ اِس کا ایک شہری اپنی اشتعال انگیز تقریروں سے پاکستان میں تشدد کو ہوا دے رہا ہے جس کا سخت مواخذہ ازبس ضروری ہے۔ اِس مرحلے پر ہماری قومی پالیسی یہ ہونی چاہیے کہ ایم کیو ایم کو آزادی سے کام کرنے کی اجازت دی جائے، البتہ اِس کے عسکری ونگ پر کڑی نگاہ رکھنا ضروری ہے۔ بلدیاتی ادارے فعال کیے جائیں اور شہریوں کے معاملات اُن کے منتخب نمائندوں کو تفویض کرنے سے صورتِ حال بہت جلد بہتر ہو سکتی ہے۔ اُردو داں طبقے کو یہ احساس نہیں ہونا چاہئے کہ اُن کی حیثیت کو ضعف پہنچایا جا رہا ہے۔ الطاف حسین کی مذمت ضرور کی جائے کہ اِس نے پاکستان کے امیج اور سیاسی عمل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے، مگر ایم کیو ایم جو ایک سیاسی طاقت ہے، اِس کے حقوق اور مفادات کا خیال رکھنا ہمارے قومی مفاد میں ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کے انتہائی دانش مندانہ فیصلے نے ہنرمندی اور بالغ نظری سے اپنا گھر درست کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ جناب وسیم اختر نے کراچی کا میئر منتخب ہونے کے بعد بڑی حوصلہ افزا تقریر کی ہے اور تمام سیاسی طاقتوں اور سیکورٹی اداروں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ہم اُن لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے پاکستان بنایا تھا۔ ہم پوری توانائی اور شبانہ روز محنت سے اپنے وطن کے استحکام اور وقار میں اضافہ کریں گے۔


.