تلملایا ہوا درمیانہ طبقہ

October 01, 2014

نیویارک میں تحریک انصاف کا وزیراعظم نواز شریف کے خلاف احتجاج تاریخی تھا۔ اس میں دو سے تین ہزار لوگوں نے شرکت کی جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس سے پیشترمسئلہ کشمیر پر بھی اتنے بڑے اجتماع کو متحرک نہیں کیا جا سکا۔ یہ احتجاجی ہجوم اس لحاظ سے بھی مختلف تھا کہ اس سے پہلے اس طرح کے مظاہروں میں نئی نسل کے پاکستانی امریکی کبھی شامل نہیں ہوئے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس میں اٹھارہ سے پینتیس سال کی عمر کے لوگوں کی اکثریت تھی۔ اس پہلو سے یہ مثبت قدم تھا کہ اس میں تارکین کی دوسری نسل نے حصہ لیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس میں امریکی حکومت کی کوئی سازش نہیں تھی کیونکہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف بھی کشمیری اور سکھ مظاہرہ کررہے ہیں۔ بلکہ نریندر مودی کے خلاف تو ایک تنظیم نے عدالتی سمن بھی حاصل کررکھے ہیں اور اس کو پہنچانے والے کے لئے دس ہزار ڈالرکے انعام کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔
امریکہ میں مادر وطن میں انصاف کے لئے ہندوستانی تارکین وطن نے سو سال پہلے غدر پارٹی کے نام سے تحریک چلائی تھی اور ایک جہاز کاما گاٹامارو پر سوار ہو کر ہندوستان پہنچے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ ان میں سے اکثر کو انگریز استعماریوں نے گرفتار کیا اور ان میں سے کئی کو کالے پانی یعنی جزائر انڈیمان میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ عام تاثر کے الٹ اس تحریک میں سکھ اور ہندو ہی نہیں مسلمان بھی شامل تھے۔ یہ ایک عظیم قوم پرستی کی تحریک تھی جس کا تاریخ میں ہمیشہ ذکر رہے گا۔ماضی قریب میں اسی کی دہائی کے اوائل میں ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف نیویارک میں ایک سیاسی تنظیم کمیٹی فار پیس اینڈ جسٹس کے نام سے بنائی گئی تھی جس میں مشہور دانشور اقبال احمد، فیروز احمد، اعجاز احمد، جوہر میر، پشاور یونیورسٹی کے سابقہ وائس چانسلر ذوالفقار گیلانی جیسے لوگ شامل تھے۔ اسی کمیٹی کے ایک ممبر شفقت خان نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف جنرل اسمبلی کی تقریر کے دوران نعرہ بلند کیا تھا۔ اس تنظیم نے ایک ماہوار جریدے ’’جسٹس‘‘ کا بھی اجراء کیا تھا۔ کمیٹی کے غیر فعال ہونے کے بعد ڈاکٹر فیروز احمد کی سربراہی میں ایم آر ڈی بھی بنائی گئی تھی جو کئی سال تک متحرک رہی۔سیاسی پارٹیوں میں سب سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی نے امریکہ میں اپنے آپ کو منظم کیا تھا۔ اس کے روح رواں ڈاکٹر عبداللہ ریار تھے جو کہ بعد میں سینیٹر بن کر پاکستان چلے گئے تھے۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی جلا وطنی کے زمانے میں پیپلزپارٹی امریکہ کا ڈھیلا ڈھالا تنظیمی ڈھانچہ موجود رہا ۔ ان کی شہادت کے بعد امریکہ میں پیپلز پارٹی کا کوئی خاص وجود نہیں ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) بھی ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم کے طور پر موجود ہے۔ یہ پارٹی بھی میاں نواز شریف کی جلا وطنی کے زمانے میں کافی متحرک تھی لیکن اب کافی حد تک غیر فعال ہے۔ البتہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی تنظیم بہت مضبوط ہے۔ تحریک انصاف کے شیدائی اور پروانے تو وافر تعداد میں ہیں لیکن اس کی کوئی تنظیمی شکل موجود نہیں ہے۔تحریک انصاف کے بہت سے پیروکار جنون کی حد تک عمران خان کے چاہنے والے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر آسودہ حال اوپر والے درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو پاکستان کی طرح برگر کلاس تو نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ خوشحال طبقوں کے حصے ضرور ہیں۔ ان میں پہلی نسل کے تارکین وطن میں زیادہ تر تعداد ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنی محنت سے معاشی ترقی کی ہے۔ ان کو عمران خان کا موروثی اور خاندانی سیاست کے خلاف نعرہ بہت بھاتا ہے۔ یہ وہ ابھرتا ہوا درمیانہ طبقہ ہے جو پاکستان کی روایتی اشرافیہ کا نہ تو حصہ ہے اور نہ ہی بن سکتا ہے۔ ان کے ذہن میں ریاست کامغربی سماجی ڈھانچہ ہے جس میں ایک کالا (باراک اوباما) یا عام امریکی (بل کلنٹن) بھی صدر بن سکتا ہے۔ پی آئی اے کی فلائٹ میں حاکم اشرافیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے ان کے ہیرو ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو اپنی محنت اور صلاحیتوں کی بنا پر معاشرے میں معاشی ترقی کی منازل طے کرکے ایک خاص مقام تک پہنچا ہے۔ تارکین وطن کے اس طبقے کے پاس پیسے بھی ہیں لیکن جب یہ پاکستان جاتا ہے تو نہ کوئی فلائٹ اس کا انتظار کرتی ہے اور نہ ہی ٹریفک حوالدار اسے سیلوٹ مارتا ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پراس طبقے کا مراعات یافتہ طبقے کو دیکھ کر خون کھول جاتا ہے۔ کئی پہلووں سے امریکہ اور پاکستان کے تحریک انصاف کے شدت سے چاہنے والوں میں گہری مماثلت ہے۔ پاکستان کی سیاسی معیشت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ اہم ترین پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت میں زرعی سیکٹر سکڑ کر بیس پچیس فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے جبکہ سروس سیکٹر معیشت کا بڑا حصہ بن چکا ہے۔ زرعی معاشرے میں مراعات یافتہ طبقے کی اپنی ہیت ترکیبی ہوتی ہے ۔ اس میں طاقت خاندانی اور موروثی ہوتی ہے، اس کے الٹ سروس سیکٹر (تعلیم، صحت، ٹیکنالوجی وغیرہ) میں ذاتی صلاحیتیں اور محنت بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ سروس سیکٹر میں انسانی ذہن اور علم کی بنا پر ترقی کی جاتی ہے۔ آج کے پوش علاقوں میں اسی سروس سیکٹر کے لوگ آباد ہو رہے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو یہ طبقہ دن بدن وسیع تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ روایتی اشرافیہ سکڑ رہی ہے۔ لہٰذا ان نئی معاشی حقیقتوں کا سیاسی اظہار نا گزیر ہے۔ عمران خان کے دائیں بائیں بھی جہانگیر ترین جیسے سرمایہ دار موجود ہیں جو اپنے ذاتی جہازوں سے سفر کرتے ہیں۔ خود عمران خان کا تعلق اسی طبقے سے ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ عمران خان کے پیروکار ان سرمایہ داروں اور شاہ محمود قریشی جیسے زمینداروں سے صرف نظر کرتے ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ نئے ابھرتے درمیانے طبقات مارکیٹ اکانومی (منڈی کی معیشت) پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ستّر کی دہائی کے سوشلسٹ یا اسلامی سوشلسٹ انقلاب کی توقع نہیں کرتے بلکہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کو ہی بہتر اور منصفانہ بنانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کو کسی کے امیر ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن انہیں ناجائز مراعات قابل قبول نہیں ہیں۔تارکین وطن اور پاکستان کے اندر تحریک انصاف نے ایک جیالا کلچر پیدا کیا ہے جو اس سے پہلے پیپلز پارٹی میں نظرآتا تھا۔ درمیانے طبقے کے ان جیالوں کی سوچ سادہ اور یک طرفہ ہے۔ وہ نظام کی پیچیدگیوں اور اس میں طویل المیعاد جمہوری عمل کے تسلسل کے لازم ہونے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ جمہوریت بدعنوان حکمران طبقے کے مک مکا کا نظام ہے جو عوام کے لئے بے سود ہے۔ ویسے ان کی اس بات میں اس حد تک صداقت ہے کہ جمہوری نظام نے عام شہری کی زندگی میں کوئی آسانیاں پیدا نہیں کیں۔ لوڈ شیڈنگ کا کم نہ ہونا اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ جمہوری حکومت کے خلاف مقبول استعارہ بن چکا ہے۔تحریک انصاف کے لانگ مارچ اور دھرنے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف شروع ہوئے تھے لیکن اب لگتا ہے کہ یہ مسئلہ ثانوی بن چکا ہے اور نظام کا غیر منصفانہ ہونا بنیادی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ انتخابات میں دھاندلی بھی ایک استعارہ بن چکا ہے جس کا مطلب پورے نظام میں دھاندلی ۔ اس لئے اگر اس وقت سیاسی بحران ٹل بھی جائے تو پھر بھی تلملایا ہوا درمیانہ طبقہ چین سے نہیںبیٹھے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان میں آنے والے دنوں میں اور بھی بڑے بڑے سیاسی بحران پیدا ہوں گے۔