ملالہ یوسفزئی، اٹھارہ اکتوبر اور لیاری

October 16, 2014

سب سے پہلے ملالہ یوسف زئی کہ جس نے ایک مختلف پاکستان کا تصور ابھارا ہے۔ وہ پاکستان جو طالبان کا نہیں ملالہ کا پاکستان ہے جو اب تک اپنے جنم میں آنے سے منکر ہے۔ لیکن شاید وہ آئے گا ضرور جیسے حبیب جالب نے کہا تھا :
میں آئوں نہ آئوں میری بیٹی
آنے والا سویرا ہے تیرا
لوگو! آپ کے ماضی حال اور آپ کی نسلوں کے ساتھ بہت ہاتھ کیا ہاتھی ہوچکا۔ باچا خان (کہ جنہوں نے انیس سو بیس کی دہائی میں غیر مسلح پٹھان کا تصور دیا۔ جس نے پختونخوا میں آزاد مدرسے قائم کئے۔ بلاشبہ وہ پہلے پختون معزز تھے جنہوں نے اپنی بیٹی کو ازابلا تھوبرن کالج لکھنو ٔ تک پڑھنےبھیجا۔ اس سے پہلے اپنے بیٹے غنی خان کے ساتھ اپنی بیٹی کو بھی اپنے قائم کردہ آزاد مدرسے میں ابتدائی تعلیم کو بھیجا) کے بعد پختونوں سمیت تمام انسانیت کی یہ ناز ملالہ یوسف زئی نے امن کا نوبیل انعام جیت لیا۔ اس نہتی لڑکی نے ثابت کیا کہ اس کا قلم طالبان کی بندوق سے اور اس کا کتابوں سے بھرا بستہ خودکش بمباری کی جیکٹ سے زیادہ طاقتور ہے)امن کا انعام جیتنے پر ملالہ اور بھارت میں بچوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبردار کیلاش ستیارتھی نے وہ کام کر دکھایا جس میں اب تک بھارت اور پاکستان کے رہنما و حکمراں ناکام رہے یعنی کہ دونوں ممالک کے درمیان امن۔ یہ نوبیل امن انعام مشترکہ طور پر بھارت اور پاکستان کے حکمران و سیاستدان بھی جیت سکتے تھے۔ لیکن دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کے دہانے پر بھی ملالہ نے دونوں دیسوں کے وزرائے اعظموں کو ان کے امن کے انعام وصول کرنے والی تقریب میں شرکت کرنے کی گزارش کی ہے۔ لیکن وہ آئیں گے نہیں کہ ان کی سربلندی وہ سمجھتے ہیں کہ امن پر نہیں جنگ پر ہے۔ یہی فرق ہے ملالہ اوربلاول بھٹو میں۔ گاندھی جی جیسے عدم تشدد کے پیمبر بھی نوبیل انعام کیلئے نامزد تو ہوئے تھے لیکن اسے حاصل نہیں کرسکے تھے۔ ملالہ اور کیلاش ستیارتھی نے وہ کام کردکھایا۔ اب ان کےکام کےاثرات پاکستان و بھارت پر تو پڑیں گے ہی لیکن مستقبل بعید میں قوم افغان تک خطے میں دور رس اثرات پڑنے والے ہیں۔ خاص طور پر بچوں اور بچیوں کے حقوق و تعلیم کے حوالوں سے۔ امن کے حوالوں سے۔ لیکن کیا یہ پاکستان کے لوگوں کی بدقسمتی نہیں کہ اس ملک کی تاریخ میں ابتک نوبیل انعام جیتے والی دونوں شخصیات (طبعیات میں ڈاکٹر عبدالسلام خان اور امن کا نوبل انعام ملالہ یوسف زئی) لیکن دونوں ہی کسی نہ کسی وجہ سے جلاوطنی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور کردئیے گئے۔ اب بھی دائيں بازو کے کٹھ ملا ہوں کہ بائيں بازو کے کٹھ ملا دونوں انتہائوں پر ایسے کئی لوگ ہیں جو ملالہ کے خلاف کوئی دقیقہ فروگشت نہیں کررہے۔ میں حیران ہوا جب ایک نام نہاد ترقی پسند اسے’’چائلڈ جاسوس‘‘ کہہ رہے تھے۔ اور کچھ لوگوں کو ملالہ اور اس کے نوبل انعام جیتنے پر یہود نصاری سازش تو کچھ کو سامراج کی سازش دکھائی دے رہی ہے۔ کاش ہم میں سے سارے والدین استاد ضیاء الدین یوسف زئی جیسے اور ہمارے سب کے بچے ملالہ یوسف زئی بن جائيں۔ ہمارے ساری بھائی کیلاش ستیارتھی۔ مجھے نہ جانے کیوں اس موقع پر سندھ کی مظلوم بیٹی کائنات سومرو یاد آئی۔ کیلااش ستیارتھی سے خاص طور اور عام طور ملالہ سے اس موقع پر کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کیا وہ سندھ کی مظلوم بیٹی اور ملالہ کی ہم عمر کائنات سومرو کے ساتھ ہونیوالی زیادتی اور اس کی اپنے لئےانصاف کی پاکستان جیسے ملک میں صدائے بصحرا جدوجہد کے بارے میں جانتے ہیں جو اپنے ہی دیس میں جلاوطنی جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ آکر وہ نہیں جانتے تو پی بی ایس ٹیلیویژن کی کائنات سومرو پر بنائی ہوئی دستاویزی فلم آئوٹ لاڈ ان پاکستان ضرور دیکھیں۔ کیلاش اور ملالہ کی رسائی اہم عالمی رہنمائوں تک ہے وہ کائنات سومرو اور اس جیسی کئی بچیوں کا کیس ضرور ان کے اور دنیا کے سامنے لائيں۔ وہ میہڑ ضلع دادو سندھ کی چودہ سال بچی آج سے پانچ برس قبل اسکول جاتے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنی ۔ جب سے وہ اپنے اہل خانہ سمیت انصاف کے حصول کو دربدر ہے۔ ایسی کئی کائنات سومرو سے یہ ظلم اور جہالت کی کائنات کراچی تا لنڈی کوتل بھری پڑی ہے۔ بلاول بھٹو نے کائنات سومرو جیسی بچیوں کو انصاف دلایا نہیں اب وہ ملالہ کو سندھ کی تعلیم سدھارنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ان کی ایک پھوپھی عذرا پیچوہو، ان کے چاچا یعنی ان کے والد کے لنگوٹئے ڈاکٹر عاصم اور ان کے پھوپھا سیکرٹری تعلیم فضل اللہ پیچوہو سندھ میں تعلیمی بورڈوں کے سربراہ منتخب کرنے والے بورڈ میں ’’انٹرویو‘‘ کرنے والوں میں بھی شامل ہیں تو اسی خاندانی سرمایہ کاری بورڈ میں ملالہ کی شرکت چہ معنی! ملالہ کی بینظیر بھٹو جیسی خاتون وزیراعظم اور پاکستان کی سیاست میں بڑی جرأت رکھنے والی سے فطری طور پر متاثر ہونا اپنی جگہ اب جو محض پینا فلیکس میں تبدیل کردی گئی ہے۔ کل پرسوں اٹھارہ اکتوبر ہے اور پورا سندھ پینا فلیکس سے بھر دیا گیا ہے۔ کہ سرکاری سرپرستی میں بلاول کی سیاست کشائی ہور ہی ہے۔ سارا نزلہ شاید آپ کو شاذ و نادر ہی معلوم ہو کہ لیاری پر ہے۔ کہ وہی بات کہ
جب گلستان کو خوںکی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
یہی دن اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کا تھا جب کارساز کراچی میں بینظیر بھٹو کے لاکھوں کے فقیدالمثال استقبالی جلوس میں ان پر خود کش حملے میں کئی لوگ اور انکے اپنے سروں کے چراغ جلانے والے جیالے بھسم ہوئے تھے جن میں ایک بڑی تعداد لیاری والوں کی تھی۔ فٹ بالر عبدالخالق بلوچ اور لیاقت بلوچ فقط دو نام ہیں جنکا تعلق لیاری سے تھا۔ اسی طرح کسے معلوم نہیں کہ رحمان ڈکیت بی بی کے محافظوں میں شامل تھا۔ یہ بھی لیاری کا بچہ جانتا ہے کہ ’’صاحب ‘‘نے کس کس منہ پھٹ جیالے کو اپنی گاڑی کی اگلی سیٹ پر نہ بٹھایا تھا۔ لیاری والے نبیل گبول کو کبھی’’صاحب ‘‘ کہا کرتے۔
لیاری میں اب یہ کہاوت بن چکی ہے کہ جب بھی پیپلزپارٹی پر آسمانی بجلی گرنے والی ہوتی ہے تو وہ مدد کے لئے لیاری کا رخ کرتی ہے۔ لیاری کے قدیمی باشندے کا کہنا تھا: لیاری، کراچی کے سیاسی میدان میں فٹ بال کی وہ گیند ہے جسے پیپلزپارٹی نے چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ خوب ککیں ماریں۔ کسی کیساتھ پاس پاس بھی نہیں کھیلی، تن تنہا گول کرتی رہی۔ بے رحم ککس سے اب گیند اس قدر ادھڑ چکی ہے کہ پہچان میں نہیں آرہی۔ پھر بھی پی پی اس سے کھیل رہی ہے۔اب کی بار اس نے آہنی شوز پہن رکھے ہیں جس سے گیند میں جگہ جگہ سوراخ بھی ہوچکے ہیں۔ آہنی شوز پہن کر کھیلنے کا آغاز سانحہ کارساز کراچی کے فوری بعد 18 اکتوبر 2007 کو ہوا تھا۔
کم از کم اس پر آپ کو تعجب لگے تو لگے لیکن لیاری والوں کو غصہ ضرور لیکن تعجب نہیں کہ ان کو اٹھارہ اکتوبر کو بلاول کے جلسے میں شرکت کرنے کو لیاری میں بدنام زمانہ بابا لاڈلا گروپ کے رئوف بلوچ بزور بندوق بلاول کے جلسے کو کامیاب جبکہ عزیز بلوچ جسکا کہتے ہیں لیاری کے کچھ علاقوں میں اب خوف ہے جلسے کو ناکام بنانے کے مشن پر ہیں جس میں لیاری کے لوگ سینڈوچ بن کر رہ گئے ہیں۔ کابل وکشمیر فتح ہو نہ ہو لیکن لیاری فتح کرلیا گیا ہے۔ لیاری کے لوگوں نے مجھے جو بتایا ان کے لفظوں ميں اس کا لب لباب کچھ یوں ہے: دو جرائم پیشہ گروپ سرگرم ہیں۔ بابا لاڈلا اور رؤف بلوچ کاگروہ جبکہ کالعدم امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کا گروپ، جس کا اثر اب بھی کچھ علاقوں میں قائم ہے،وہ جلسہ کو عوامی قوت فراہم کرنے کی طاقت کے زور پر مخالفت کررہے ہیں۔ عوام سینڈوچ بن گئے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق غریب شاہ روڈ پر کاروباری علاقہ، جھٹ پٹ مارکیٹ، کلاکوٹ، سنگولین، شیدی ولیج روڈ، شاہ بیگ لائن، رانگی واڑہ اور دیگر علاقے خطرناک بن چکے ہیں۔ روزانہ کے پُرتشدد واقعات میں روزانہ ایک دو افراد کی ہلاکت اور نو سے دس افراد کا زخمی ہونا معمول کی بات بن گیا ہے۔
لیاری سے ایک ای میل کے مطابق:’’18اکتوبر 2007ء کو شہید ہونے والے عبدالخالق بلوچ، لیاقت بلوچ اور دیگر شہداء کی روحیں اس سال لیاری کے حالات دیکھ کر کانپ رہی ہوں گی۔
پیپلزپارٹی کو تحریک انصاف، ایم کیو ایم سے بڑا جلسہ کرکے اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ بلاول بھٹو نے عید کے دن جب الطاف حسین کو للکارا تب لیاری والے لرز گئے تھے کیونکہ انہوں نے اپنے عقب لیاری سے ایم این اے منتخب ہونے والے شاہجہان بلوچ کو کھڑا کررکھا تھا۔ جہاں کبھی قادر پٹیل کا چہرہ ہوتا تھا۔ اور واقعی لیاری میں قہر ٹوٹ پڑا ہے‘‘۔پینا فلیکس کے شور شرابے میں نہ لیاری میں روز مرہ کے تشدد میں قتل کسی کو نظر آئے اور نہ ہی وہ بچی کے ساتھ زنا بالجبر۔ لیاری سے اطلاع اس طرح آئی: واقعہ گُل محمد لین کا ہے ، جہاں بلوچی زبان کے عظیم شاعر اکبر بارکزئی ( قادر بخش نظامانی کا داماد ) پہلے رہتا تھا، جہاں بلوچ قوم پرست یوسف نسکندی کا گھر تھا۔ جہاں لیاری کی قسمت تبدیل کرنے کے بڑے بڑے پروجیکٹس چل رہے ہیں، وہاں ایک لڑکی کے زیادتی ہوئی ہے۔ایک اور تحویلی قتل:گزشتہ ہفتے کراچی میں ایک مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی جو گمشدہ قومپرست نوجوان کارکن شکیل کھونہارو با المعروف ڈاکٹر شکیل سندھی کی تھی۔ شکیل کھونہارو کو کچھ عرصہ قبل غیر سول جاسوسی ایجنسیوں نےلاڑکانہ کے ڈوکری کے قریب اسکے گائوں سے گرفتار کیا تھا۔ شکیل سندھ یونیورسٹی جامشورو کا طالب علم تھا اور اسکا تعلق جئے سندہ متحدہ محاذ سے تھا جس پر الزامات ہیں کہ وہ تشدد و تخریب کاری کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ جس طرح چاہے کاز کوئی بھی ہو تشدد اسکا جواز ہر گز نہیں ہوسکتا اس طرح بغیر عدالت کے رجوع کرنے سے ایجنسیاں خود جج جیوری بن کر تشدد کے ذریعے ہلاکتوں اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا جواز نہیں رکھ سکتیں۔ خود جج اور جیوری نہیں بن سکتیں۔ جسم یا شکیل کھونہارو جیسے کارکن پاکستان کو ہرگز نہیں توڑ سکتے لیکن ان کو ماورائے آئین و قانون قتل کرنے اور غائب کردینے جیسی پالیسیاں پاکستان کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ مشرقی بنگال میں بھی یہی ہوا تھا۔ بلوچستان میں بھی اسی طرح کے الزامات لگ رہے ہیں جہاں محض ایک صوبے بلوچستان میں فقط معروضی رپورٹنگ یا ریاستی و غیرریاستی قوتوں کی مرضی کی رپورٹنگ نہ کرنے پر مبینہ طور پر چالیس صحافی قتل کردئیے گئے ہیں۔