’’نیچ‘‘ اشرافیہ اور پاکستان کا مستقبل

September 01, 2016

یونائیٹڈ نیشنز ڈ ی ویلپمنٹ پروگرام کے پاکستان میں سابق ڈائریکٹر مارک آندرے نے پاکستان کی اشرافیہ کا بھرپور اور بہترین تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں تبدیلی صرف اس صورت میں آسکتی ہے اگر یہاں کی اشرافیہ قوم کے حق میں اپنے مفادات کی قربانی پر تیار ہو یعنی بااثر سیاستدان اور دولت مند طبقہ اپنے وقتی مفادات اور خاندانی، طبقاتی مفادات کو ملکی مفاد پر قربان کردے۔ مارک آندرے نے مزید کہا کہ ملک میں اشرافیہ کا ایسا طبقہ نہیں چل سکتا جو ناخواندہ سستی لیبر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دولت کمائے، لندن میں پارٹیاں کرے اور دبئی میں سرمایہ کاری کرے۔ بزنس ریکارڈز کے مطابق انہوں نے کہا کہ اشرافیہ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں ملک چاہئے بھی یا نہیں؟ مارک آندرے نے اور بھی بہت کچھ کہا جو سو فیصد درست اور اتنا ہی بھیانک ہے۔ یہاں مجھے اپنا ہی ایک فیورٹ جملہ یاد آتا ہے کہ........ ’’پاکستانیوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں چند خاندان چاہئیں یا پاکستان؟‘‘ کیونکہ یہ چند خاندان اور پاکستان زیادہ دیر تک ساتھ نہیں چل سکتے اور کائونٹ ڈائون شروع ہے۔مارک آندرے نہیں جانتے کہ پاکستان کی بیشتر اشرافیہ دراصل اشرافیہ ہے ہی نہیں۔ یہ دو نمبر اور جعلی اشرافیہ ہے جو کسی طرح بھی جونکوں سے کم نہیں اور جونک کی خاصیت یہ ہے کہ وہ خون پینا ترک نہیں کرتی بلکہ اس وقت تک ا پنے شکار کا خون پیتی رہتی ہے جب تک خود بخود اس کا پیٹ نہ پھٹ جائے ،سو اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ اپنے مفادات کی قربانی دے اس لئے ان کی قربانی دی جاسکے تو اور بات، ان کے قربانی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ اس کی سرشت کے خلاف ہے۔پاکستانی اشرافیہ تاریخی طور پر’’نیچ‘‘ ہے جس کے بارے میں ہمارا عظیم صوفی شاعر کہتا ہے’’نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے ناں پایاککر تے انگور چڑھایا ، ہر گچھا زخمایا‘‘یہ ملک کو زخم لگاتے رہیں گے، اسی طرح لوٹتے اور استحصال کرتے رہیں گے، اسی طرح بیرون ملک پارٹیاں کرتے، جائیدادیں بناتے اور بزنس بڑھاتے رہیں گے۔ پاکستان اور پاکستانیوں پر نہ انہیں کبھی رحم آیا نہ آئے گا۔ ان کے نزدیک پاکستان کی ’’ترکیب استعمال‘‘ ہی ایک ہے کہ اسے جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹو۔پاکستان کی بیشتر اشرافیہ کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو انگریز نے1857کی جنگ آزادی کے بعد’’پیدا ‘‘ کی۔ یہ وہ وطن فروش اور اہل وطن فروش تھے جنہوں نے اس جنگ آزادی میں وطن اور اہل وطن کے ساتھ غداری کرتے ہوئے انگریزوں کی ہر طرح مدد کی۔ انہیں عددی قوت(مین پاور) فراہم کی، دامے درمے قدمے سخنے ان کی مدد کی، ان کے لئے مخبروں کا کام کیا اور جب جنگ آزادی ناکام ہوئی تو انگریز نے اپنے ان پالتوئوں اور دلالوں کو جی بھر کے نوازا۔ انہیں عزت و اہمیت دی، بے پناہ دولت جاگیروں سے نوازا اور ان کی اولادیں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دھرتی کے اس حصہ اور دھرتی زادوں کی گردنوں پر سوار جونکوں کی طرح ان کا خون پی رہی ہیں۔نیچ اشرافیہ کی دوسری قسم اس وقت معرض وجود میں آئی جب پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس کا پہلا حصہ ’’جعلی کلیموں‘‘ اور’’جعلی ذاتوں‘‘ پر مشتمل تھا جس نے تقسیم کی اتھل پتھل، افراتفری، نفسا نفسی، لوٹ مار، طوائف الملوکی کا پوری بے رحمی و بے شرمی سے فائدہ اٹھایا۔دوسری طرف ہر کام کاروبار میں خلا ہی خلا تھا جس نے پر ہونا ہی تھا سو اکثر و بیشتر’’بلائوں‘‘ نے ہی ان خلائوں کو پر کیا، پھر بونس وائوچرا سکیموں ، ٹرانسپورٹ روٹ پرمٹوں اور سینما کے لائسنسوں کی رشوتوں کا موسم بہار آیا۔ ریلوے کے لوہے کے گوداموں سے لے کر مین ہولز کے ڈھکنوں تک کی لوٹ مچی اور’’شہری اشرافیہ‘‘ کی داغ بیل پڑی۔ یوں اک ایسی اشرافیہ ابھر کر سامنے آئی جو اصلاً، حقیقتاً ،جوہراً سو فیصد بدمعاشیہ تھی جس نے’’قبضہ گروپوں‘‘ جیسے انڈے بچے بھی دئیے۔کم و بیش یہی وہ لوگ تھے جو بعدازاں بتدریج سیاست میں بھی گھستے چلے گئے اور ’’طاقت بذریعہ دولت، دولت بذریعہ طاقت‘‘ کا کلچر پھلتا پھولتا گیا جس کے نتیجہ میں آج مارک آندرے جیسے امریکن کو یہ کہنا پڑتا ہے کہ ..........’’انہیں ملک چاہئے بھی یا نہیں؟‘‘یہ جو امریکہ انڈیا گٹھ جوڑ سے بے نیاز کمیشن کک بیک کلچر ہے، بدترین الزامات کے جواب میں خاندانی قسم کی ڈھٹائی ہے۔ اصل مسائل سے منہ موڑ کر کھانچوں کے لئے میگا پراجیکٹس کی ترجیحات ہیں، گرتی ہوئی ایکسپورٹس، بڑھتے ہوئے بے تحاشا قرضے ہیں، سرمایہ کاری کا قحط ہے کہ جہاں حکمران اپنا سرمایہ باہر لگائیں ان کے ملک کے اندر کون لگائے گا، ترسیلات زر کابری طرح گرتا گراف ہے تو دیکھتے جائو کہ یہ ڈار معیشت کیسا کیسا وار کرتی ہے اور کررہی ہے لیکن سمجھ تب آئے گی جب سانپ نکل چکے ہوں گے او رصرف لکیریں باقی رہ جائیں گی۔ جو نوشتہ دیوار نہ پڑھ سکیں شاید لکیروں پر پیٹ بھی نہ سکیں۔


.