خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال

December 15, 2014

ہمارے خطے کی صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے ۔ گزشتہ ہفتے لندن میں افغانستان پر ہونے والی کانفرنس کو اس بدلتی ہوئی صورت حال کے تناظر میں دیکھنا چاہئے۔کراچی میں دفاعی نمائش ( آئیڈیاز ۔ 2014 ) کے موقع پرسیمینار سے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے خطاب اور اسی دن سابق صدر پرویز مشرف کے کراچی کے مقامی ہوٹل میں خطاب سے بدلتی ہوئی صورتحال کا ادراک کیا جا سکتا ہے ۔ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نےسیاست،معیشت اور جنگ کے مفہوم کو بھی تبدیل کردیا ہے ۔ اسی ہفتہ روسی صدر پیوٹن کا دورہ بھارت اور مختلف معاہد ے ظاہرکرتے ہیں کہ دنیا کی چاروں بڑی طاقتیں یعنی امریکہ ، روس ، چین اور یورپی یونین خصوصاً برطانیہ اس خطے میں اپنی اپنی پوزیشن لے رہے ہیں۔پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت میں ایک بار پھر اضافہ ہو گیا ہے ۔ پاکستان کو بہت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ یہ چیلنج جتنے بڑے ہیں ، مواقع بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔مگر اتنا ہی بڑا ملک میں سیاسی قیادت کا بحران ہے ۔ ملک میں نہ کوئی حکومت ہے اور نہ ہی پارلیمان کا کوئی کردار۔خاص طور پر اکیسویں صدی میں پھر دنیا میں تبدیلی آرہی ہے۔ افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے دنیا کی بڑی طاقتیں خطے میں از سر نو صف بندی کررہی ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں افغانستان کی صورتحال کا مکمل ادراک کرنا ہو گا ۔
اس کے بعد بدلتے ہوئے حالات سے نمٹنے کیلئے اپنی حکمت عملی وضع کرنا ہو گی ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں افغانستان کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ ’’ جب اسلامی دنیا میں چھوڑے ہوئے راستوں اور گنوائے ہوئے مواقع کی بات ہو رہی ہو تو افغانستان ایک منفرد مقام کا حامل نظر آتا ہے ۔ افغانستان نے بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کی اوائل کی دو عظیم جنگوں کے میدان کا کام دیا ہے ۔ ایک تو مغرب اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ تھی اور دوسری حال ہی میں اسلامی انتہا پسندوں کی مغرب کے خلاف مہم ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے عہد کی دو عظیم جنگیں اپنے اصل میں افغانستان کی زمین اور افغانوں کے خون سے جڑی ہوئی ہے ‘‘ ۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہماری مغربی سرحد پر واقع افغانستان صرف ایک ملک نہیں ہے بلکہ عالمی مفادات کا میدان جنگ ہے اور وہاں لڑی جانے والی ہر جنگ کے اثرات نہ صرف پاکستان پر مرتب ہو ئے ہیں بلکہ اس میدان جنگ کا دائرہ کار بہت آسانی سے پاکستان کی سرزمین تک وسیع ہو جاتا ہے ۔20 ویں صدی کے آخر میں مغرب اور سوویت یونین کی جنگ کا خاتمہ ہوا تو بقول جنرل (ر) پرویز مشرف مغرب نے سب سے بڑی غلطی یہ کی کہ اس نے طالبان کو اکیلا چھوڑدیا، جس کی وجہ سے نہ صرف نائن الیون رونما ہوا بلکہ پاکستان سمیت پورا خطہ اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ اب پھر وہی صورتحال ہے۔ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج افغانستان سے انخلاء کا پروگرام بنا رہی ہیں ۔ اس صورت حال میں نہ صرف طالبان،القاعدہ، داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں اپنی دوبارہ صف بندی کررہی ہیں بلکہ عالمی طاقتیں بھی اپنی نئی حکمت عملی وضع کر رہی ہیں ۔ پاکستان کے لئے خطرات بھی لامحدود ہیں اور امکانات بھی لامحدود ہیں۔امکانات یہ ہیں کہ پاکستان کا دنیا خصوصاً خطے کی سیاست میں بہت بڑا کردار بن سکتا ہے اور خطرات یہ ہیں کہ حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو سکتے ہیں ۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کراچی میں سیمینار سے خطاب صورتحال کا ادراک کرنے اور خطرات سے نمٹنے کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا انتہائی معنی خیز ہے کہ انتہا پسندوں سے نمٹنے کیلئےموجودہ میکنزم ناکافی ہے کیونکہ جنگ کے تصورات بدل چکے ہیں۔ ان کے بقول غیر ریاستی عناصر ریاستوں کے لئے براہ راست خطرہ ہیں ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ’’ دہشت گرد ہم میں موجود ہیں اور وہ ہم جیسے ہیں ‘‘۔ صرف دہشت گرد ہی سکیورٹی کےلئے خطرہ نہیں بلکہ انہوں نے غربت ، بھوک ، افلاس اور ان کی وجہ سے جنم لینے والی بدامنی کو بھی سکیورٹی کے لئے خطرہ قرار دیا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بعض این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آڑ میں جوکام ہوتا ہے، اس سے بھی سکیورٹی کیلئے خطرات پیدا ہوتے ہیں ۔ بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی ۔ انہوں نے اس امر کی بھی نشاندہی کی ہےکہ کشمیر اورفلسطین جیسے علاقائی تنازعات بھی عالمی امن کے لئے خطرہ ہیں ۔ان خطرات خصوصاً داخلی خطرات سےنمٹنے کیلئے ایک پر امن معاشرے کا قیام ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملکوں میں بھی امن ناگزیر ہے۔
اگرچہ افغانستان کے حوالے سے لندن کانفرنس میں امریکہ،برطانیہ اور دیگر اتحادی ممالک نے افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی اتحادی افواج وہاں رکھنے کی یقین دہانی کرائی ہے اور کہا ہے کہ وہ خطہ کو تنہا نہیں چھوڑیں گے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انتہا پسند گروپ افغانستان میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہیں اور افغانستان میں بننے والی نئی حکومت ابھی تک صورتحال پر گرفت حاصل نہیں کر سکی ہے۔افغان صدراور جناب عبداللہ عبداللہ میں صحیح معنوں میں ورکنگ ریلیشن قائم نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے کابینہ بھی نہیں بن سکی ہے اور بہت سے اعلیٰ عہدے خالی ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے افغانستان کی نئی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔افغان صدر اشرف غنی اور وزیر اعظم نواز شریف نے دہشت گردوں کے خلاف مل کر لڑنے پر بھی اتفاق کیا ہے لیکن دہشت گردی کا نیٹ ورک بہت پھیل چکا ہے ، جس کی نشاندہی جنرل راحیل شریف نے کی ہے ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ حامد کرزئی کی نسبت اشرف غنی کی حکومت پاکستان سے بہتر تعلقات کی خواہش مند ہے۔
ان حالات میں خطے میں بڑی طاقتوں کی ازسر نو صف بندی سے ہمارے لئے بہت گنجائش پیدا ہو رہی ہے ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ موجودہ صدی ایشیاء کی صدی ہے۔ یہاں معاشی ترقی کا بہت بڑا ابھار ہے لیکن ان امکانات سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایسی قیادت کی ضرورت ہے، جس کا وژن بڑا ہو ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ان بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کا تو بہت بڑا کردار بن رہا ہے لیکن ہمارے حکمراں نان ایشوز میں الجھے رہتے ہیں۔ بیڈ گورننس نے افرا تفری اور انتشار پیدا کردیا ہے، جو داخلی سلامتی کیلئےخطرات پیدا کرنے کا سبب ہے۔بدقسمتی سے سول حکومتوں نے پاکستان کی معیشت کو بہتر نہیں بنایا ہے اور نہ ہی جمہوریت کو گراس روٹ تک لے گئیں اورکبھی بھی لوکل باڈیز کے الیکشن نہیں کروائے۔ معیشت میں جب بھی بہتری آئی ہے ، فوجی حکومتوں کے دور میں ہی آئی ہے ۔ سیاسی قیادت میں وژن بھی نہیں ہے اور خطے کی اس بدلتی ہوئی صورت حال میں گہرے پانیوں میں اتر کر معاملات سے نمٹنے کی اہلیت بھی نہیں ہے۔ جنرل راحیل کی قیادت میں فوج نے ایک سال میں اپنا Perception بالکل بدل دیا ہے۔ ان حالات میں فوج نے بطور ادارہ اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ اس وقت امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ تعلقات بگڑنے کے عمل کو صرف فوج نے روکاہے۔ آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی جاری ہے ۔
اس آپریشن کے ذریعہ بتایا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی ہے اور پاکستان اس تصور کے مطابق جنگ لڑ رہا ہے۔ چین اور روس کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں بھی فوج کا بطور ایک ادارہ بہت اہم کردار ہے ۔ ان معروضی حقائق کے تناظر میں اگر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے فوج کا آئینی کردار متعین کرنے کی بات کی ہے تو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔اور یہ سوچنا چاہئے کہ کہیں سابق آرمی چیف کے خلاف مقدمے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ’’ مورال ‘‘ پر تو اثر نہیں پڑ رہا اور دنیا میں ہمارا امیج خراب تو نہیں ہو رہا۔ یہ ایک Non-issue ہےجتنی جلد اس کو ختم کرنے کا راستہ نکالیں وہ قوم کے لئےاتنا ہی اچھا ہے۔ بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خطے کی صورت حال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت میں دوبارہ اضافہ ہو گیا ہے ۔ پاکستان کے لئے خطرات بھی بہت ہیں اور اس کے دشمن بھی بہت ہیں لیکن پاکستان کے لئے امکانات بھی بہت ہیں پر امن ‘ خوشحال ‘ روشن خیال ‘ تعلیم یافتہ اور لبرل پاکستان وقت کی ضرورت ہے اور پھر وہی بات سامنے آتی ہے کہ چیلنج بھی بڑا ہے اور قیادت کا بحران بھی بڑا ہے ۔