جنر ل راحیل شریف کے تصورات اور قومی منظر نامہ

September 18, 2016

چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل راحیل شریف ایک سلجھے ہوئے افسر ، دیانت دار اور شفاف کردار کے مالک انسان ہیںجو تمام تر ترغیبات اور اشتعال انگیزیوں کے باوجود ذاتی مفاد یا سیاسی جاہ طلبی کے لئے سازشوں کے بچھائے گئے جال سے بچ نکلے اور یہ بات کہنا آسان، کرنا بہت مشکل ہے ۔یہ بات بھی کم قابل ِ تحسین نہیں کہ جنرل صاحب نے پورے عزم کے ساتھ پاکستانی طالبان اور کراچی کے جرائم پیشہ دہشت گردوں پر ضرب لگائی۔ اُن کی آئی ڈی پیز (اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد)کی بحالی اور گھروں کو واپسی پر گہری فکری مندی اُن کی انسان دوستی کے لازوال احساسات کی عکاسی کرتی ہے، اور یہ جذبات بھی دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے جذبے اورارتکاز سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی جنرل صاحب عوامی سطح پر بات کرتے ہیں، جو کہ اُن کا معمول نہیں ، تو ہمیں اُن کی بات سننے اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے ، چاہے یہ اُن کی مدت ِ ملازمت کے آخری ایام کیوں نہ ہوں۔
چھ ستمبر، یوم ِ دفاع کے موقع پر جنرل راحیل شریف نے خطاب کرتے ہوئے قوم کو یقین دلایا کہ پاکستان کا دفاع ناقابل ِ تسخیر ہے، نیز کسی بیرونی طاقت کو پاک چین معاشی راہداری کو سبوتاژکرنے یا اس کے راستے میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور یہ کہ پاک چین دوستی باہمی احترام اور دوطرفہ تعاون پر مبنی ہے ۔ اُنھوں نے مسلح افواج کے اندر اعتماد اور ہم آہنگی کی فضا کو سراہااور طالبان کی دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ میں جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے جوانوں کی شہادت کو خراج ِ تحسین پیش کیا۔
جنرل صاحب کے خطاب کا اہم ترین حصہ وہ تھا جس میں اُنھوں نے بہت دوٹوک انداز میں ’’نظام میں اصلاحات ‘‘ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے ’’مکروہ جرائم،بدعنوانی اور دہشت گردی کے تعلق ‘‘ کا حوالہ دیا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا جب کسی اعلیٰ فوجی افسر نے بدعنوانی، دہشت گردی اور دیگر جرائم کے درمیان بنیادی تعلق کا ذکر کیا ہو۔ تاہم جب بھی اس تعلق کا حوالہ دیا جاتا ہے توملک بھر کی سیاسی اشرافیہ، خاص طور پر وہ جن پر مبینہ طور پر جرائم پیشہ عناصر، دہشت گرد گروہوں اور بھتہ خوروں کے ساتھ تعلقات کاالزام رہتا ہے ، میں اضطراب کی لہر دوڑ جاتی ہے کئی عناصر یہ تاثر دیتے ہیں کہ حکومت کے خلاف سیاسی مہم میں اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہےاور اسٹیبلشمنٹ کا در پردہ ایجنڈا بھی ہے، خاص طور پر جب سے پی ٹی آئی کے قائد، عمران خان نے پی ایم ایل (ن)، پی پی پی اور ایم کیو ایم پر الزامات کی بوچھار کا سلسلہ بے تکان جاری رکھا ہوا ہے اور اُنھوں نے نظام کوالٹ دینے کے لئے تیسرے امپائر (مبینہ طور پر فوجی مداخلت کا تاثر)کی انگلی کھڑی ہونے کی دھمکی کو کبھی پوشیدہ رکھنے کی کوشش نہیں کی ۔ عمران خان صاحب سے بھی دوقدم آگے بڑھ کر، ڈاکٹر طاہر القادری نے تو کھلے الفاظ میں جنرل راحیل شریف سے ماڈل ٹائون کیس میں ’’انصاف ‘‘دلانے کا مطالبہ کردیا ہے تاکہ جنرل صاحب آخرت میں اپنے مالک کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔
یہاں دوسوال پیدا ہوتے ہیں۔ ان ’’سیاسی اشتعال انگیزیوں ‘‘ کی موجودگی میں جنرل راحیل شریف نظام میں کس قسم کی اصلاحات کی بات کررہے ہیں؟یہ اصلاحات کون لائے گا؟فوج پہلے ہی کراچی میں بدعنوانی اور دہشت گردی کے تعلق کی دلدل میں اتر چکی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے اس کا ہدف سندھ کی دوبڑی سیاسی جماعتیں، پی پی پی اور ایم کیو ایم ، دکھائی دیتی ہیں۔ اسی پالیسی کا پاکستان کے دیگر حصوں، خاص طورپر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پھیلائو پی ایم ایل (ن) اورپی ٹی آئی کو بھی اپنی زد میں لے سکتا ہے ۔ اور اگر جنرل شریف نظام میں اصلاحات لانے کے لئے مداخلت نہیں کرنے جارہے تو یقینا وہ اس کی توقع وزیر ِاعظم نواز شریف سے تو نہیں کر رہے ۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جنرل شریف کا اصلاحات لانے کا تصور یک نکاتی ہے ۔ کیا وہ واقعی یہی سوچ رہے ہیں کہ اگر بدعنوانی اور دہشت گردی کے درمیان تعلق کو توڑ دیا جائے تو ملک امن اور استحکام کا گہوارہ بن جائے گا؟
حقیقت یہ ہے کہ جہادی گروہوں، جیسا کہ طالبان، داعش اور القاعدہ کا پی پی پی ، پی ایم ایل (ن) ، پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ گروہ ہمارے معروف معنوں میں بدعنوان نہیں ہیں لیکن ان کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی دائو پر لگ چکی ہے ۔ پاکستان کی سلامتی کو پی پی پی یا پی ایم ایل (ن) کی مبینہ بدعنوانی سے خطرہ لاحق نہیں ہے ، ان جہادی گروہوں کی طرف سے ہے ۔ یہ گروہ پاکستان کی سول ملٹری قیادت کو مشرق اور مغرب کے سرحدیں محفوظ بنانے اور اپنے ہمسایوں، افغانستان اور انڈیا ، کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا ہو جائے تو پھر پراکسی دستوں کی ضرورت باقی نہ رہے اور نہ ہی اُن کے وجود کا جواز۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ اکثر سول قیادت پر افسوس کا اظہار کرتی ہے کہ اس نے عدم توجہ یا غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کے مخصوص حصوںپرعمل درآمد یقینی نہیں بنایا، لیکن سوال تو یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ سویلین قیادت کو غیر ریاستی عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت دیتی؟ کیا فوجی قیادت خود جہادی گروہوں اور انتہا پسند ی پھیلانے والے مدرسوں کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے؟
اسی طرح جنرل راحیل شریف انڈیا اور افغانستان کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی سخت پالیسی بھی بنا سکتے ہیں، لیکن یہاں کیا اُن کے سامنے تاریخ کا جبر نہیں ہو گا، وہ تاریخ جس میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا مرکزی کردار رہا ہے ؟پاکستان کو جن اصلاحات کی شدت سے ضرورت ہے ، اُن کا تعلق ’’قومی سلامتی ‘‘ کے نظریات سےہے ، اور ان نظریات پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری ہے ۔ ایک ادارہ پورے ملک کو کنٹرول نہیں کرسکتا ہے ۔ دیگر ممالک بھی افواج رکھتے ہیں، اور مسلح افواج کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ تاہم جنرل راحیل شریف کی نیشنل سیکورٹی کا تصور وسیع تر منظر نامے کا ایک پہلو ہے ۔ فوج اس کی صرف ایک اسٹیک ہولڈر ہے ۔ بہتر ہے کہ جنرل صاحب اپنے طاقتور ادارے کے نظریات کو تبدیل کریں، پھر ہم اُن کے معروضات زیادہ توجہ سے سنیں گے ۔


.