میری سوانح عمری کی تقریب رونمائی

January 06, 2015

بچپن سے مجھے دنیا کی کامیاب ترین شخصیات کی سوانح حیات پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے اور اب بھی میں جب کبھی بیرون ملک سفر کرتا ہوں تو ایئر پورٹ سے کوئی نئی سوانح عمری خرید کر ضرور پڑھتا ہوں کیونکہ اس سے آپ کو کامیاب شخصیات کی ترقی کا راز پتہ چلتا ہے۔ نیلسن منڈیلا کی سوانح حیات ’’آزادی کا طویل سفر‘‘، بارک اوباما کی "Audacity of Hope" اور ملالہ کی ’’میں ملالہ ہوں‘‘ وہ نئی سوانح عمریاں ہیں جنہیں حال ہی میں مجھے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس طرح میری یہ خواہش تھی کہ کوئی میری بھی سوانح عمری لکھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 30 دسمبر 2014ء کو میری سوانح عمری "A Limitless Pakistani" کی تقریب رونمائی معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ہاتھوں ہوئی جو تقریب میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر اسلام آباد سے کراچی تشریف لائے تھے۔ تقریب کے اسپیکرز میں وفاقی وزیر صنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی، سینئر وزیر تعلیم سندھ نثار کھوڑو، یونائیٹڈ بزنس گروپ کے چیئرمین افتخار علی ملک، TDAP کے CEO ایس ایم منیر، FPCCI کے نومنتخب صدر میاں محمد ادریس، میرے بھائی اور مراکش کے اعزازی قونصل جنرل اشتیاق بیگ، عفیف گروپ کے چیئرمین راشد صدیقی، 21st سنچری بزنس اینڈ اکنامک کلب کے صدر صلاح الدین حیدر، حبیب میٹروپولیٹن بینک کے صدر سراج الدین عزیز، پاک اومان انوسٹمنٹ کمپنی کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر جہانگیر شاہ اور معاصر انگریزی اخبار کے ایڈیٹر انچیف زاہد ملک شامل تھے۔ تقریب میں سیاسی اور سفارتی شخصیات کے علاوہ پاکستان بھر کے چیمبرز اور ایسوسی ایشن کے صدور، صحافیوں، دانشوروں اور میڈیا کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی جبکہ میری بہنیں اور فیملی کے دیگر افراد بھی تقریب میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر بیرون ملک سے کراچی تشریف لائے تھے۔ میں تمام مہمانان گرامی، فیملی ممبران بالخصوص ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے تقریب میں شرکت کرکے مجھے عزت بخشی۔
سوانح عمری 21st سنچری بزنس اینڈ اکنامک کلب اور معروف پبلی کیشن ہائوس عفیف گروپ نے شائع کی ہے جبکہ انہوں نے ہی سوانح عمری کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا۔ عفیف گروپ اس سے قبل سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور آئی بی اے کے موجودہ ڈین ڈاکٹر عشرت حسین، معروف انشورنس کمپنی کے چیئرمین سیف الدین زومکا والا، TDAP کے CEO ایس ایم منیر، آفتاب ٹپال جیسی کامیاب شخصیات کی کتابیں شائع کرچکا ہے جو نوجوان نسل کو رہنمائی فراہم کررہی ہیں اور میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ ان کتابوں میں میری سوانح عمری بھی شامل ہیں۔ تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے میں نے بتایا کہ سوانح عمری لکھنے یا شائع کرنے کے لئے بڑی ہمت درکار ہوتی ہے کیونکہ یہ آپ کا ماضی لوگوں کے سامنے لاتا ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کا ماضی بے داغ اور متنازع نہ ہو جبکہ مصنف کو سوانح عمری لکھتے وقت یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ شخصیت کے کس پہلو کو اجاگر کرے اور کس کو نہیں۔ مصنف کی یہ رائے تھی کہ چونکہ سوانح عمری کے زیادہ تر عنوانات میں شخصیت کی وطن سے محبت اور اعتبار و اعتماد نظر آتا ہے لہٰذا مصنف نے اسی مناسبت سے سوانح عمری کا نام "A Limitless Pakistani" تجویز کیا۔ میں نے شرکاء کو بتایا کہ میرے والدین نے محدود وسائل ہوتے ہوئے ہم بہن بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، وہ ہمیں ہمیشہ اچھے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے اور اخلاقی قدروں کا خیال رکھنے پر زور دیتے رہے اور ہم نے اپنے والدین کی انگلیاں پکڑ کر انہی اصولوں پر چلتے ہوئے پرورش پائی۔ مجھے خوشی ہے کہ میں سیلف میڈ ہوں اور میری کامیابی و جدوجہد کے سفر میں میرے چھوٹے بھائی اشتیاق بیگ میرے ساتھ شریک ہیں۔ میری والدہ ہم بہن بھائیوں کو ہمیشہ اتحاد کا درس دیتے ہوئے کہتی تھیں کہ ایک اور ایک دو نہیں بلکہ گیارہ ہوتے ہیں، وہ جب دنیا سے رخصتی ہوئیں تو اُس وقت بھی انہوں نے ہمارا ہاتھ پکڑ کر ہمیں آپس میں اتحاد رکھنے کی تاکید کی تھی۔ میرے والدین ہمارے بہترین دوست تھے لیکن ہم نے کبھی بھی وہ حدود پار کرنے کی کوشش نہیں کی جو مذہب نے والدین اور اولاد کے درمیان رکھی ہیں۔ وہ ہر سال میری سالگرہ بڑی دھوم دھام سے مناتے رہے اور خود اپنی عمر کم کرتے رہے، پھر وہ وقت آیا کہ جب میں نے ان کا بازو تھام کر اُنہیں سہارا دینا شروع کیا۔ میری والدہ نظم و ضبط کی انتہائی پابند خاتون تھیں، وہ ہمیں مغرب کے بعد گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتی تھیں۔ میرے بچپن کے دوست غلام مرتضیٰ جتوئی جن کے والد اُس وقت وزیراعلیٰ سندھ تھے، اکثر شام میں گھر کے باہر اپنی لگژری گاڑی میں ہمارا انتظار کرتے تھے لیکن والدہ کی پابندی کے باعث ہم اُن کے ساتھ نہیں جاسکتے تھے۔ یو بی ایل بینک میں بینکر کی حیثیت سے کیریئر کے آغاز میں بینکنگ ٹریننگ کے دوران میری ملاقات اپنے پرانے دوست جہانگیر شاہ سے ہوئی لیکن ٹریننگ کے بعد ہمیں علیحدہ علیحدہ برانچوں میں تعینات کردیا گیا جس کے کچھ ماہ بعد ہمیں بیرون ملک ملازمت کے مواقع مل گئے، اس طرح جہانگیر نے ابوظہبی میں بی سی سی آئی بینک جبکہ میں نے دبئی میں مڈل ایسٹ بینک جوائن کیا۔ جہانگیر شاہ جو اپنے بیٹے جہانزیب کے ساتھ تقریب میں موجود تھے، آج کل پاک اومان بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں اور ان کے ساتھ دوستی پر سوانح عمری میں دلچسپ چیپٹر بھی موجود ہے۔ تقریب کے شرکاء کو میں نے بتایا کہ میری شریک حیات نورین جو 31 سال سے میرے دکھ سکھ میں شریک ہیں، نے میرے بزنس، بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔
میری سوانح عمری 3 فیز پر مشتمل ہے۔ پہلا وہ فیز ہے جب مجھے بیرون ملک بزنس کی وسعت اور منافع سے بہت خوشی محسوس ہوتی تھی، دوسرا وہ فیز ہے جب میں نے ملک اور بیرون ملک عزت اور شہرت حاصل کرکے اپنے وطن کا نام روشن کیا، تیسرا وہ فیز ہے جب بینکوں کے قرضے بڑھتے چلے گئے اور میری زندگی میں سکون کم ہوتا چلا گیا۔ اُس وقت مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ سودی کاروبار اللہ تعالیٰ سے جنگ کے مترادف ہے، پھر میں نے سودی کاروبار سے نجات کی اور آج نیک نیتی کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہوں۔ اس فیز میں انسان ذہنی پختگی حاصل کرکے زندگی کے اصل حقائق جاننے کے قابل ہوجاتا ہے لہٰذا مجھ میں بھی یہ سوچ شدت سے پیدا ہوئی کہ میں دنیا سے رخصت ہونے سے قبل اپنے وطن کو کچھ واپس لوٹائوں، پھر میں نے معیشت پر کئی کتابیں لکھیں، جنگ اخبار میں معاشی کالمز، ٹی وی چینلز پر مباحثوں کے علاوہ سیمینارز اور کانفرنسز کے ذریعے ملک کے نوجوانوں کو مثبت پیغامات دیئے تاکہ ان کا پاکستان اور اس کے پالیسی میکرز پر اعتماد بحال ہو۔
میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی منفی سیاست نہیں کی اور نہ ہی اپنے قلم کو منفی انداز میں استعمال کیا۔ میک اے وش فائونڈیشن پاکستان کے تحت لاعلاج بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل اور اپنی والدہ کے نام ’’قدسیہ ٹرسٹ‘‘ کے تحت فلاحی کام کرکے مجھے جو سکون میسر آرہا ہے، وہ اس سے قبل کبھی نہیں ملا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ اسی سکون کی مجھے تلاش تھی۔ اہل وطن نے ملک و بیرون ملک مجھے جو عزت، مقام اور مان دیا ہے، شاید یہ قرض کبھی نہ اتارسکوں لیکن میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ میں ان کی توقعات پر پورا اتروں۔ مختلف حکومتوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہتے ہوئے میں نے ملک کے لئے بلامعاوضہ خدمات انجام دیں اور ہر دور میں اپنے دامن کو کرپشن اور اقرباء پروری سے پاک رکھا، اس لئے میں اپنی نئی نسل کو فخر سے بتاسکتا ہوں کہ یہی میری زندگی بھر کی کمائی ہے۔ اس دوران یقینا میرے کچھ دوستوں کو مجھ سے تکالیف پہنچی ہوں گی جس پر میں ان سے معافی کا طلبگار ہوں۔قارئین! لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے بعد عزت، دولت اور شہرت حاصل کرکے اچھے دوستوں سے محروم اور دشمنوں میں اضافہ کرلیتے ہیں لیکن جب یہی لوگ اعلیٰ عہدوں پر نہیں رہتے تو اُنہیں معاشرے میں شرمندگی اور لوگوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا آج آپ کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں کون سا فلسفہ حیات اپنانا ہے۔ میں نے آپ کے لئے اپنی سوانح عمری ویب سائٹ