آئو! سب مل جل کر تعمیر کریں

January 10, 2015

’’کالعدم تنظیموں پر مکمل پابندی ہوگی۔ وہ نام بدل کر بھی کام نہیں کرسکیں گی۔‘‘ یہ الفاظ وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار کے ہیں۔ کالعدم قرار دی گئی جماعتوں اور تنظیموں کی تعداد 63ہے، جبکہ ان تنظیموں سے وابستہ افراد کی تعداد 12ہزار سے زائد ہے۔ ٹھیک ہے جو افراد دہشت گردی میں ملوث ہیں اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے حکومت کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں تو انہیں ضرور گرفتار کرنا چاہئے، لیکن بہت سارے لوگ صرف اور صرف روٹی روزی کے لئے کام کررہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی جماعت کے دفتر کے باہر چوکیداری کرنے والا، کمپیوٹر پر ٹائپنگ کرنے والا،گاڑی چلانے والا ڈرائیور، دفتر کی صفائی کرنے والا، آفس بوائے وغیرہ ان سب کا کیا قصور ہے؟ جب جب کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون ہوتا ہے تو اصل مجرم تو زیرِ زمیں چلے جاتے ہیں، بہت ہی کم گرفتار ہوتے ہیں۔ جب پولیس کے ہتھے مطلوبہ لوگ نہیں چڑھتے تو یہ انہی غریب گھرانوں کے غریب لوگوں کو اُٹھاکر لے جاتی ہے۔ ان کے گھر والے ویسے ہی غریب ہوتے ہیں۔تنظیم کے منتظمین پلو نہیں پکڑواتے، یہ غریب اور مظلوم لوگ بسا اوقات عدالت سے اپنی ضمانت بھی نہیں کرواپاتے۔ یوں حوالات میں بے گناہی اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کئی دفعہ ان پر جھوٹی موٹی دفعات لگواکر اندر کروادیا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ریاست تو ’’ماں‘‘ ہوتی ہے اور ماں اپنے بگڑے ہوئے بچوں کو بھی کھلے دل سے معاف کردیتی ہے، بے جا ضد نہیں کرتی۔ اس پس منظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو عام معافی کا اعلان بھی کرنا چاہئے کہ ان باغیوں، دہشت گردوں، فراریوں اور کالعدم قرار دی گئی تنظیموں میں سے جو بھی براہِ راست کسی کی جان لینے میں ملوث نہ ہو اور توبہ تائب ہوجائے، ہتھیار پھینک دے،حکومتی رٹ کے سامنے سرنگوں ہوجائے، اپنے سابقہ جرائم پر نادم ہوجائے… اسے امن ہے۔ ماضی کے ساتھ چمٹے رہنا، اسے یاد کرنا اور انتقام انتقام کے نعرے لگانے سے کبھی ملک وقوم ترقی نہیں کرتے۔ اس کی مثالیں تاریخ سے بھی ملتی ہیں۔ آغازِ اسلام میں کفار مکہ اور مشرکین نے آقائے دوجہاں ﷺ اور ان کے ساتھیوں کو بے پناہ تکلیفیں دیں۔ انہیں ملک بدر کیا۔ شعب ابی طالب میں محصور کردیا۔ غزوۂ بدر سے احد تک اور معرکہ خیبر سے خندق تک بیسیوں جنگیں لڑی گئیں۔ 13 سال بعد جب آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو غلبہ ملا تو ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل نہیں ہوئے، بلکہ ان کے سر تشکر سے جھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے بدلہ نہیں لیا، بلکہ معاف کردیا۔ کہا گیا جو شخص ہتھیار پھینک دے، ابوسفیان کے گھر پناہ لے یا پھر اپنے ہی گھر میں پُرامن رہے، ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ہندہ جس نے آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبایا تھا اور وحشی جس نے انہیں قتل کیا تھا جب آپؐ کے پاس آئے تو آپ نے درگزر فرمایا۔ طائف میں جن لوگوں نے پتھر مارمار کر لہولہان کردیا تھا آپؐ نے ان سے بھی درگزر کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کچھ ہی عرصے کے بعد سب بھائی بھائی بن گئے۔ دشمنی دوستی میں بدل گئی۔ سچائی کا پیغام جزیرۃ العرب سے نکل کر اس وقت کی سپر طاقتوں فارس اور روم تک پہنچنے لگا۔ مدینہ کی ریاست وجود میں آئی۔ معیشت وتجارت ترقی کرنے لگی۔ غریبوں اور محروموں کے غم دکھ دور ہونے لگے۔ عدل وانصاف کا بول بالا ہوا۔ فتح مکہ کے وقت آپؐ نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو بھی ہتھیار پھینک دے، اس کو امان ہے۔ جو پرامن رہے اسے کچھ نہ کہا جائے۔ جو چھپ جائے اسے بھی امان ہے۔ قرآن میں جو جہاد کا حکم ہے وہ آخری آپشن کے طورپر ہے۔ جہاد مقصود بالذات نہیں ہے، بلکہ یہ رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لئے ہے۔ یہی وجہ ہے آپؐ نے 12 سالہ مدت میں سو سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں۔ ان میں مارے جانے والے افراد کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ اب جبکہ سانحہ پشاور کے بعد قومی ایکشن پلان کے تحت پکڑ دھکڑ، گرفتاریوں اور چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے تو اپنے ماضی پر شرمندہ، نادم اور توبہ تائب ہونے والے بھی پریشان ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کریں؟ انہیں ڈر ہے کہ کہیں ہمارے ساتھ بھی نائن الیون کے بعد والا سلوک نہ ہو۔ 80ء کی دہائی میں بہت سے لوگوں نے عالمی اور ملکی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر افغان جہاد میں حصہ لیا، جب ان کی کوششوں سے سوویت یونین ٹوٹ گیا، روس افغانستان سے نکل گیا تو وہ لوگ پرامن طریقے سے مختلف علاقوں میں رہنے سہنے لگے۔ کاروبار کرنے لگے، انہوں نے کبھی کسی کے ساتھ ٹکرائو مول نہ لیا، لیکن نائن الیون کے بعد ان بے گناہوں اور پرامن رہنے والوں پر بھی قیامت بپا ہوگئی۔ محض شک اور سابقہ جہاد میں حصہ لینے کی وجہ سے انہیں گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ پرامن رہنے والوں کو نہ چھیڑا جائے۔ دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ توبہ کرنے والوں کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ توبہ کرنے کے بعد صرف سابقہ ریکارڈ کی بناء پر گرفتار نہیں کیا جاتا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ بہت سارے دہشت گرد، ڈاکو، صحافی، علماء، وکلاء، کالجوں کے پروفیسرز، رہنما، سیاستدان جو مختلف جرائم میں ملوث تھے، لیکن معافی تلافی اور توبہ تائب ہوکر آج وہ اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔پرامن زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں، حتیٰ کہ پارلیمنٹ تک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کئی ایک حکمران بھی ہیں۔ یہ بھی سیکھنے کی چیز ہے کہ دیگر ممالک نے دہشت گردی پر کس طرح اور کن کن طریقوں سے قابو پایا ہے؟ یہاں پر صرف ایک مثال دیتا ہوں۔ نائن الیون کے واقعے میں نامزد تقریباً تمام افراد ہی عرب تھے۔ غالب گمان یہی تھا اس سے ایک عرب ملک کے خاموش معاشرے میں بھونچال آجائے گا، لیکن کیا مجال کہ وہاں دہشت گردی کی کوئی کارروائی ہوئی ہو۔ اکا دکا جو کارروائی ہوئی اس میں ملوث افراد گرفتار ہوئے۔ دہشت گردی میں ملوث افراد کو 4 مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا۔ ان میں سے بعض انجام تک پہنچے۔ کئی توبہ تائب ہوکر اچھے شہری بن گئے۔ کچھ جلاوطن ہوگئے اور کچھ سے معاہدے ہوگئے۔ اس حسنِ تدبیر کے نتیجے میں یہ عرب ملک ایک بڑی آزمائش سے بچ گیا اور اس وقت امن کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ دہشت گردی کو مذہب اور کسی خاص طبقے کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ دیکھیں! جب سے حکومت کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف بھرپور آپریشن کا آغاز ہوا ہے، تو ہرجگہ سے دہشت گرد گرفتار ہورہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے لے کر پنجاب یونیورسٹی تک، لیاری سے لے کر نائن زیرو تک، اسلامی جماعتوں کے بنگلوں سے لے کر پیپلزپارٹی کے اوطاقوں تک، منشیات کے اڈوں سے لے کر مری کے ریسٹ ہاؤس تک سے پکڑے جارہے ہیں۔ ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح تمام ہی سیاسی جماعتوں سے ثابت ہورہا ہے۔ ان دہشت گردوں میں فوجی بھگوڑوں سے لے کر پولیس سے بھاگنے والوں تک، نجی سیکورٹی ایجنسیوں سے وابستہ افراد سے لے کر مختلف مافیا گروپوں کے سرغنوں تک سب ہی شامل ہیں۔یہ مختلف قسم کی دہشت گردیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ دہشت گرد وںنے اپنے بھیانک مقاصد کی تکمیل کے لئے مختلف حلیے اپنائے اور کئی روپ دھارے ہوئے ہیں۔ تمام طبقوں، سیاستدانوں، وکلاء، صحافیوں، دانشوروں، حکمرانوں، وڈیروں، تاجروں، علماء، مدارس، پولیس اور فوج سب کو اپنی اپنی صفوں کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے اور دہشت گردوں، مجرموں، مخبروں، میر جعفروں اور آستین کے سانپوں کو نکال باہر کرنا چاہئے۔
گویا ہر ایک محب وطن پر لازم ہے وہ دہشت گردی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اسی میں سب کی بقا ہے۔ یہی قوم کی اپنے وطن کے ساتھ وفا داری ہے۔ ہمارا دین بھی یہی درس دیتا ہے۔ پاک وطن کے گمبھیر اور مشکل ترین حالات کا حل بھی اسی میں پنہاں ہے۔پاکستان ہم سب کا جنت نما گھر ہے اور اپنے گھر کی حفاظت سب کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ ماضی کو بھول کر آئو! سب مل جل کر ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔