پر عزم سفارتکاری مگر مہم جوئی سے گریز

September 24, 2016

ایک طویل مدت کے بعد پاکستان کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر انتہائی مضبوط اور دو ٹوک موقف کا اظہار ہوا ہے ۔اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف نے لگی لپٹی رکھے بغیر بھارت کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔انہوں نے واشگاف الفاظ میں بتایا کہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دینے والے بھارت نے نہتے کشمیریوں کو کس طرح کے مظالم کا نشانہ بنا رکھا ہے۔انہوں نے ایک بار پھر عالمی برادری سے اپیل کی کہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی تحقیقات کی جائیں۔ وزیر اعظم نے کشمیری اور پاکستانی عوام کی بھر پور ترجمانی کرتے ہوئے کہا؛’’مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دنیا اپنے وعدے پورے کرے، یہ تنازع طے کیے بغیر خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں، کشمیریوں کی نئی نسل بھارت کے ناجائز تسلط کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ برہان مظفر وانی،تحریک آزادی کشمیر میں نئی علامت بن کر ابھرا ہے۔مرد ،عورتیں،بچے اور بوڑھے سب سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ سب آزادی مانگ رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ریفرنڈم کا انعقاد ضروری ہو گیا ہے۔ہم مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے شواہد اقوام متحدہ کو دیں گے ۔ بھارتی فوج وہاں ظالمانہ اور بہیمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے‘‘۔اچھی بات ہے کہ اپنا اصولی موقف عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کے بعد وزیر اعظم نے ایک بار پھر بھارت کو بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کی دعوت دی ۔ ایک اہم عالمی فورم پر وزیر اعظم کی جانب سے تحمل اور تدبر کا مظاہرہ اس امر کا غماز ہے کہ پاکستان اخلاقی، سیاسی اور سفارتی تقاضوں سے بخوبی آگاہ اور انکے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ مسائل کی نوعیت کتنی ہی پیچیدہ اور مشکل کیوں نہ ہو، ان کے حل کا راستہ مثبت بات چیت ہی سے نکلتا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بھار ت بات چیت سے ہمیشہ گریزاں رہا ہے۔ اگر وہ سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں رکھنے،ہزاروں کشمیریوں کا قتل عام کرنے اور اربوں روپے آگ اور خون کے اس کھیل پر لٹانے کے بجائے سنجیدگی سے بات چیت کا راستہ اپناتا تو معصوم انسانوں کا لہو بہتا اور نہ بھارت کی رسوائی ہوتی۔ اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ خود بھارت ہی اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا جس پر سلامتی کونسل نے طے کیا تھا کہ کشمیریوں کو رائے کے اظہار کا حق دیا جائے گا ۔ ان سے پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ۔ پنڈت جو اہر لعل نہرو کئی سال تک دنیا کو یقین دلاتے رہے کہ استصواب رائے کے عالمی فیصلے پر عمل کیا جائے گا لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ بدل گیا اور بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگا۔ اب بھارت کو مان لینا چاہئے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ نہیں۔کشمیری اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔آج ان کی تیسری نسل آزادی کی تحریک کو اپنا لہو دے رہی ہے۔ بھارت کو یہ بھی تسلیم کرلینا چاہئے کہ آزاد ی کے اس جذبے کو فوجی ظلم و ستم کے ذریعے نہیں روکاجا سکتا۔ آج وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کشمیر میں ظلم و ستم کا وہی ناپاک کھیل رہا ہے جو اس نے وزیراعلیٰ کے طور پر گجرات میں کھیلا تھا۔جہاں تک مسئلہ کشمیر کا تعلق ہے تو بھارت ہمیشہ سے الزامات کا کھیل کھیل کر دنیا کی توجہ اصل معاملے سے ہٹاتا رہا ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی بھارت نے یہی کیا اورکشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی پردہ پوشی کے لئے اُوڑی ہیڈ کوارٹر حملہ کا ڈرامہ رچایا۔ مقصدیہ تھا کہ ان خود ساختہ حملوں کا الزام پاکستان پر لگا کر دنیا کی ہمدردی حاصل کی جائے۔ اس ڈرامے کے بعد سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر آہنی باڑ کی موجودگی میں یہ حملہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ جبکہ اوڑی کے تمام علاقے کی کڑی نگرانی کے لئے جگہ جگہ ناکے موجود ہیں اور پورے علاقے کی نگرانی سٹیلائٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ان تمام انتظامات کے باوجود عسکریت پسندوں کا بھارتی فوج کے مرکز میں گھس جانا نا ممکن امر ہے۔ اصل میں کشمیر کے معاملے میں عالمی برادری کا کردار نہایت اہم ہے۔ خاص طور پر طاقتور ممالک کو دو غلا پن چھوڑ کر بھارت کے حقیقی کردار کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا ہوگا۔افسوس کہ حالیہ اجلاس میں امریکی صدر باراک اوباما نے مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ کی ضرورت پر تو زور دیا مگر کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔ خود بانکی مون نے بھی کشمیر کا ذکر کرنا ضروری نہیںسمجھا۔ حالانکہ جس طرح مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں رائے شماری کروائی گئی ایسا ہی اہتمام کشمیر میں بھی ہونا چاہئے۔ دنیا کے اس رویے کے باوجود پاکستان کو آزادی کشمیر کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیر اعظم نواز شریف کا خطاب عالمی سفارتی محاذ پر نہایت اہم پیش رفت ہے۔ ہمیں اسی طرح بھارت کو بے نقاب کرنے اور کشمیریوں کے جائز مطالبے کی بھر پور حمایت جاری رکھنی چاہئے۔اس خطاب کے بعد بھارتی میڈیا میں پاکستانی وزیر اعظم کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب اوڑی حملہ کے تناظر میں بھی پاکستان کے خلاف بیان بازی جاری ہے۔اطلاعات ہیں کہ بھارت نے اپنے تازہ دم دستے لائن آف کنٹرول پر بھیجنا شروع کر دئیے ہیں۔اس صورتحال میں پاکستان کی جانب سے بھی شمالی علاقہ جات میں جنگی طیاروں کی پرواز یں اور موٹروے پر مشقیں جاری ہیں۔پاک فوج نے سرحدی علاقوں کے لوگوں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے۔خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں لائن آف کنٹرول پر درجہ حرارت میں اضافہ ہو گا۔ایسی صورتحال میں انتہائی ضروری ہے کہ ہم داخلی سیاسی درجہ حرارت نارمل رکھیں۔ تاہم ان انتظامات کے باوجود یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ معاملات کو بردباری سے سلجھانا ہو گا۔ جو لوگ معاملے کو جنگ و جدل کی جانب لے جانا چاہتے ہیں،وہ پاکستان کے دوست نہیں۔ ہمیں ہر قیمت پر جنگ آزمائی اور مہم جوکی سے گریز کرنا چاہئے۔ پرویز مشرف کی طویل آمریت اور پیپلز پارٹی کے بے ثمر پانچ سالہ دور کے بعد ملک بڑی مشکل سے سنبھلا ہے۔ معیشت بہتری کی راہ پر گامزن ہوئی ہے۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کی ٹھوس منصوبہ بندی ہوئی ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کا آغاز ہوا ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہمارے دشمن اس منصوبے کے درپے ہیں۔ ان کی نگاہیں دو چیزوں پر لگی ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان میں سیاسی انتشار اور افراتفری کی کیفیت پیدا کر دی جائے اور سب کچھ بے یقینی کی دلدل میں پھینک دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ سرحدوں پہ ایسی صورتحال پیدا کر دی جائے کہ جنگ کا سا ماحول بن جائے اور چینی سرمایہ کا ر سب کچھ ادھورا چھوڑ چھاڑ کر بھا گ جائیں۔ ہمیں اس سازش پر نظر رکھنا ہوگی۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت تمام تر ظلم و ستم کے باوجود عالمی قوتوں کا چہیتا ہے۔ امریکہ اس کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ہے۔ چین ہمارا بہت گہرا دوست سہی لیکن وہ عالمی تنازعات میں کم ہی کودتا ہے۔ہمارے معاملات مغربی سرحد پہ بھی ٹھیک نہیں جہاں افغانستان کی حکومت بھارتی دم چھلا بن چکی ہے ان حالات میں ہمیں جنگ آزمائی اور مہم جو ئی سے کوسوں دور رہتے ہوئے اپنی توجہ اقتصادی تعمیر پر مرکوز رکھنی چاہئے۔البتہ سفارتی محاذ پر اپنی لڑائی کو پوری قوت کیساتھ جاری رکھنا چاہئے اور دنیا کو باور کرانا چاہئے کہ ہم بات چیت کے معاملے میں سنجیدہ ہیں۔


.