سیاحت ، ایک فراموش کردہ باب ؟...خصوصی تحریر…اویس حفیظ

September 27, 2016

SMS: #KMC (space) message & send to 8001
اگرچہ نائن الیون حملے میں امریکا کے ٹونز ٹاور زمین بوس ہوئے تھے مگر اس حملے کا زیادہ تر نزلہ پاکستان پر گرا۔ پوسٹ نائن الیون پاکستان کو سب سے پہلے امن عامہ کا مسئلہ پیش آیا، دیگر مسائل میں معیشت کا مسئلہ سرفہرست تھا اور رہی سہی کسر جمہوریت کی عدم بحالی نے پوری کر دی۔ اس ڈیڑھ دہائی میں پاکستان نے جہاں اپنے 60ہزار سے زائد شہریوں کو گنوایا وہیں اور بھی بہت سی چیزیں فراموش ہو کر رہ گئیں جن میں سرفہرست سیاحت ہے۔ 1999-2001کے حاصل اعدادو شمار کے مطابق کم از کم 5لاکھ سیاح سالانہ محض سیاحت کی غرض سے پاکستان آتے تھے مگر 2001ء کے بعد سے انہوں نے اپنا رخ تبدیل کر لیا۔ اگرچہ 2003ء سے 2006ء کے دوران حالات میں بہتری کے باعث سیاحوں دوبارہ پاکستان کا رخ کیا جس سے ٹورازم انڈسٹری نے 990ملین سے زیادہ ریونیو اکٹھا کیا لیکن 2007میں دہشت گردانہ حملوں میں تیزی کے باعث یہ انڈسٹری ایک بار پھر رو بہ زوال ہو گئی۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر سال 1184 ملین افراد یعنی ایک ارب، اٹھارہ کروڑ اور چالیس لاکھ سے زائد افراد سیاحت کی غرض سے سفر کرتے ہیں اور ٹورازم انڈسٹری سالانہ 1.5کھرب ڈالر کا زرمبادلہ پیدا رہی ہے مگر اس میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس حوالے سے 1970کی دہائی پاکستان کے لئے ایک مثالی باب ہے کہ جب یہ خطہ سیاحوں کی جنت کہلاتا تھا اور ہر سال لاکھوں لوگ تفریح کی غرض سے پاکستان کا رخ کرتے تھے مگر اب بیشتر لوگ کاروبار یا کچھ اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کیلئے پاکستان آتے ہیں، خالصتاً سیر و تفریح کی غرض سے پاکستان آنیوالے افراد کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے مگر ہماری وزارتِ سیاحت اس بات پر شادیانے بجا تی ہے کہ امسال اتنے لاکھ لوگوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔
اگر دیکھا جائے تو اس مملکتِ خداداد کو قدرت نے بعض ایسی چیزوں سے نواز رکھا ہے جن کا پوری دنیا میں کوئی نعم البدل نہیں ہے مثلاً روئے ارض پر پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں 8ہزار میٹر سے بھی بلند پہاڑوں کا سلسلہ ہے، جہاں دنیا کی 14بلند ترین چوٹیوں میں سے5چوٹیاں پائی جاتی ہیں، جس کے قدرتی حسن سے مالامال ہنزہ، چترال، کیلاش اوربلتستان جیسے علاقوں کے آگے حسن ماند پڑنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اعزاز بھی صرف پاکستان کو ہی حاصل ہے کہ یہاں ہر طرح کا موسم اور موسمی پھل پایا جاتا ہے ۔ موسم کے اعتبار سے جو منفرد مقام اس ملک کو حاصل ہے وہ یہ کہ اس کے درجہ حرارت میں سو ڈگری تک کا فرق پایا جاتا ہے، یعنی اگر سردیوں میں سیاچن میں درجہ حرارت منفی پچاس ڈگری ہے تو گرمیوں میں سبی اور جیکب آباد میں یہی درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس خطے کو تہذیبوں کا مرکز بھی تصور کیا جاتا ہے: ہڑپہ، موہنجو دڑو، ٹیکسلا اور مہر گڑھ سمیت بے شمار تہذیبیں اس دھرتی کے سینے میں دفن ہیں۔ یہی وجہ ہے چند سال قبل ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کو اس کے ثقافتی ورثہ کے باعث سیاحوں کیلئے بہترین 25جگہوں میں شامل کیا تھا جبکہ اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسکو بھی پاکستان کے 6 مقامات موہنجودڑو، ٹیکسلا، خیبرپختونخوا کاتخت بائی و شہر ِ بہلول، شالامار باغ، مکلی کا قبرستان اورقلعہ روہتاس کو عالمی ورثہ کا درجہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ لاہور کی بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر و مقبرہ آصف جاہ، مسجد وزیر خان اور ہڑپہ کے کھنڈرات سمیت 18کے قریب مقامات کو عالمی ورثہ کی عارضی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ تمام ایسی جگہیں ہیں جن کا متبادل کہیں اور نہیں ہے۔ تیسری چیز جو اس خطے کی انفرادیت ہے وہ یہاں کے لذیذ و مزیدار پکوان ہیں۔ لاہور، کراچی اور پشاور اپنے چٹخارے دار کھانوںکے باعث اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہیں جبکہ علاقائی سوغاتوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کے باعث پاکستان سیاحوں کے لئے ایک پرکشش ملک ہے تاہم پاکستان میں سیاحت کے فروغ کے لئے حکومت کی جانب سے سیاحت کے حوالے سے واضح پالیسی اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔آج 27ستمبر، عالمی یومِ سیاحت ہم سے اس چیز کا متقاضی ہے کہ ہم ملکی خزانے کو کروڑوں کا ریونیو دینے والی انڈسٹری کو فروغ دینے کے لئے منظم لائحہ عمل تشکیل دیں اور کوئی ایسا جامع پلان تشکیل دیں جس سے سیاحوں کو پاکستان آنے پر آمادہ کیا جا سکے۔


.