ہم تہذیب کے امتحان میں ناکام ہوچکے ہیں!

March 05, 2015

آئیے… آپ سے چند باتیں کرتے ہیں۔ مختلف مسائل پر تو کالم اور مضامین آپ پڑھتے ہی رہتے ہیں اور ان کے بارے میں آپ کوئی نہ کوئی رائے بھی قائم کرتے ہوں گے لیکن آج آپ سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔
ہمارے ملک عزیز کی اکثریت کی زندگی کا وجود دور کٹھن ہے۔ مشکلات میں گرفتار زندگی میں انتشار ہونا ناگزیر ہے یہ انتشار نظریاتی بھی ہے۔ سیاسی اور معاشرتی بھی۔ ہم سب اپنی اپنی انفرادی زندگی کے جھمیلوں میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن اس بات سے تو آپ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ انفرادی مشکلات کے باوجود ہم میں یہ احساس روز بروز پیدا ہورہا ہے کہ ہماری انفرادی الجھنوں اور مسائل کی ذمہ داری ہماری معاشرتی زندگی پر عائد ہوتی ہے۔ یہ احساس معاشرتی شعور کی پہلی سطح ہے۔ تعلیم یافتہ، نیم تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم لوگوں کی زبان پر یہ کلمہ ضرور آتا ہے کہ حکومت یہ نہیں کرتی وہ نہیں کرتی۔ مہنگائی ہو یا جرائم کی بڑھتی ہوئی رفتار، کرپشن ہو یا رشوت ستانی، ٹریفک کا مسئلہ ہو یا سڑکوں کی مرمت کا، ہم سب حکومت ہی کو زیر بحث لاتے ہیں۔ اگر ہمارے ان جذبات کو معاشرتی شعور سے تعمیر کیا جائے تو پھر اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہم سب لاشعوری طور پر ہی سہی ایسی حکومت کے خواہاں ہیں جو ہمارے تمام معاشی، معاشرتی، سماجی اور اقتصادی مسائل حل کرنے کی ذمہ دار ہو۔ ہماری یہ خواہش بھی غیر شعوری کہی جاسکتی ہے کہ شعوری طور پر آسودہ زندگی ہمارا انفرادی مطمع نظر اور آسودگی مال و دولت اور زر کے بغیر ممکن نہیں چنانچہ ، سرمایہ یا دولت کے حصول کیلئے ہم دن رات مصروف رہتے ہیں ہمارا ہر کام سرمایہ حاصل کرنے پر مبنی ہوتا ہے لیکن ہماری اس تگ و دو اور جدوجہد اور ہماری معاشی و معاشرتی زندگی میں تضاد موجود ہوتا ہے یہی تضاد ہماری ذہنی پریشانی کا موجب ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ اجتماعی، معاشرتی یا انفرادی زندگی کے اس تضاد کو کیسے دور کیا جائے کہ جب تک انفرادی اور معاشرتی زندگی میں توازن نہیں پیدا ہوگا اس وقت تک انفرادی طور پر بھی سکون، راحت و اطمینان نصیب نہیں ہوسکتا۔ معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے مختلف نظریات پیش کئے جاتے ہیں ان نظریات میں وہ لوگ جو انفرادی زندگی کو معاشرتی زندگی کا منبع قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک اخلاق اور مذہبی لگائو اختیار کرنے سے معاشرے کی حالت خودبخود درست ہوجائے گی۔ یہ نظریہ انفرادی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے لیکن یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ انفرادی اہمیت کا معیار سرمایہ اور مال و دولت ہے اگر آپ کے پاس زر، سرمایہ اور مال و دولت نہیں تو آپ کی اہمیت بے معنی ہے یہاں تک کہ ہمارے معاشرے میں اہل علم حضرات بھی سرمایہ سے تہی دامن ہوں تو انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ لہٰذا ہم اپنے گردو پیش کے حقائق اور زندگی کے رجحانات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نہ صرف ہماری انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی کا محور سرمایہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ آتا کہاں سے ہے اور اس کی تقسیم اور ملکیت کا کیا راز ہے؟ عام سی بات ہے کہ انسان کو جب اس کے بھلے کی بات کہی جائے تو وہ اسے دیر یا بدیر اختیار کرلیتا ہے لیکن 68 برسوں سے مسلسل ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی کچھ ایسی ڈگر پر چل رہی ہے جہاں بھلائی اور نیکی محض الفاظ رہ گئے ہیں جب ہم معاشرے کی بات کرتے ہیں تو ہمارا زاویہ نگاہ بھی انفرادی اور نجی قسم کا ہوتا ہے ہر فرد لاشعوری طور پر مادہ پرست ہے یعنی ہر شخص خارجی زندگی میں اپنا مستحکم مقام بنانے کے درپے ہے اور اس کیلئے وہ ہر ذریعے کو اختیار کرنا وقت کی ضرورت سمجھتا ہے آسودہ زندگی ہر فرد کا نصب العین ہے۔ آسودگی سرمائے سے حاصل ہوتی ہے چنانچہ سرمائے کا حصول ہر فرد کی داخلی اور خارجی زندگی کا محور بن چکا ہے اس کے گرد ہمارے معاشرے کی زندگی گھوم رہی ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ جس سرمائے کیلئے ہم یہ سب جتن کرتے ہیں وہ آتا کہاں سے ہے؟ پیداواری عمل جو مختلف مراحل میں تمام معاشرتی زندگی پر حاوی ہے اس عمل کی بنیاد محنت ہے۔ اناج پیدا کرنے سے لیکر کسی کارخانے میں کوئی چیز تیار کرنے میں محنت ہی بنیاد ہے لیکن ہمارے ہاں ذرائع پیداوار نجی ملکیت میں ہیں اس سے سرمایہ مخصوص طبقے کے ہاتھ میں رہتا ہے اور جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ہمارے معاشرتی نظام کی بنیاد یہی نجی ملکیت ہے۔ نجی ملکیت کو ختم کردیا جائے (یا ایک حد تک) اور ذرائع پیداوار پر ان لوگوں کی ملکیت تسلیم کی جائے جو پیداواری عمل میں شامل ہوں تو اس سے معاشرے کے ہر فرد کی زندگی پر اچھا اثر پڑے گا۔ ایسے معاشرے میں حکومت کا تصور بھی وہ نہیں رہتا جو ہمارے ہاں گزشتہ 68 برسوں سے جاری ہے ہم میں سے ہمیشہ صاحب اثر و رسوخ عوام کے نمائندے منتخب ہوتے ہیں اور صاحب اثر و رسوخ وہی ہوتے ہیں جو صاحب املاک ہوں لیکن جب سرمائے کی نوعیت میں فرق آجائے گا تو اس سے منتخب نمائندہ کی حیثیت و شخصیت میں بھی فرق آجائے گا۔ صاحب اثر ہونے کیلئے سرمائے کی جگہ عالم، دانش، تجربہ اور لوگوں کی خدمت معیار ٹھہرے گا یا ٹھہرایا جائے گا اور یوں نظام میں تبدیلی پیدا ہوگی۔ لیکن ایسے نظام کو وہ لوگ رد کرتے ہیں بلکہ اس کی مخالفت کرتے ہیں جو نجی ملکیت کو ایک عطیہ ربانی سمجھتے ہیں وہ نجی ملکیت کا جواز مذہب اور روایات میں پیش کرتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی لوگ معاشرے کی زبوں حالی اور انفرادی اخلاق کی پستی کے بارے میں زیادہ چیختے ہیں۔
اب یہ آپ کا کام ہے کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کیلئے تضاد پر غور کریں ورنہ بقول حفیظ جالندھری ’’ہم جس مقام پر ہیں وہاں سب مزے میں ہیں‘‘ خسارے میں اگر کوئی ہے تو وہ ملک ہے، قوم ہے، معاشرہ ہے اور آزادی ہے۔
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے