خواتین کا عالمی دن

March 07, 2015

8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ہم یہ دن بڑے اہتمام سے مناتے ہیں۔ غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو ماضی کی بہ نسبت آج کے پاکستان میں حقوق نسواں کے حوالے سے کافی بہتری آئی ہے ۔ایک زمانہ تھا جب خواتین کی ملازمت کے لئے صرف تعلیم اور میڈیکل کے شعبے مناسب سمجھے جاتے تھے۔ مگر اب پاکستانی خواتین ہمیں تقریبا ہر شعبہ میں متحرک دکھائی دیتی ہیں۔
پرانے وقتوں میں خواتین کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا معیوب تصور ہوتا تھا۔ آج بیشترتعلیمی اداروں میں طالبات کی تعداد طلباء سے کہیں زیادہ ہے۔ برسوں قبل پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں صرف ایک طالبہ زیر تعلیم تھی۔جبکہ آج وہاںنہ صرف طالبات بڑی تعداد میں موجود ہیں بلکہ اس کالج کی موجودہ پرنسپل بھی ایک خاتون ہیں۔ ہماری عدلیہ میں بہت سی خواتین جج موجود ہیں۔ خواتین وکلاء کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ برسوں سے عاصمہ جہانگیر جیسی دلیرخاتون پاکستان میں وکلاء کے سب سے بڑے گروپ کو لیڈ کرتی ہیں۔ یہی حال شعبہ صحافت کا ہے۔ ماضی میں فقط چند خواتین اس شعبہ سے وابستہ تھیں۔ آج الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میںخواتین بڑی تعداد میں کام کر رہی ہیں۔ پاکستانی خواتین جہاز اڑا رہی ہیں۔ پاک فضائیہ کا حصہ ہیں۔ کامیابی سے بڑے بڑے کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں،وہ بیوروکریٹ ہیں ، سفارتکار ہیں۔محکمہ پولیس میں کام کرتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے انسداد دہشت گردی فورسز قائم کی گئیں تو خواتین بھی ان کا حصہ تھیں۔ بالخصوص خیبر پختونخواہ اور بلوچستان جیسےنسبتاََ پسماندہ صوبوں میں نوجوان لڑکیوں کو اینٹی ٹیررازم فورس جیسے غیر روایتی شعبے میں کام کرتے دیکھنا اس امر کا غماز ہے کہ پاکستان میں خواتین کا کردار بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح گھروں اور کارخانوں میں کام کرتی خواتین بھی گھریلو اورملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔
مگرکیا کیجئے کہ تاثر حقیقت سے کہیںزیادہ طاقتور ہوتا ہے اور دنیا بھر میں پاکستانی خواتین کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ انتہائی بدترین حالات میں زندگی بسر کر رہی ہیں۔ حالانکہ حقائق اس کے انتہائی بر عکس ہیں۔ ہمارے ہاں خواتین کا کردار ہر دور میں موجود رہا اور خاص طور پر سیاسی محاذپر ہماری خواتین آ غاز سے ہی فعال تھیں۔ 1947 سے قبل انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی رہنمائی میں تحریک آزادی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس زمانے میں بھی رعنا لیاقت علی خان اور بیگم شاہنواز جیسی بہت سی عورتیں متحرک رہیں۔خا ص طور پرمادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا کردارناقابل فراموش ہے جو قائد اعظم کی معاونت فرماتی رہیں ۔ قائد کی رحلت کے بعد بھی انہوں نے جمہوریت کی بحالی کی خاطر آمر یت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو مردانہ وار سیاست کرتی رہیں اور دو بار وزارت عظمٰی کے منصب بلند پر پہنچیں۔ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ اس سب کے باوجود صورتحال ہر گز مثالی نہیں ۔ بہت سے معاملات اصلاح احوال کے متقاضی ہیں۔ایک ایسا ملک جہاں اسمبلیوں میں خواتین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ جہاں خواتین وزارت عظمٰی ، وزیر خارجہ، اسپیکر قومی اسمبلی اور گورنر جیسے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز رہیں۔ وہاں آج بھی ملک کے بہت سے حصوں میں خواتین کو حق رکھنے کے باوجود ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خواتین پڑھ لکھ کر دفاتر میں کام تو کر رہی ہیں مگر انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ انہیں گھروں میں جسمانی تشدد کا نشا نہ بنایا جاتا ہے۔آج بھی بہت سے علاقوں میں وہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ۔انہیں کاروکاری، ونی ،وٹہ سٹہ اور غیرت کے نام پر قتل جیسی روایات کا سامنا ہے۔ مذہب اورآئین کے واضح احکامات کے باوجود انہیں وراثت اور جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے۔یہ اور ایسے دیگر معاملات میں اصلاح کے لئے قانون سازوں اور فیصلہ سازوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں پر خواتین کو اسمبلیوں میں تو بھیج دیتی ہیں تاہم انکو صحیح معنوں میں قانون سازی کی جانب راغب کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود بیشتر خواتین قانون سازی سے زیادہ گھریلو امور، فیشن اوردیگر ذاتی معاملات پر گفتگو تک محدور رہتی ہیں۔ تاہم چند خواتین بہت متحرک بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں خواتین کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے قوانین بنائے گئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ایسی خواتین ایوانوں میں بھیجیں جو واقعتا حقوق نسواں کے لئے کردار ادا کرنے کی صلاحیت اور خواہش رکھتی ہوں۔ کیونکہ خواتین کی سیاست اور فیصلہ سازی میں موجودگی بے حد اہم ہے۔ ایک عورت ہی دوسری عورت کے مسائل اور مشکلات کا اندازہ لگا سکتی اور اسکے حل کے لئے پوری قوت بروئے کارلا سکتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں خواتین کے حوالے سے کئی اقدامات کئے گئے۔ ان کے دور میں فرسٹ وومن بینک کا قیام عمل میں آیا، خواتین کے لئے علیحدہ پولیس اسٹیشن بنے، انہیں ملازمت کے بہتر مواقع ملے اور دیگر اقدامات دیکھنے میں آئے۔
ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ قوانین کی موجودگی کے باوجود اصل مسئلہ ان پر عمل درآمد اور نفاذ کا ہے۔ بعض اوقات تو ان قوانین کے نفاذ کے غرض سے ادارے بھی قائم کر دئیے جاتے ہیں۔ مگر یا تو ادارے غیر فعال رہتے ہیں یا عوام الناس کو ان اداروں کا علم ہی نہیں ہوتا۔
یعنی قوانین اور اداروں کی موجودگی کے باوجود بیشتر خواتین ان سے آگاہ نہیں ہوتیں۔نا خواندہ خواتین تو ایک طرف بیشترپڑھی لکھی خواتین بھی اپنے حقوق سے آگہی نہیں رکھتیں۔ ڈاکٹر میرا فیلبوس دو سال سے پنجاب میں خاتون محتسب کے عہدے پر فائز ہیں ۔ انکا ادارہ دفاتر میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے خلاف کیسز سنتا اور فیصلے کرتا ہے۔ کچھ دن قبل ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ان دو سالوں میں انہوں نے سینکڑوں خواتین کو ریلیف فراہم کیا۔ انکا کہنا تھا کہ شکایت موصول ہونے پر یہ ادارہ تیس دن کے اندر اندر فیصلہ کرنے کا پابندہے۔ نہ صرف متاثرہ خواتین کی دادرسی کی جاتی ہے بلکہ جرم ثابت ہونے پر سزا ئیں بھی دی جاتیں ہیں۔ اچھی بات یہ کہ اس تمام کام کی کوئی فیس بھی نہیں لی جاتی۔ملازمت پیشہ بیشتر خواتین کو ایسی صورتحال کا سامنا رہتا ہے۔ مگر انہیں ان اداروں کے متعلق معلوم نہیں۔ حالانکہ ہر صوبے میں خواتین محتسب موجود ہیں۔ مزید براں قانون تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو پابند کرتا ہے کہ ہر ادارے میں ایک کمیٹی قائم ہو جہاں خواتین ہراسانگی (harassment) کی شکایت کر سکیں۔ تاہم یا تو کمیٹیاں موجود ہی نہیں، یا غیر فعال ہوتی ہیں او ر یا پھر خواتین ان سے آگاہ نہیں ہوتیں۔ اس تمام معاملے میں میڈیا کا کردار بے حد اہم ہے۔میڈیا اس حوالے سے خواتین میں آگاہی پیدا کر سکتا ہے۔ کیونکہ جب تک خواتین اپنے حقوق اور تحفظ کے بارے میں آگا ہ نہیں ہونگی۔ تب تک وہ ملک و قوم کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں گی۔