شکار سے شوق فرمائیے

October 14, 2016

غاروں کے زمانے اور پتھر کے دور کا ہمارا ایک شوق آج تک چلا آرہا ہے، جانوروں کو مارنا اور ان کا گوشت بھون کر کھانا۔ یہ کام اتنے چاؤ اور ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے کہ ایک سچّے شخص کو کہنا پڑا تھا کہ اپنے پیٹوں کو جانوروں کا قبرستان نہ بناؤ۔ہم نے یہ قول بارہا سنا، اس پر کسی کو عمل پیرا ہوتے کبھی نہیں دیکھا۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب کی یہ بات ہمیشہ یاد رہے گی کہ ہم نے پاکستان میں آج تک کسی بکری کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا۔ گوشت خوری کا یہ اشتیاق دیکھ کر کبھی کبھی تو یہ گنگنانے کو جی چاہنے لگتا ہے کہ خنجر قصائی کا قومی نشاں ہمارا۔ اور اب تو اس خنجر کی وہ فراوانی ہے کہ جانور تو رہا ایک طرف، دکھیا انسان بھی آئے دن اس کی زد میں آنے لگا ہے۔عید قرباں کبھی کی رخصت ہوئی لیکن ہمارے گھروں میں نئے نکور فریزر ابھی تک رانوں، دستوں، گردن، بونگ اور پُٹھ سے بھرے ہوئے ہیں۔ آج تک مہمان بلا کر راتوں کو گوشت بھونا جارہا ہے اور نہ پیٹ سیر ہورہا ہے نہ نیّت۔
بے چارے ہندوستان کے مسلمانوں کا رہ رہ کے خیال آتا ہے کہ وہ اگر سالن کے مسالے میں کدّو بھی پکاتے ہیں تو پولیس ان کے باورچی خانے پر چھاپہ مارتی ہے اور ان پر گائے کا گوشت پکانے کا الزام دھرا جاتا ہے۔ ہمارے لکھنوکے ٹنڈے کے کباب دنیا بھر میں مشہور تھے۔ دنیا کے رسالوں اور اخباروں میں ان کبابوں پر مضامین چھپتے تھے۔ کہاں تو چوک کی ایک قدیم اور بوسیدہ دکان میں ان کا کاروبار تھا جہاں کسی زمانے میں نہایت نفیس بچھڑے کے گوشت کے اتنے ہی نفیس گلاوٹ کے کباب بنا کرتے تھے اور ایک خلقت کھاتی اور انگلیں چاٹا کرتی تھی۔ اب ٹنڈے کی آل اولاد بھینس کے گوشت کے کباب فروخت کر رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ بی جے پی کی پولیس آئے دن پھیرے لگاتی ہوگی اور دیکھتی ہوگی کہ وہاں چوری چھپے گائے تو ذبح نہیں ہورہی ہے۔
بھارت میں ایک مرحلہ ایسا آیا تھا جب مسلمانوں کے نصیب جاگے اور انہیں کھانے کو اچھا گوشت ملنے لگا۔ ہوا یہ کہ ملک کے کھیتی باڑی والے علاقوںمیں نیل گائے کی نسلیں پروان چڑھنے لگیں۔ ہرن سے ملتی جلتی یہ مخلوق آزادانہ گھومتی پھرتی ہے اور پوری پوری کھیتیاں چٹ کر جاتی ہے۔جس علاقے میں بھی نیل گائے کے غول دھاوا بول دیتے ہیں وہاں کے کسان اپنی تقدیر کو روتے رہ جاتے ہیں ۔ اس پر حکومت ِ ہند نے شکاریوں کو اجازت دے دی کہ وہ نیل گائے کا شکار کریں اور گوشت لے جائیں۔ کھانے والوں کے تو مزے آگئے کیونکہ نیل گائے کا گوشت کافی حد تک ہرن کے گوشت سے ملتا جلتا ہے۔ مگر غضب یہ ہوا کہ اس مخلوق کے نام کے ساتھ لفظ گائے جُڑا ہوا ہے۔ ملک کی ہندو آبادی نے اس پر احتجاج اور پھر اعتراض شروع کیا ۔ حکومت نے سمجھانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور تو نہیں لگایا لیکن ہاتھ ذرا دھیما رکھتے ہوئے کہا کہ اس جانور کا گائے سے کوئی تعلق نہیں اور خدا جانے کس نے اور کب اس کی نیلی رنگت کو دیکھتے ہوئے اس کا نام نیل گائے رکھ چھوڑا۔یہ بھی کہا گیا کہ یہ تو چھوٹے گھوڑے اور گدھے جیسا جانور ہے لیکن ہندو دھرم والوں کو گائے کا لفظ ستاتا رہا۔ ایک بار میں علی گڑھ گیا تو وہاں خبر ملی کہ کھڑی فصل میں نیل گائے کے غول آگئے ہیں اور حکومت ان کا شکار کرنے والوں کی طرف سے اپنی آنکھیں موندے ہوئے ہے۔ چنانچہ علی گڑھ کے اہل ایماں اپنی کاروں کے پیچھے ٹریلر لگا کر اور اسلحہ نکال کر روانہ ہوگئے ۔ میرے جانے کے بعد ایک روز جشن کا سماں ہوا، معلوم ہوا کہ نیل گائے کا بچھڑا مار گرایا ہے اور اسی شام گوشت بھُنے گا۔ احباب نے بتایا کہ بڑی حد تک ہرن کے گوشت کا ذائقہ تھا۔ ہوگا۔ کسی لقمے پر میرا نام نہیں لکھا تھا۔ ایک بار مجھے ٹرین میں کانپور جانے کا اتفاق ہوا۔ پورے راستے کھیت ہی کھیت اور ہریالی ہی ہریالی تھی۔ اس روز میں نے کھڑکی سے نیل گائے کو کھیت چرتے ہوئے دیکھا۔ مجھے سات آٹھ نیل گائیں نظر آئیں۔ اب تک ان کی نسل کئی گناہو چکی ہوگی۔ اپنا گوشت شوق سے کھانے والوں کی یہ خوبی تو ان میں بھی آگئی ہوگی۔آخری خبریں آنے تک حکام کوشش کررہے تھے کہ بھارت میں نیل گائے کی بے لگام بڑھتی ہوئی تعداد کی روک تھام کی جائے کیونکہ وہ بھی ٹڈّی دل کی طرح کھڑی فصل چٹ کرجاتی ہیں۔
اب ذراپاکستان کی بات۔ پچھلے دنوں اخباروںمیں حکومت کے ایک ادارے کی جانب سے اشتہار چھپا ہے جس میں شکاریوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ’’ قدرتی رنگوں سے مزین صحرائے چولستان (لال سوہانرا)ضلع بہاولپور‘‘ میں تشریف لائیں اور کالا ہرن اور چنکارہ کا شکار کھیلیں۔ ابھی ڈیڑھ دو برس ہوئے مجھے بہاولپور جانے اور اسلامیہ یونیورسٹی کے جدید گیسٹ ہاؤس جانے کا موقع ملا۔ گیسٹ ہاؤس کے پیچھے درختوں کے جھنڈ میں جھانک کر جو دیکھا تو نہایت خوش وضع، خوش قطع ہرن اور ہرنیاں قلانچیں بھرتی نظر آئیں۔نہایت دل فریب منظر تھا جسے قدرت نے اپنے ہاتھوں سے تراشا تھا۔ اس پر یاد آیا کہ کوئی بیس برس پہلے بھی میرے احباب نے لے جاکر مجھے وہی لال سوہانرا کا ریگستان دکھایا تھا ۔ ہم ایک اونچے مچان پر چڑھے تھے جہاں سے دور دور کا علاقہ نظر آرہا تھا۔ خیال تھا ہرن نظر آئیں گے۔ لیکن ہوتے تو نظر آتے۔ احباب نے بتایا کہ لوگ باز نہیں آتے اور اس غریب جانور کو مار کر کھا جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک بار ایک افسر اپنے بال بچّوں کے ساتھ آئے اور اسی مچان پر چڑھے۔ سامنے ہرن گھوم رہے تھے۔ افسر نے اپنا پستول نکالا اور ایک ہرن کو مار گرایا اور اسے اپنی کار کے بوٹ میں ڈال کر لے گئے۔ میں نے پوچھا پھر کیا ہوا۔ جواب ملا کچھ نہیں۔ مگر اصل جواب کچھ عرصے بعد ملا۔ پتہ چلا کہ پورے علاقے میں کالے ہرن کی جو بچی کھچی نسل رہ گئی تھی وہ لقمہ اجل نہیں، لقمہ شکم بن گئی۔ لال سوہانرا سے کالے ہرن کی نسل ختم ہوگئی۔ مگر یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہوا یہ کہ آسٹریلیا والوں کو اندازہ تھا کہ پاکستان میں اس نایاب ہرن کی نیّا ڈگمگا رہی ہے۔ وہ پاکستان سے درخواست کرکے دو چار کالے ہرن اپنے ہاں لے گئے۔ آخرایک دن ایسا بھی آیا کہ بہاولپور کے پچھواڑے کالا ہرن دیکھنے کو بھی ملنا بند ہوگیا اور اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی اس وقت ہوئی جب پاکستان نے آسٹریلیا سے درخواست کر کے دو چار ہرن مانگے۔ وہ آئے، ان کی حفاظت کی گئی ،احتیاط سے پالا گیا تو یہ نسل پروان چڑھی جس کے شکار کی دعوت دی جارہی ہے۔ لوگ اکتوبر سے نومبر تک کالے ہرن اور خوش رنگ بادامی چنکارا کو مار سکیں گے۔ ہرن کو مارنے کی قیمت دو لاکھ روپے اور چنکارے کو پچھاڑنے کی قیمت پچھتّر ہزار روپے ہوگی۔ شکار صرف دن کے اجالے میں ہوگا۔ شکاریوں کے پاس لائسنس ہونا ضروری ہے۔ وہ شکار سے دو سو گز کے فاصلے تک جیپ لے جاسکتے ہیں، اس سے آگے انہیں پیدل جانا ہوگا۔ فی جانور پانچ فائر کرنے کی اجازت ہوگی۔ شکار کو اسی دن وہاں سے ہٹانا ہوگا۔ ایک وقت میں ایک ہی جانور مارنے کی اجازت ہوگی وہ بھی صر ف نر جانور۔ مادہ کا شکار ممنوع ہے۔یہ اعلان محکمہ تحفظ جنگلی حیا ت و پارکس ، پنجاب کی جانب سے کیا گیا ہے۔ اشتہار میں ایک اور نوید درج ہے: پہلے آئیے،پہلے پائیے۔
اب ہم کچھ عرض کریں تو لمبے چوڑے بھاشن سننے کو ملتے ہیں۔یہی کہ کسی جانور کی نسل بہت بڑھ جائے تو بڑے مسائل ہوتے ہیں، ان کو چارا فراہم کرنا ہوتا ہے، صحت کا خیال رکھنا پڑتا ہے، ان میں بیماری پھیل جائے تو سینکڑوں کے حساب سے مرتے ہیں، اور یہ بھی کہ انسان کی وہ مخلوق جو انگریزی میں poacherپوچر کہلاتی ہے، چھپ چھپا کر بے دریغ مارتی ہے اور جانوروں کا گوشت اور دوسر اعضا فروخت کرتی ہے۔ ہاتھی کے دو دانت لینے کے لئے لوگ پورا ہاتھی مار ڈالتے ہیں او رجس زمانے میں جنگلی بیل کی زبان کا سوپ مقبول ہوگیا تھا، ایک ذرا سی زبان کاٹنے کے لئے پورے پورے بھینسوں کی نسل تہس نہس کردی گئی تھی۔
میں نے مقدمہ آپ کے سامنے رکھ دیااور فیصلہ آپ پر چھوڑا۔

.