مجذوب کی نظر

September 16, 2015

ممتاز مفتی اپنی ادھیڑ عمری تک خدا کے وجود سے منکر اور اسلام سے منحرف رہے۔ انہوں نے اپنی حج کی سرگزشت "لبیک" میں ایک عجیب واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک شام میں پنڈی فوارہ چوک سے گزر رہا تھا اس وقت بجلی فیل ہونے کی وجہ سے چوک میں خاصا اندھیرا تھا۔ حسب دستور آنے جانے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی میں بچ کر ایک طرف چل رہا تھا کہ دفعتاً ایک سیاہ فام میرے سامنے اُبھرا ، چہرہ بھیانک تھا، بال بکھرے ہوئے ، آنکھیں جل رہی تھیں وہ میراراستہ روک کر کھڑا ہوگیا پھر خوشی سے چلا کر بولا تو حج پر جائے گا۔ تو حج پر جائے گا ، سنا تونے وہ مست تھا میں سمجھا فقیر ہے میں نے جیب سے چونی نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی اور چل پڑا اس نے میرا بازو پکڑ لیا ہاتھ کھولا چونی میرے ہاتھ پر رکھ دی پھر اس نے اپنے بائیں ہاتھ کی مٹھی کھولی وہ ریز گاری سے بھری ہوئی تھی ۔ اس نے ساری ریز گاری مجھے تھما دی رکھ لے ، رکھ لے وہ بولا تجھے حج پر جو جانا ہے ، تجھے پیسے چاہئیں رکھ لے رکھ لے ، یہ واقعہ مجھے گزشتہ ماہ فرانس میں اس وقت یاد آیا جب مجھ سے علی مہدی ،حسن مہدی ،فاروق بھائی ، علی اکبر شاہ اور ضیغم شاہ نے یہ سوال کیا کہ پاکستان میں جمہوریت ہر وقت خطرےـ میں کیوں رہتی ہے اور اس کا حل کیا ہے ۔ تو بے ساختہ میرے ذہن میں آیا کہ مجذوب کی نظر اس کا حل ہے مگر مجذوب سیاسی ہونا چاہئے ۔یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت آج بھی اپنے ابتدائی دنوں سے گزر رہی ہے ابتدائی دن اس دجہ سے کہ جو ملک جمہوری سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے وجود میں آیا تھا اس میں قائداعظم ؒ کا تصور پاکستان ہمیں ایوب ، یحییٰ ، ضیاء اور مشرف پڑھاتے رہے ، اور اس سیاسی عمل کو پنپنے ہی نہ دیا جو مضبوط جمہوریت کی بنیاد ہے۔ جمہوریت کاپودا پرویز مشرف کے استعفے کے بعد سے نشو ونما پا رہا ہے اس وقت وہ مسائل جو رائے عامہ کو متاثر کر رہے ہیں ، جیسے صوبہ سندھ میں بدانتظامی یا صوبہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں ضلعی یا تحصیل کی سطح پر اقربا ء پروری یہ سب جمہوریت کی ابتدائی خرابیاں ہیں ۔ مگر جمہوریت کے ابتدائی ثمرات یہ ہیں کہ بلوچستان میں بھی جشن آزادی منایا جارہا ہے اگر ہم ابتدائی خرابیوں کی بنیاد پر جمہوریت پر نفرین بھیجنے لگیں گے تو ابتدائی ثمرات سے بھی محروم ہو جائینگے ۔ اور آمریت کی خرابیاں ہمارے لئے کوئی صدیوں پرانا قصہ نہیں ۔ لسانی اور فرقہ ورانہ عصبیتیں علمی یا نظریاتی سطح سے ہٹ کر مسلح تحریکوں کی شکل میں انہی ادوار کا کیا دھرا ہیں ۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کسی جمہوری حکومت کے تسلسل اور سکون سے نہ چلنے کی وجہ سے عوام میں یہ تصور پختہ ہو گیا ہے کہ پاکستان میں کسی منتخب حکومت کا اپنی مدت پوری کر لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس لئے بالخصوص حزب اختلاف سے وابستہ افراد جمہوری دور میں صبر کی صلاحیت سے استفادہ کرنے کو تیار نظر نہیں آتے ، گزشتہ دھرنے اس کی تازہ مثال ہیں ، اس وقت باعث تسکین یہ امر ہے کہ ملک کی باگ ڈور تجربہ کار سیاسی قیادت کے ہاتھ میں ہے ۔ سیاسی قیادت کے پیش نظر یہ بھی ہے کہ یہاں آمریت نے منتخب وزیر اعظم کو پھانسی گھاٹ پہنچا دیا اور دوسرے منتخب وزیر اعظم کو جلا وطن کر دیا ، یہ دو اقدامات پاکستان کے پورے معاشرے کو تہہ وبالا کرنے کے لئےکافی ہیں اسلئے ہر صورت میں جمہوریت کی بقاء ہی سماجی ترقی کی ضمانت ہے ، جمہوریت کی پائیداری اور بقاء صرف وفاقی یا صوبائی سطح پر منتخب حکومتوں کے قیام سے ممکن نہیں ہے بلکہ جمہوریت میں بلدیاتی اداروں ،مزدور تنظیموں اور طلبہ تنظیموں جو حقیقتاً طلبہ پر ہی مشتمل ہوں کی موجودگی ناگزیر ہے کیونکہ بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی بنیادی سہو لتیں فراہم کی جاتی ہیں جب کہ مزدوروں اور طلبہ کی تنظیمیں جمہوری سیاستدانوں کی باقاعدہ نرسری ہوتی ہیں ۔ ان کے بغیر پائیدار جمہوریت کا قیام ناممکن ہے ۔ ممتاز مفتی کو جو مجذوب ملا تھا وہ روحانی تھا مگر میری نظر میں جمہوریت بھی اس مجذوب کے جسم کی معانی ہوتی ہے جبکہ مجذوب کی نظر اس جمہوریت کو چلانے والے سیاستدان کے پاس ہونی چا ہئےکہ وہ کہاں تک دیکھ سکتا ہے۔ جمہوری آزادیوں کے سبب اس کی کمزوریاں ، خامیاں عیاں کرنا چنداں مشکل نہیں ہوتا۔ سیاہ فام ، بکھرے بال اور خوفناک چہرے بعض وقت خطر ناک محسوس ہوتے ہیں مگر درحقیقت ایسے ہوتے نہیں ۔ ان کی نظر اور معاملہ فہمی سے اگر فائدہ اٹھا لیا جائے تو نہ صرف یہ کہ حال سدھر سکتا ہے بلکہ مستقبل کو بھی سمجھا اور سنوار اجا سکتا ہے ۔