جنوبی ایشیاء میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ

November 09, 2015

چین نے اپنی غیر معمولی معاشی قوت کی بدولت خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھالیا ہے جبکہ بھارت بھی اپنی غیر معمولی آبادی، بڑی مارکیٹ اور معاشی ترقی کی بدولت جنوبی ایشیاء میں ایک مقام رکھتا ہے۔ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت و سرمایہ کاری کی بدولت چین کے اِن ممالک سے معاشی تعلقات تیزی سے مضبوط ہورہے ہیں لیکن بھارت جنوبی ایشیاء میں چین کو سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے کیونکہ چین اپنے سب سے بڑے انفرااسٹرکچر بینک کے ذریعے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کے تحت خطے کے ممالک کے انفرااسٹرکچر کو مضبوط بناکر اُنہیں آپس میں ملانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے چین کا خطے میں اثر و رسوخ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ چین کے بہتر تعلقات صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش کا جھکائو بھی اب چین کی طرف ہوگیا ہے جسے چین گارمنٹس انڈسٹری کیلئے بے شمار اشیاء انتہائی کم نرخ میں فراہم کررہا ہے جبکہ چین نے بنگلہ دیش میں انفرااسٹرکچر کے کئی ترقیاتی منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کی ہے جو بھارت کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ اسی طرح چین نے سری لنکا کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کرنے اور عالمی منڈی میں سری لنکا کی تجارت بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین، سری لنکا کو اپنے سمندری تجارتی راستے کیلئے نہایت اہمیت دیتا ہے، اس لئے چین، سری لنکا میں نئی بندرگاہ اور ہوائی اڈے بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے جس کی وجہ سے سری لنکا نے چین کی آبدوزوں کو اپنی بندرگاہوں پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دے دی ہے۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کی طرح خطے کے دوسرے ممالک بھی چین کو بھارت کے مقابلے میں انتہائی مضبوط پارٹنر تصور کرتے ہیں لیکن یہ امر بھارت کیلئے تشویش کا باعث ہے کیونکہ خطے میں چین کا اثر و رسوخ بڑھنے سے بھارت کی علاقائی بالادستی کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔
بھارت کو یہ بھی تشویش ہے کہ چین کی سرمایہ کاری صرف خطے تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ چین نے امریکہ اور یورپ میں بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ حال ہی میں چین نے برطانیہ میں CGN نیوکلیئر پروجیکٹ میں ایک تہائی یعنی 28ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جبکہ آج چین، امریکہ کے حکومتی ٹریژری بلز میں سرمایہ کاری کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے تاہم سری لنکا اور خطے کے دیگر ممالک اب بھی بھارتی مصنوعات کیلئے بڑی منڈی ہیں اور بھارت سے سمندری و خشکی کےراستوں کی رسائی کی بدولت سری لنکا، نیپال اور بنگلہ دیش کیلئے بھارت سے تجارت آسان ہے۔ خطے کی بدلتی صورتحال کے پیش نظر چین اور بھارت دونوں کی دلچسپی افغانستان میں بڑھ رہی ہے اور دونوں ممالک کی افغانستان سے تجارت ایک ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ حال ہی میں بھارت نے ایران سے ایک معاہدہ کیا ہے جسکے تحت بھارت، افغانستان تک رسائی کیلئے 2016ء تک ایران کی چاہ بہار بندرگاہ استعمال کرسکے گا لیکن بھارت کے اس اقدام سے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ متاثر ہوگی کیونکہ بھارت کو یہ معلوم ہے کہ پاک چین اکنامک کاریڈور کے ذریعے پاکستان کی خلیج فارس سے جڑی ہوئی گوادر بندرگاہ سے چین کے مغربی صوبے کیلئے تجارت کرنا نہایت آسان ہوجائیگا جبکہ یہ بندرگاہ مشرق وسطیٰ اور یورپ سے ٹریڈ میں چین کی بھرپور مدد کریگی اور چین نہایت کم وقت اور لاگت میں مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک کو اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرسکے گا۔ اسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے مکمل ہونے سے چین کی پورے خطے میں تجارت و سرمایہ کاری بڑھ جائیگی جس کی وجہ سے خطے کے بیشتر ممالک کا جھکائو لازماً چین اور پاکستان کی طرف ہوجائیگا اور بھارت کیلئے علاقائی برتری برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔
جنوبی ایشیاء کی آبادی میں دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس میں بنگلہ دیش سرفہرست ہے۔دنیا کے چند ممالک کا ایک اسکوائر کلومیٹر میں بسنے والے افراد کے موازنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک اسکوائر کلومیٹر میں 950 افراد، بھارت میں 328، پاکستان میں 168 جبکہ امریکہ میں ایک اسکوائر کلومیٹر میں صرف 30 افراد رہتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے خطے کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا تقریباً 20% ہے لیکن بدقسمتی سے اس خطے میں دنیا کے آدھے غریب پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہیومن ڈویلپمنٹ سینٹر نے خطے کو دنیا کا سب سے غریب اور نعمتوں سے محروم خطہ قرار دیا ہے جہاں غریب اور امیر میں فرق بڑھتا جارہا ہے لیکن اس کے باوجود ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء کو مستقبل میں دنیا میں سب سے تیز گروتھ کرنیوالا خطہ تصور کیا جارہا ہے اور 2015-16ء میں خطے کی مجموعی اوسط گروتھ تقریباً 7% متوقع ہے۔ اگر ہم خطے کے ممالک کی 2015-16ء جی ڈی پی گروتھ کا موازنہ کریں تو بھارت کی جی ڈی پی 7.5%، سری لنکا کی 6.9%، بھوٹان کی 6.7%، بنگلہ دیش کی 5.9% افغانستان کی 5% اور پاکستان کی خطے میں سب سے کم 4.5% جی ڈی پی گروتھ متوقع ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق امریکہ کے 2009ء کے رئیل اسٹیٹ بحران کے بعد اب 2015ء میں مضبوط امریکی ڈالر کی وجہ سے منفی گلوبل گروتھ متوقع ہے جس کے باعث آئی ایم ایف نے 2015ء کے گلوبل گروتھ ہدف کو 3.5% سے کم کرکے 3.1% کردیا ہے۔ یورپ میں یونان، پرتگال، اسپین کے مالی بحران کی وجہ سے مندی ہے اور یورو کی قدر میں کمی کی وجہ سے یورپ کی ایکسپورٹس بھی متاثر ہوئی ہیں جبکہ مڈل ایسٹ میں تیل کی قیمتوں میں طویل عرصے تک ریکارڈ کمی کی وجہ سے ان ممالک کی قوت خرید پر منفی اثر پڑا ہے۔ ہمارے خطے کی سب سے بڑی معیشت چین کی کرنسی، ایکسپورٹس اور اسٹاک ایکسچینج بھی دبائو کا شکار ہیں جس کی وجہ سے دنیا کی نظریں جنوبی ایشیاء کی طرف لگی ہوئی ہیں جہاں متاثر کن جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ ساتھ لوگوں کی فی کس آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی ایک وجہ ان ممالک میں بیرون ملک سے بھیجے جانے والے ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہے۔
ورلڈ بینک نے جنوبی ایشیاء کی ششماہی معاشی رپورٹ میں پیش گوئی کی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان کی معاشی کارکردگی کا ایک جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کموڈیٹی کی قیمتوں کی وجہ سے پاکستان میں افراط زر میں ریکارڈ کمی اور روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ امید کی جارہی ہے کہ پاکستان کا مالی خسارہ 2017ء تک کم ہوکر 3.5% ہوجائے گا۔ یاد رہے کہ نواز حکومت جب برسراقتدار آئی تو جون 2013ء میں پیش کئے جانے والے بجٹ میں ملکی مالی خسارہ بلند ترین سطح 8.8% پر تھا جسے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے موجودہ مالی سال میں کم کرکے 4.3% تک لانے کا عندیہ دیا ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں 2016ء میں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 4.5% اور 2017ء میں 4.8% رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں جبکہ افراط زر کی شرح 12سال کے کم ترین سطح پر آگئی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی نے ملکی معیشت کو فائدہ پہنچایا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے بھی ٹیکس ریونیو کی وصولی میں 12.7% اضافہ ہوا ہے۔ بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کے قرضوں میں 5.5% اضافہ ہوا ہے جبکہ زرعی شعبے کی گروتھ 2.9%، صنعتی شعبے (LSM) کی گروتھ 2.5% اور سروس سیکٹر کی گروتھ 5% رہی ہے۔ صنعتی شعبے میں مایوس کن گروتھ کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس میں کمی آئی ہے۔ پیپکو کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹا کے مطابق جون 2015ء تک حکومت کے سرکولر ڈیٹ 663ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں ۔سرکولر ڈیٹ پاکستان کی معیشت میں ایک لاعلاج بیماری کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ پاکستان میں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے خطے میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں جس میں پاکستان اور چین کے علاوہ دیگر ممالک بھی گہری دلچسپی لے رہے ہیں اور CPEC کے معاشی ماہرین پاکستان اور خطے کیلئے گیم چینجر قرار دے رہے ہیں۔ درج بالا حقائق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مستقبل میں خطے کے ممالک کے مابین معاشی مقابلاتی جنگ کا امکان ہے جس کیلئے پاکستان کو خطے میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے کیلئے پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے منصوبوں سے بھرپور فائدہ اٹھاکر ملک کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہوگا لیکن اگر ہم نے یہ نادر موقع گنوادیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔