یہی تاریکی تو ہے غازہ رخسار سحر

November 30, 2015

پاکستان پیپلز پارٹی کا 49 واں یوم تاسیس منایا جا رہا ہے ۔ یہ پارٹی اپنی نصف صدی مکمل کرنے والی ہے ۔ یہ تاریخ کا بڑا عرصہ ہے ۔گزشتہ 48سالوں کے دوران تقریباً تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک پاکستان کی سیاست پیپلز پارٹی کے گرد گھومتی رہی ۔ ایک طرف بھٹو کے حامی ہوتے تھے اور دوسری طرف بھٹو کے مخالف ۔ اس کے بعد خصوصاً نائن الیون کے بعد صورت حال تبدیل ہونا شروع ہو ئی اور سیاست کے محور بھی بدل گئے ۔ ایک زمانے میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی اور موثر سیاسی جماعت قرار دیا جاتا تھا اور آج پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ سوالات کیے جا رہے ہیں کہ کیا وہ اپنے وجود کو اندرون سندھ کے اضلاع میں برقرار رکھ پائے گی اور کیا وہ پنجاب سمیت ملک دیگر حصوں میں اپنے آپ کو بحال کر پائے گی یا نہیں ؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی متبادل کوئی دوسری سیاسی جماعت وجود میں نہیں آ سکی ہے ، جس کے سوتے غریب لوگوں کی امنگوں سے پھوٹتے لیکن یہ بھی ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ یہ پارٹی پہلے کی طرح موثر نہیں رہی ہے اور یہ بات پاکستان اور پاکستان کے عوام کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے ۔ اس پارٹی میں اب بھی کایا پلٹ کا جوہر موجود ہے ۔ اس پارٹی میں اب بھی بہت بڑی تعداد میں نظریاتی کارکن موجود ہیں ، جن کی صف بندی کی ضرورت ہے لیکن اس کیلئے سیاسی عزم کی ضرورت ہے ۔ پیپلز پارٹی کو دوبارہ پاکستان کی سب سے موثر سیاسی جماعت بنانے کے لیے کیا کرنا چاہئے ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے ان اسباب کا تجزیہ کرنا ضروری ہے ، جن کی وجہ سے پارٹی یہاں تک پہنچی ہے ۔
30 نومبر 1967 ء کو لاہور میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی تو تاسیسی اجلاس بلانے سے پہلے پارٹی کے نظریہ ، منشور اور پروگرام کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا ۔ وہ مکمل ہوم ورک کے ساتھ اس تاسیسی اجلاس میں آئے تھے ۔ انہوں نے پارٹی بنانے سے پہلے بین الاقوامی اور ملکی حالات کا نہ صرف مکمل ادراک حاصل کیا بلکہ ان کا گہرا تجزیہ بھی کیا تھا اور اسی تجزیئے کی بنیاد پر اپنا آئندہ کا لائحہ طے کیا تھا ۔ انہوں نے اس وقت کے ترقی پسند سیاسی زعماء اور دانشوروں جے اے رحیم ، مبشر حسن ، خورشید حسن میر ، شیخ رشید ، عبدالحفیظ پیرزادہ، معراج محمد خان، حیات شیرپائو اور دیگر بڑے لوگوں سے مشاورت کی تھی ۔ پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے ، جو کبھی سوشلسٹ پارٹیوں میں ہوا کرتے تھے ،کچھ کمیونسٹ پارٹی میں بھی کام کرتے تھے یا مختلف تنظیموں اور پلیٹ فارموں میں کام کرتے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی پر بائیں بازو کے نظریات رکھنے کی وجہ سے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پابندی عائد کر دی تھی ۔ پاکستان میں سوشلسٹ تحریک مضبوط ہو رہی تھی اور پاکستان کی امریکہ نواز پالیسیوں کی مخالفت بڑھتی جا رہی تھی ۔ وہ سرد جنگ کے عروج کا زمانہ تھا ۔ قومی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ دنیا جمہوری تحریکوں کی لپیٹ میں تھی ۔ بظاہر دنیا دو بڑے بلاکس سرمایہ دارانہ اور اشتراکی بلاکس میں تقسیم تھی لیکن تیسری دنیا کے ممالک بھی اپنی صف بندی کر رہے تھے اور غیر وابستہ تحریک کے ساتھ ساتھ علاقائی اتحاد بھی بن رہے تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف تاریخ کا عمیق مطالعہ کرتے تھے اور اپنے عہد میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے تھے بلکہ وہ اپنے زمانے کے واحد عالمی لیڈر تھے ، جن کی مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں سب سے زیادہ درست ثابت ہوئیں ۔ انہوں نے اس وقت کے بین الاقوامی اور ملکی حالات کیساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کا نظریہ ، منشور اور پروگرام مرتب کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنا پروگرام لیکر عوام میں آئے تو عوام کیساتھ روح کا رشتہ قائم کرنے میں انہیں کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے اپنے عہد کی مکمل آگہی کیساتھ عوام کی اجتماعی دانش سے رجوع کیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جب پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی تو نہ صرف پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ دفاعی پوزیشن میں تھی بلکہ دنیا بھر میں عوامی قوتوں کی پیش قدمی تیزی سے جاری تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف اپنے عہد کے عظیم ذہن تھے بلکہ ان کا عہد بھی عظیم ذہنوں کا عہد تھا ۔ اس عہد میں مباحث ہوتے تھے ۔ اس عہد میں مشاورت ہوتی تھی اور اس عہدمیں ذوالفقار علی بھٹو خود پارٹی لائن دیتے تھے ۔ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد عالمی سرمایہ دارانہ بلاک نے زیادہ جارحانہ انداز اختیار کیا ۔ سرد جنگ کا آخری اور فیصلہ کن معرکہ افغانستان میں ہوا ۔ اس جنگ کی آگ سے افغانستان اور پاکستان دونوں یکساں متاثر ہوئے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایسے سیاسی حالات ملے ، جب دنیا بھر میں خصوصاً ہمارے خطے میں ترقی پسند اور جمہوری قوتیں دفاعی پوزیشن میں چلی گئیں ۔ ان قوتوں کو ریاستی طاقت کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی دہشت گرد عناصر کے ذریعہ بھی کچلا گیا ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ہی سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور یونی پولر ورلڈ قائم ہوئی ، جس میں امریکہ دنیا کی واحد سپر پاورکے طور پر سامنے آیا ۔ سرد جنگ کے بعد کا یہ زمانہ ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کےلئے زیادہ تباہ کن ثابت ہوا ۔ بنیاد پرست اور انتہا پسند قوتیں اچانک ابھر کر سامنے آئیں اور ان کے خلاف ایک عالمی جنگ شروع ہوئی ، جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا ۔ اس جنگ نے دنیا بھر میں ترقی پسند تحریک کیلئے راستہ بند کر دیا اور عالمی سرمایہ دارانہ بلاک کے خلاف کوئی صف بندی نہیں ہونے دی ۔ محتربہ بے نظیر بھٹو کا دور انتہائی مشکل تھا ، جس میں انہوں نے نہ صرف پارٹی کے وجود کو بچایا بلکہ پاکستان میں جمہوریت کو آمرانہ شکنجوں سے نکالا ۔ یہ ان کی بہت بڑی اور تاریخی کامیابی ہے ۔ یہ ان کے سیاسی تدبر اور ملکی اور بین الاقوامی حالات کے گہرے ادراک کا نتیجہ ہے ۔ محترمہ بینظیر بھٹوکو اپنے پورے سیاسی کیرئیر میں آمروں اور ان کے پر وردہ سیاسی و غیر سیاسی عناصر کا مقابلہ کرنا پڑا۔ وہ دو مرتبہ وزیراعظم بنیں لیکن انہیں اپنی مرضی کی حکمرانی کا موقع نہ ملا۔ اس کے باوجود انہوں نے عوام کیلئے بہت کچھ کیا اور ایشوز کی سیاست کی۔انہوں نے غریب اور مظلوم طبقات کے حقوق کیلئے اقدامات کیے۔ انہوں نے وفاق کے استحکام کیلئے اقدامات کیے اور ہر محاذ پر دہشت گردوں کو للکارا۔ انہوں نے آج کی طرح عوام کو لاوارث نہیں چھوڑا۔
محترمہ بینظیر بھٹوکی شہادت کے بعد تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا پیپلز پارٹی ساتھ نہیں دے سکی۔ پیپلز پارٹی غیر ترقی پسند قوتوں کےلئے سیاسی میدان خالی کرتی گئی اور آج پاکستان میں سیاست کا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نظر نہیں آتا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی کی بحالی کیلئے چند بنیادی باتوں پر توجہ دینا ہو گی۔ اول تو انہیں اپنے نانا اور اپنی والدہ کے طرح قومی اور بین الاقوامی حالات کا از سر نو تجزیہ کر کے پارٹی کے نئے اہداف کا تعین کرنا ہوگا اور پارٹی کے سینئر لوگوں کا تھنک ٹینک بنانا ہوگا۔ بدلتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں پارٹی کا نیا نظریہ، منشور اور پروگرام وضع کرنا ہوگا۔ اس کے بعد تنظیم پر توجہ دینا ہو گی اور یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ تنظیم نئے پروگرام کے مطابق چل سکے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کوسندھ میں گڈ گورننس پر زیادہ توجہ دینا ہوگی اور اسے رول ماڈل بنانا ہوگا۔ اب پہلے کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان اور ہمارے خطے سمیت پوری دنیا افرا تفری اور ہنگامہ خیزی کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی کے معاملات اگر اب بھی درست نہ کیے گئے تو میں یہ نہیں کہتا کہ پیپلز پارٹی ختم ہو جائے گی لیکن پیپلز پارٹی کیلئے سیاسی گنجائش مزید کم ہوتی جائے گی۔ صورت حال مایوس کن ہے لیکن بقول فیض۔
یہی تاریکی تو ہے غازہ رخسار سحر