مصروف ہوں، وقت ہی نہیں ملتا!

December 04, 2016

کراچی میں ایم اے جناح روڈ پرگرومندر کے قریب فٹ پاتھ پر ایک دیوانہ بیٹھا ہوا تھا، واضح رہے کہ یہ علاقہ گرومندر کے نام سے جانا جاتا ہے تاہم بھارت میں بابری مسجد کے واقعہ کے بعد اس کا نام ’بابری چوک‘ رکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی یہ اب ہندوستان میںمغل شہنشاہیت کی بنیاد رکھنے والے ظہیر الدین بابر سے موسوم ہے۔ ویسے راقم کم علم کے ناقص مطالعے میںظہیر الدین بابر صاحب کا دین متین کے لئے کوئی کارنامہ تا حال نہیں آسکا ہے (کسی کے علم میں ہو تو آگاہ فرمائیں) ہاں انہوں نے بلاتفریق مسلم و غیر مسلم انسانی سروںکے مینار ایستادہ کرنے کی چنگیز وہلاکو خان کی روایت کو زندہ رکھا، وہ شیر و گینڈے کے شکار کے باعث بابر(ببرشیر) کہلائے، تاہم خاطرِ ہوس،مے ومعجون کے کثرت استعمال سے یہ بہادر بادشاہ مٹی تلے مٹی ہوگئے۔ ہم نصاب میں اپنے بچوں کو جن مغلوں کی تہذیب کا رٹا لگواتے رہتے ہیں، انہی مغلوں کے شہزادے مرد غلاموں سے شادیاں رچاتے تھے، یہاںتک کہ بارات بھی لے جاتے، اس شاندار و قابل فخر تہذیب کی بدولت ہی ڈولی سے گرنے کے باعث ایک شہزادے صاحب کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔۔۔تمہید طویل ہوگئی، تو بابری چوکسے تقریباً روز گزرنے والے چند نیک اصحاب نے دیکھا کہ دیوانہ صاحب ہر روز میلے کچیلے کمبل نما بستر پر بیٹھے ایک ہاتھ سے ایک سکہ اچھالتے ہیںپھر جیسے ہی وہ سکہ نیچے آتا ہے تو وہ اس پر ہتھیلی رکھ دیتے ہیں، پھر ہتھیلی ہٹاتے ہیںاور سکے کو اٹھا کر دیکھنے لگتے ہیں پھر وہی مشق شروع کردیتے ہیں یعنی’ ٹاس‘ ہر روز بلا وقفہ جاری رہتا ہے۔ یہ اصحاب اس عذاب سے چھٹکارا دلوانے کی خاطر دیوانے کے قریب جا بیٹھ گئے (ویسے بحرو بر میںفساد ایسے دیوانوںکی وجہ سے نہیں، خرد مندوں ہی نے خشکی و تری میںقتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے) خیر، ان اصحاب میںسے ایک نے پوچھا یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ دیوانے نے کوئی جواب نہیںدیا، تھوڑی دیر بعد دوسرے صاحب گویا ہوئے آپ کیا شغل فرما رہے ہیں دیوانے کا مشن جاری تھا، تیسرے صاحب نے ابنِ آدم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر منت کی، کہ جی آپ ہر روز سارا سارا دن یہ کیا کرتے رہتے ہیں۔ دیوانے صاحب نے ان صاحبانِ قلب و نظر پر ایک نظر ڈالی، پھر سکہ اچھالا ہاتھ میںلیا اور کہنے لگے کہ مجھے ڈسٹرب نہ کریں، دیکھتے نہیںہو میںکتنا مصروف ہوں۔۔۔!
پچھلے جمعہ المبارک کو ایک مولوی صاحب خطبہ دے رہے تھے، ویسے میں انہیںاستاد جی کہتا ہوں، کیونکہ ان میںروایتی مولویوں والی کوئی بات نہیںہے، نہ تو چندہ مانگتے ہیں، نہ فطرہ زکوٰۃ، اور نہ ہی کھالیں جمع کرتے ہیں،نہ تو سیاسی مولوی صاحبان کو مقدس منبر پر بٹھا کر اشتعال انگیز تقریریں کرواتے ہیں ،نہ ہی معصوم طلبہ سے نعرے لگوا تے ہیں، دکان چلاتے ہیں اور بغیر تنخواہ قرآن و حدیث سکھلاتے ہیں۔ تو فرمانے لگے کہ آج کل ہر کوئی کہتا ہے کہ ٹائم ہی نہیںملتا۔ جو لوگ مولائے کریم کو یاد رکھنے کے لئے وقت نہیںدیتے، پروردگار انہیں ایسے الجھا دیتا ہے کہ وہ صبح سے شام تک حیوانوں کی طرحلگے رہتے ہیں اور اس طرحانہیںپتہ ہی نہیںچلتا کہ فرشتہ اجل دیوار پر دستک دینے آجاتا ہے۔ فرمایا کہ زندگی کو تین دن تصور کرلیں، ایک وہ جو گزر گیا دوسرا آج کا دن جو گزر رہا ہے تیسرا وہ کل جو آنے والا ہے، اپنا محاسبہ کیا جائے کہ جو دن (یعنی عرصہ) گزر گیا اس میں، میںنے کیا کھویا کیا کمایا، آج کا جو دن گزر رہا ہے اس میں میری مصروفیت کیا ہے؟ جہاں تک آنے والا کل ہے تو اس کا توعلم ماسوائے رب کائنات کے کسی کو نہیں، سو جو وقت میسر ہے تو کیوںنہ اس میںتوبہ کرتے ہوئے اگر باقی وقت نصیب ہوجائے اسے رب کو راضی کرنے کے لئے تصرف میںلایا جائے! میںگناہ گار دل ہی دل میں کچہری کرنے لگا کہ ظہیر الدین بابر کی بادشاہت کے آخر ی تاجدار بہادر شا ہ ظفر نے تو کہا تھا ۔
عمر ِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میںکٹ گئے دو انتظار میں
ہمارےاستاد جی نے تو چار دن کودو دن کردیا...بلاشبہ قرآن عظیم سورہ المومنون میںہے کہ رب کائنات جب لوگوںسے پوچھیں گے کہ تم زمین (دنیا ) میںکتنے برس رہے ، وہ کہیں گے ایک دن یا دن کا حصہ....
ہمارے ایک جاننے والے کا انتقال ہوا، میت تدفین کے لئے کراچی کے مواچھ گوٹھ لے جائے جارہی تھی۔ یہاں حکومت نے قبرستانوں کیلئے اراضی دے رکھی ہے، چار دیواری اور دیگر انتظامات لوگ خود کرتے ہیں۔ ہم ایک کوسٹر میںسوار تھے، ایک صاحب کہنے لگے کہ پچھلے دنوں ایک ایسے صاحب کا انتقال ہوا، جو کسی برادری کی تنظیم کا رکن نہیںتھے، ان کے لئے پورے شہر قائد میںقبر کی جگہ میسر نہیںتھی، پوش علاقوں کے قبرستانوںمیںتو فی قبر بیس تیس ہزار روپے لئے جاتے ہیں، یہ تو بے روزگار غریب شخص تھا، پھر ایدھی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا ۔ میںنے کہا کہ کراچی میںاتنے سارے قبرستان تو ہیں! کہنے لگا کہ ہر برادری، قومیت، مسلک کا اپنا اپنا قبرستان ہے، جس میںکسی ’غیر‘ کو دفنانے نہیںدیتے۔ میںنے استفسار کیا کہ کیا مسلمان بھائی بھائی نہیںہیں، ایک قوم نہیںہیں، پھر تفریق کا یہ ظلم کیوں روا ہے! کیا ان واقعات کی ہمارے اُن سیاسی مذہبی صاحبان کو علم نہیں، جو نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کا شغر، اُمہ کو ایک جسم بن جانے کا پیغام دیتے رہےہیںاور یہاںیہ عالم ہے کہ ایک مسلمان کے قبرستان میںدوسرے مسلمان مُردے کو دفن کرنے نہیں دیا جاتا۔اس دوران ہم قبرستان پہنچ گئے (ہر ایک کو ایک روز پہنچنا ہے) میت کی تدفین کے بعد ایک مولوی صاحب وعظ فرمانے لگے، میںنے قریب بیٹھے دوست سے سرگوشی کی کہ مولوی صاحب مُردوں کو نصیحت کررہے ہیں، دوست نے کہا نہیںمخاطب ہم ہیں، میںنے کہا یہی تو میںکہہ رہا ہوں...! مولوی صاحب نے فرمایا، ’کل‘ کی تیاری کرو اور یہ دیکھو کہ زاد راہ کیا جمع کیا ہے، آج کل ہمارے معاشرے کا یہ حال ہے کہ ہر ایک مصروف ہے یہاںتک کہ چھوٹے بچے کے پاس بھی وقت نہیںہے، لیکن جس نے زندگی و دیگر نعمتیں دی ہیں ، گزارے گئے وقت میں اُس رب کا کتنا حصہ ہے؟ نوجوانوں کو تلقین کی کہ جوانی کی قدر کرو، اسے ایسی غیر ضروری مصروفیات میںضائع نہ کرو کہ کل پھر پشیمان ہونا پڑے۔مولوی صاحب نے درست فرمایا،جوانی ہے ہی انمول۔ ایک ضعیف العمر شخص گردن جھکائے جارہے تھے،اس عمر میںنحافت کے باعث کمر جھک جاتی ہے ، راستے میں ایک نوجوان نے دیکھا تو استفسار کیا کہ بابا کیا چیز تلاش کررہے ہو، کیا شے کھو گئی ہے؟ جواب دیا بیٹا جوانی کھو گئی ہے، عہدِ شباب ڈھونڈرہا ہوں......




.