جاوید خانانی ہم شکل بھائی الطاف خانانی اور بھتیجے کی امریکا میں سزا سے ذہنی دباؤ کا شکار تھے

December 06, 2016

کراچی (اسد ابن حسن) جاوید خانانی کی گزشتہ اتوار کو پراسرار موت یا خودکشی کا سبب جو ذہنی دباؤ بتایا جارہا ہے وہ اپنے جڑواں ہوبہو ہم شکل بھائی الطاف خانانی سے بے انتہا جذباتی وابستگی ہے اور جب سے الطاف اور اس کے بیٹے کو امریکا میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے 20 برس قید اور ڈھائی لاکھ ڈالر ز جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے، جاوید خانانی کافی ذہنی دباؤ کا شکار تھے اور اس کو یہ خوف بھی پیدا ہوگیا تھا کہ شاید اس کے گرد بھی بین الاقوامی منی لانڈرنگ کے حوالے سے گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ جاوید کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ سال نومبر میں امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی نے ایک اسٹنگ آپریشن کے ذریعے الطاف خانانی کو گرفتار کیا جس نے مبینہ طور پر لاکھوں ڈالر ز ہنڈی حوالے کے ذریعے 2015ء میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جس کے بعد وہ اور اس کا 29 سالہ بیٹا عبید خانانی پاناما میں گرفتار ہوئے۔ گرفتاری کے بعد الطاف خانانی پر منی لانڈرنگ کی سازش کرنے جبکہ 13 الزامات منی لانڈرنگ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے تھے۔ الطاف نے پہلے الزام کو قبول کرتے ہوئے فلوریڈا کی عدالت میں پلی بارگین کرتے ہوئے ڈھائی لاکھ ڈالر زکی ادائیگی اور منی لانڈرنگ کے کمیشن کو واپس کرنے کا عندیہ دیا مگر اس کے باوجود الطاف کی گلوخلاصی نہ ہوسکی۔ رواں برس اکتوبر میں امریکی محکمہ آفس آف فارن اسیٹس کنٹرول نے منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار الطاف کے بیٹے عبید خانانی، بھائی جاوید خانانی، اس کے بیٹے حذیفہ خانانی اور کزن عاطف پولانی کو بھی منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔ مجوزہ امریکی سرکاری ٹریژری محکمہ او ایف اے سی نے مزید سراغ لگایا کہ خانانیوں کی کئی جنرل ٹریڈنگ اور کنسٹرکشن کی کمپنیاں بھی اس دھندے میں ملوث پائی گئیں جن کے نام محکمہ نے اپنی سرکاری ویب سائٹ پر دیئے ہیں۔ ان کمپنیوں میں مازا کا جنرل ٹریڈنگ ایل ایل سی، جیٹ لنک ٹیکسٹائل ٹریڈنگ، سیون سی گولڈن، جنرل ٹریڈنگ ایل ایل سی، عائدہ ٹریڈنگ ایل ایل سی اور وادی ال افرا ٹریڈنگ ایل ایل سی شامل ہیں جن پر الزام ہے کہ اُنہوں نے خانانی منی لانڈرنگ آرگنائزیشن (ایم ایل او) کی مادی طور پر اعانت کی جبکہ عبید خانانی کی کمپنی کے زون جنرل ٹریڈنگ ایل ایل سی اور لینڈ ٹیک ڈیویلپرز اور حذیفہ خانانی کی کمپنی کے زون بلڈرز اینڈ ڈویلپرز اور یونیسکو ڈویلپرز بھی مبینہ طور پر منی لانڈرنگ میں اعانت میں ملوث ر ہے۔ او ایف اے سی نے تحقیقات کو مزید وسیع کرنے کیلئے دیگر سرکاری ملکی اور غیر ملکی اداروں سے بھی مدد لی جن میں ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن، فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن، یو ایس کسٹم اینڈ بارڈر پروٹیکشن، نیشنل ٹارگٹ سینٹر، آسٹریلین فیڈرل پولس، آسٹریلین کرمنل انٹیلی جنس کمیشن، اینٹی منی لانڈرنگ یونٹ، جنرل پولیس ہیڈ کوارٹر دبئی اور یو اے ای سینٹرل بینک شامل ہیں۔ الطاف خانانی کی گرفتاری بھی ڈرامائی انداز میں ہوئی جب 5 ستمبر 2015ء میں ایک شخص نے اپنے آپ کو منشیات کا ڈیلر بتایا اور خواہش ظاہر کی کہ وہ بھاری کالا دھن کی منی لانڈرنگ کروانا چاہتا ہے جبکہ وہ شخص حقیقتاً امریکی ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کا اہلکار تھا۔ الطاف نے 7 جنوری 2015ء سے اپریل 2015ء تک 13 منی لانڈرنگ ٹرانزیکشن کیں جن کی مجموعی مالیت 12 لاکھ ڈالر ز تھی۔ مذکورہ 13 ٹرانزیکشن نیو جرسی، ڈیلاس، ہوسٹن اور اٹلانٹا کے شہروں سے کی گئیں جوکہ مختلف 12 ایجنٹوں نے کیں جبکہ رقوم غیر ممالک سے تین شہروں میں منتقل ہوئیں اور 13 کے 13 اکاؤنٹ ڈی ای اے کے ہی تھے۔ الطاف نے اس سلسلے میں 3 فیصد کمیشن لیا جوکہ 36 ہزار ڈالر ز بنی۔ امریکی تحقیقاتی ادارے نے عدالت میں انڈر کور ایجنٹ اور الطاف خانانی کا تمام ریکارڈ بات چیت اور دیگر اہم شواہد جمع کروائے۔ تحقیقاتی ادارے نے عدالت میں یہ بھی انکشاف کیا کہ الطاف خانانی کے مبینہ طور پر دہشت گرد تنظیموں، جہادی تنظیموں، طالبان اور چینی، کولمبین اور میکسیکو کے جرائم پیشہ گروپس سے بھی روابط تھے اور اسی کی کمپنی ان کی منی لانڈرنگ کرتی رہی تھی۔ واضح رہے کہ پاکستان میں 2008ء میں خانانی اور کالیا منی ایکسچینج کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا تھا اور کراچی، لاہور، ایبٹ آباداور پشاور میں مقدمات درج ہوئے۔ کمپنی پر الزام تھا کہ اس نے 3 سے 4 ارب روپے کے ہنڈی حوالے کا کاروبار کیا۔ مقدمے کے اندراج کے بعد مناف کالیا، جاوید خانانی، عاطف پولانی وغیرہ گرفتار ہوئے جبکہ نامزد الطاف خانانی مفرور قرار پایا۔ تین سال بعد ملزمان بری ہوگئے جبکہ لاہور کا ایک مقدمہ ابھی بھی زیرالتوا ہے۔ جاوید ایک دفعہ پھر گزشتہ سال جنوری میں گرفتار ہوا مگر دوبارہ بری ہوگیا۔