2017ء، سیاسی جماعتوں کے دعوے اور حقائق ؟

December 12, 2016

اسلام آباد میں سیاسی موسم پھر بدلنے والا ہے پہلے تو یہ موسم عمران خان کی PTIنے بدلنے کی کوشش کی تھی اب شاید حکومت نئے سال کے آغاز کے ساتھ ہی ایک بھرپور سیاسی ایجنڈے اور نئے نئے نعروں کے ساتھ سیاسی ماحول گرم کرنے والی ہے ۔جس کے لئے وفاقی کابینہ کے ایک سابق رکن اور وزیر اعظم نواز شریف کے نہایت قابل اعتماد ساتھی نے انہیں یہ مشورہ دیا ہے کہ نئے سال سے وہ سیاسی وزیر اعظم کے طور پر کام کا آغاز کریں یہ بڑا صحیح مشورہ ہے مگر وزیر اعظم تو پہلے ہی سیاسی وزیر اعظم ہیں اس لئے وہ پانامہ کیس جیسے حقیقت کے قریب اسکینڈل کو بھی سیاسی مہارت سے ہینڈل کر رہے ہیں مگر قانون قدرت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا ایسے لگتا ہے کہ اس دبائو کو کم کرنے کے لئے حکومت کی سیاسی سرگرمیوں کی ترجیحات بدلنے و الی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں میں جو لوگ طرح طرح کے ماہرین بن کر حکومت کا کیس بیان کرتے ہیں ان کی جگہ کوئی اور لے لے، اس لئے کہ کئی افراد کے رویے اور اظہار خیال کے انداز سے عوام کا سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے ۔اس کے علاوہ حکومت جو رائیزنگ پاکستان کے نام سے یکم جنوری سے جو انتخابی مہم کے حوالے سےا سکیم لانا چاہ رہی تھی وہ کئی نامعلوم وجوہات کی بناء پر فی الحال موخر کر دی گئی ہے اس اسکیم کے بارے میں وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے بھی پچھلے دنوں کہا تھا کہ یہ اسکیم جنوری سے آ رہی ہے مگر اب اس کو موخر کر دیا گیا ہے؟ تاہم پاناما لیکس کے حالیہ پس منظر میں وزیر اعظم ممبران پارلیمنٹ اور خاص کر اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کرنے والے ہیں یہ شریف خاندان کی پرانی حکمت عملی ہے جس کے بعد آدھے سے زیادہ ناراض ممبران اسمبلی کافی حد تک اپنا موڈ بدل لیتے ہیں اور دوبارہ ان کے حق میں نعرے لگانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔اس وقت تو ایسے نظر آ رہا ہے کہ 2017ء عملی طور پر اچھا ہو یا نہ ہو مگر حکومتی دعوئوں کا ایک سیلاب آنے والا ہے جس میں روزگار سے لیکر سستی بجلی کے دعوے قابل ذکر ہوں گے اس سلسلہ میں PTIسمیت کسی کو بھی یاد نہیں کہ اس وقت اس نےاقتدار میں آنے کے بعد کیا کیا دعوے کئے تھے اور پہلے سو دن کا کیا ایجنڈا قوم کو دیا تھا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس 100دن کے پروگرام یا اعلانات پر کوئی عملدرآمد ہوالوگوں کا جواب نفی میں آئے گا ایک معتبر شخصیت نے اسلام آباد میں اس حوالے سے بڑا اچھا تبصرہ کیا کہ عمران خان بلاوجہ پاناما اسکینڈل کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں وہ اس کی بجائے وزیراعظم نواز شریف کے تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد کی ابتدائی تقاریر اور اعلانات کو دیکھیں کہ کیا پی آئی اے، اسٹیل مل سمیت مختلف اداروں کے حالات بہتر ہوئے ہیں! دعوئوں اور وعدوں پر کتنا عملدرآمد کیا گیا ہے اس طرح پاکستان پیپلز پارٹی بھی نئے سال سے سیاسی میدان میں متحرک ہونے والی ہے جبکہ PTIپہلے ہی سیاسی میدان میں ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سب پارٹیاں 2017ء کی آخری سہ ماہی میں متوقع عام انتخابات میں عوام کے معاشی حالات کی بہتری کے لئے کیا کچھ کرتی ہیں۔اس سلسلے میں ہماری قوم اور تحقیقی اداروں کو ان پارٹیوں کے حالیہ انتخابات کے منشور کا ضرور جائزہ لے کر ان کا احتساب کرنا چاہئے کہ ان کے انتخابی دعوے کیوں اتنے بلند ہوتے ہیں کہ وہ بعد میں پورے کرنا مشکل کیوں ہو جاتے ہیں۔

.