خون کے دھبے خون سے نہیں دھلتے

December 16, 2016

جرنیلی کتابیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں مگرایک بات پر بہت حیرت ہوتی ہے،ہمارے بہادر جرنیل جو بات انگریزی میں بلا خوف و تردد کہہ جاتے ہیں اسے اردو میں بیان کرتے ہوئے دِقت کیوں محسوس کی جاتی ہے؟مثلاً جنرل ایوب خان کی کتاب ـ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ اردو میں شائع ہوئی تو اس کا عنوان تھا’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘۔اسی طرح جنرل پرویز مشرف ’’اِن دا لائن آف فائرـ‘‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں مگر جب یہی کتاب اردو میں شائع ہوئی تو اس کا عنوان تھا’’سب سے پہلے پاکستان‘‘روئیداد خان کا تعلق بیوروکریسی کے اس گروہ سے ہے جن کا اسٹیبلشمنٹ سے چولی دامن کا ساتھ رہا،اس لئے ان پر بھی اس رویئے کی گہری چھاپ واضح دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے کتاب لکھی ’’پاکستان،اے ڈریم گان سور‘‘اب اس کتاب کا سیدھا سا ترجمہ تو یہی بنتا ہے ’’پاکستان،ایک خواب جو عذاب بن گیا‘‘ مگر ان کی یہ کتاب اردو میں شائع ہوئی تو اس کا عنوان تھا’’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘‘مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر بیشمار مصنفین نے اپنے تجربات و مشاہدات قلمبند کئے مگر اس موضوع پرہمارے محترم دوست سرمد سالک کے والد گرامی بریگیڈئیر صدیق سالک شہیدکی کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔لیکن یہاں بھی اردو اور انگریزی کا تضاد بہت واضح ہے۔کتاب کا نام ہے ’’وٹ نیس ٹو سرینڈر‘‘اب اس کا اردو ترجمہ تو یہی بنتا ہے’’شکست کی گواہی ‘‘مگر یہ کتاب اردو زبان میں ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔جب تک اے پی ایس کا سانحہ پیش نہیں آیا تھا،ہم ہر سال 16دسمبر کو یوم سقوط ڈھاکہ منایا کرتے تھے اور بنگلہ دیش میں اس دن کو یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا۔مگر کسی فریق نے اس حقیقت کا اِدراک کرنے کی کوشش نہیں کی کہ جب جنگ ہوئی تو پہلی لاش کسی بنگالی یا غیر بنگالی کی نہیں گری،بلکہ پہلا قتل سچ کا ہوا اور ابھی تک اسلام آباد اور ڈھاکہ میں سچ کے حلقوم پر چھری پھیرنے کا سلسلہ جاری ہے۔بہت سے لوگ تب بھی حالت ِانکار میں تھے اور ا ب بھی حقائق کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔دسمبر 1971ء میں صورتحال یہ تھی کہ پاک فوج کے ایک لاکھ جوانوں کو پانچ لاکھ بھارتی فوج اور دو لاکھ گوریلوں کی مسلح یلغاراور بنگالی عوام کی بغاوت کا سامنا تھا۔غیر موافق حالات میں اس جنگ کا نتیجہ کیا ہو گا،یہ بات سب کو معلوم تھی۔سرنڈر سے چند روز قبل جنرل امیر عبداللہ نیازی نے ڈھاکہ ایئرپورٹ پرچند غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،بھاگ جانے کی خبر کس نے دی ہے،میں تو یہاں ہوں۔اور پھر طنزیہ انداز میں بی بی سی کو برہمن براڈ کاسٹنگ کارپوریشن قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ بھارتی ٹینک تو میری لاش سے گزر کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔اس کے بعد کیا ہوا،ان کی اپنی کتاب ’’بیٹریئلز آف ایسٹ پاکستان ‘‘ میں بھی بہت کچھ ہے اور باقی عینی شاہدین نے بھی اپنے اپنے انداز میں واقعات کوقلمبند کیا ہے۔جنرل امیر عبداللہ نیازی کے پیشرو میجر جنرل خادم حسین راجہ نے اپنی کتاب ’’اےا سٹرینجر اِن مائی اون کنٹری‘‘میں بتایا ہے کہ جنرل نیازی کس قماش کے انسان تھے اور ان کے نزدیک بنگالیوں کی کیا حیثیت تھی۔انہوں نے اپریل 1971ء میں فوج کی کمان سنبھالتے ہی غلیظ گالی دیتے ہوئے کہا ’’یہ بنگالی سمجھتے کیا ہیں اپنے آپ کو،میں ان کی نسلیں بدل دونگا‘‘جب وہ اپنے ان گھٹیا ترین خیالات کا اظہار کر رہے تھے تو ایک بنگالی افسر میجر مشتاق سے یہ تضحیک و تذلیل برداشت نہ ہوئی اور اس نے اپنی کنپٹی پر پسٹل رکھ کر خودکشی کرلی۔
میں نے بنگلہ دیش کے قیام سے متعلق واقعات کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کے لئے اس مرتبہ چند بنگالی مصنفین کی کتابوں کا انتخاب کیااور ان میں سب سے اہم کتاب لیفٹیننٹ کرنل شریف الحق دالیم کی ہے۔ افواج پاکستان میں خدمات سرانجام دے رہے بنگالی افسروں میں بے چینی تو تھی ہی مگر26اور 27مارچ کی رات ایسٹ بنگال رجمنٹ کے میجر ضیا ء الرحمان نے کلور گھاٹ ریڈیو اسٹیشن سے بغاوت کا اعلان کیا تو بہت سے فوجی افسر اس کی آواز پر لبیک کہنے کی جستجو میں مصروف ہو گئے۔دالیم نے پہلے تو کوئٹہ میں بلیلی اسلحہ خانے کو اڑانے کی کوشش کی اوراس مقصد میں ناکامی کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت فرار ہو کر بھارت پہنچ گیا۔اس کے بعد جیسور میں کیپٹن حفیظ الدین کی قیادت میں ایک پوری رجمنٹ نے بغاوت کر دی اور پھر تو ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔شریف الحق دالیم کی اس کتا ب میں یہ تاثر بہت واضح ہے کہ بنگالیوں کو انقلاب کے نام پر دھوکہ دیا گیا اور مفاد پرست طبقے نے بنگلہ دیش کو بھارت کی طفیلی ریاست بنا دیا۔دالیم لکھتے ہیں ’’ہندوستانی فوج کروڑوں ڈالر کا فوجی ساز و سامان،اسلحہ بارود،سامان رسد اور گاڑیاں اپنے ساتھ لے گئی۔انہوں نے صنعتی مشینوں کو اکھاڑ کر ہندوستان بھجوا دیا،حتیٰ کہ اپنے زیر قبضہ چھائونی کے علاقوں سے فرنیچر اور تنصیبات تک اکھاڑ کے لے گئے۔اخبار ’’انیک‘‘ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کی لوٹی گئی اشیاء کا تخمینہ تقریبا ً 1000ملین امریکی ڈالر بنتا ہے‘‘غیر بنگالیوں کے ساتھ جوسلوک کیا گیا اس کی معمولی سی جھلک بھی اس کتاب میں دکھائی دیتی ہے۔دالیم بتاتے ہیں کہ مکتی باہنی کے ایک سیکٹر کمانڈر نے پاکستان کے ایک سی ایس پی افسر کی حاملہ بیوی کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیا اور اس کے زیورات لوٹ لئے۔
9اپریل 1973ء کو ایک سہ طرفہ معاہدہ ہوا جس میں سب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا گیا،جنگی قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کرنے کا فیصلہ ہوا۔اور یہ طے کیا گیا کہ کوئی بھی ملک 1971ء کے واقعات کی بنیاد پر کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔لیکن بنگلہ بندھو شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ نے راکھ میں بجھی انتقام کی چنگاریوں کو ہوادی اور جنگی جرائم کی پاداش میں یکے بعد دیگرے عبدالقادر مُلا، علی احسن مجاہد، صلاح الدین چوہدری، قمرالزماں،مطیع الرحمان نظامی اور میر قاسم علی کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔تو کیا پاکستان بھی ان بنگالی فوجی افسروں کوکورٹ مارشل کرنے کے لئے حوالگی کا مطالبہ کرے جو 1971ء میں بغاوت کے مرتکب ہوئے؟شیخ مجیب کی بیٹی کب سمجھے گی کہ خون کے دھبے خون سے نہیں دُھلتے۔

.