پانی کا ہتھیار

December 19, 2016

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر نظر انداز کرنے یا ختم کرنے کا خدشہ اب حقیقی خطرہ بن چکا ہے۔ پاکستان جب وجود میں آیا تو چھ دریا پاکستان میں بہتے تھے۔ بھارت نے بڑی ہوشیاری سے 1960ءمیں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے پاکستان کو اسکے تین دریائوں سے محروم کیا۔ پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ رہے سہے تین دریائوں پر اپنا حق تسلیم کرانا ہی غنیمت سمجھا گیا ورنہ تین مشرقی دریا جو ہزاروں سالوں سے پاکستان میں بہتے رہے تھے کیونکر بھارت کے دریا بن گئے۔ لیکن اب بھارت پاکستان کے باقی تین دریائوں کو بند کرنے کی بھی کھلے عام دھمکیاں دے رہا ہے اور ایک دفعہ پھر پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔
پچاس کی دہائی میں جب بھارت نے پاکستانی دریائوں کے رخ موڑنا شروع کئے، پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اور امریکہ مغربی بلاک کی سپر پاور۔ بھارت اس وقت ایک کمزور اور غریب ملک تھا اورغیر جانبدار تحریک کا حصہ تھا۔ پاکستان کا امریکہ پر تھوڑا بہت اثرو رسوخ تھا سو امریکہ نے کوشش کر کے بھارت کو سندھ طاس معاہدے کیلئے تیار کیا اور ورلڈ بینک کو بیچ میں ڈالا ورنہ ورلڈ بینک کا کیا کام کہ دو ملکوں کے درمیان معاہدے کرائے۔ ورلڈ بینک نے بھی بہرحال بھارت کے منصوبوں کوہی زبردستی پاکستان پر تھوپ دیا۔ بھارت تین دریا ہڑپ کرنا چاہتا تھا، سو ورلڈ بینک نے پاکستان کو تین دریائوں سے مکمل دستبردار ہونے پر مجبور کیا۔ جو تین دریا ہمارے لئے بچے ان میں بھی بھارت کو مختلف طریقوں سے استعمال کے اختیارات دے دیئے گئے جنہیں جواز بنا کر بھارت ان تین دریائوں پر بھی ڈیم بنا کر ہمارا پانی استعمال کرنے لگا، ہم ورلڈ بینک کی طرف بھاگتے لیکن وہاں سے ہمیں کچھ نہ ملتا۔ سندھ طاس معاہدہ ہر لحاظ سے ہمارے لئے گھاٹے کا سودا تھا لیکن ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا۔ دوسری طرف بھارت کے عزائم بہت خطرناک تھے یعنی بتدریج طریقے سے ہمیں ہمارے چھ دریائوں سے محروم کرنا۔
2016 میں حالات یہ ہیں کہ بھارت سندھ طاس معاہدے ختم کرنے کے درپے ہے۔ اس معاہدے کے ختم کرنے سے ہم اپنے تین کھوئے دریائوں سے ایک قطرہ بھی واپس نہیں لے سکتے کہ ان پر ڈیم بنا کر بھارت سارا پانی اپنی طرف موڑ چکا ہے۔ اب سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے سے بھارت ہمارے باقی تین دریائوں کا پانی روکنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ بھارتی انتہا پسند دھمکیاں دے رہے ہیں کہ پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترسے گا۔ خطرے کی بات یہ ہے اس ساری صورتحال میں ہم ایک دفعہ پھر لاچار ہیں۔ اب امریکہ پہلے جیسی سپر پاور رہا نہ ہمارا امریکہ پر کوئی اثر و رسوخ باقی ہے۔
بھارت خود ایک بڑی پاور بن چکا ہے اور امریکہ اور بھارت اہم اتحادی۔ پاکستان جائے تو کس کے پاس؟ ان بدلے حالات کی وجہ سے ہی ہے کہ ورلڈ بینک نے بھارتی دبائو میں آ کر ثالثی سے انکار کر دیا ہے۔ یہ ایک نہایت خطرناک اشارہ ہے کہ ورلڈ بینک جو سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے، دستبرداری کے راستے پر جا رہا ہے۔ بھارت کے خلاف ہماری بات نہ کوئی اقوام متحدہ میں سنتا ہے، نہ بین الاقوامی عدالتی اور مصالحتی اداروں میں۔ ورلڈ بینک کی اپنی کوئی حیثیت نہیں، یہ امریکہ کے مکمل کنٹرول میں ہے، اگر ورلڈ بینک ہاتھ کھینچ رہا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ امریکہ بھارتی دبائو میں اس مسئلے سے ہاتھ کھینچ رہا ہے۔ یہ واقعتاً ایک نہایت ڈرائونی صورتحال ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا آخری سہارا جنگ ہے لیکن وہ اجتماعی خودکشی کا آپشن ہے۔
پاکستان میں پانی کی قلت پہلے ہی دنیا کی خطرناک ترین سطح پر ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی تحقیق کے مطابق (اگر ہمارے دریائوں کا موجودہ بہائو برقرار بھی رہے تو بھی) آئندہ دس سالوں میں پاکستان خشک سالی کا شکار ہو جائے گا۔ یہ بذات خود ایک بہت خطرناک صورتحال ہے۔ اور اگر بھارت آج سندھ طاس معاہدے کو اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر ختم کر دیتا ہے تو اسکے لئے پانی کا رخ موڑنے کیلئے ڈیم اور بندوں کی تعمیر مکمل کرنے کیلئے دس سال کا عرصہ کافی ہو گا۔ جب پہلے ہی دس سال میں خشک سالی کا خطرہ ہے، دریائوں کا پانی بند ہونے سے تو پاکستان ایک صحرا میں تبدیل ہو جائے گا۔
بھارت کو اندرونی طورپر خود بھی خشک سالی کا سامنا ہے۔ اس سال بھارت میں پانی کی اتنی شدید کمی ہے جتنی اسکی تاریخ میں کبھی نہیں رہی۔ پانی کی کمی کی وجہ سے بھارت میں پہلی دفعہ ایک بجلی گھر کو کئی روز تک بند رکھنا پڑا۔ بھارتی صوبے پنجاب اور ہریانہ پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کو ہیں۔ ایسے میں بھارت اندرونی طور پر بھی ہمارے دریا بند کرنے پر دبائو میں ہے۔
اگر بھارت باقی ماندہ تین دریا بھی بند کر دیتا ہے اور بین الاقوامی کمیونٹی خاموش رہتی ہے تو پاکستان کے پاس واحد آپشن جنگ کا بچے گا، اور پانی پر لڑی جانے والی پاک بھارت جنگ غیر ایٹمی نہیں رہے گی۔ اگر اس خطے میں ایٹمی جنگ ہو گئی تو کروڑوں لوگ ہلاک ہونگے اور باقی کروڑوں خوف اور بیماری اور معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور۔ اس میں کسی کا فائدہ نہیں ہو گا۔ ہم بھارتی پالیسی پر قدرت نہیں رکھتے لیکن اپنی پالیسی کوتو بہتر کر سکتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے ہمیں فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ اور سب سے اہم قدم جس کا بھارت کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ ہماری سرزمین سے بھارتی سرحدوں کے اندر حملے کرنے والے غیر ریاستی عناصر کی بیخ کنی ہے۔ کیا ہم یہ بھارتی مطالبہ پورا کر پائیں گے؟ اسی حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نے دھمکی دی تھی کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا۔ دونوں ملکوں کے درمیان حالات اس نہج تک نہیں پہنچنے چاہئیں کہ پانی کا ہتھیار استعمال ہو جائے۔ ورنہ کچھ باقی نہیں بچے گا۔




.