قائد اعظم کی سوچ ؟ ڈھونڈتے رہ جائو گے

December 24, 2016

صحافتی تحریریں تازہ ترین واقعات ،حادثات، اور سرخیوں کی کھونٹی سے بندھی ہوتی ہیں۔ پھر ہمارے یہاں دن منانے کا بھی رواج ہے۔ کوئی دن کسی کی سالگرہ کا،کوئی دن کسی کی برسی کا۔ اور افراد کا ہی نہیں، اہم واقعات کی یاد کاسلسلہ بھی چلتا رہتا ہے۔ سو گزشتہ ہفتے میرے کالم پر خاص طور پر16دسمبر کے دو مختلف سانحوں کا سایہ تھا۔ دسمبر کے دوسرے کئی دن بھی اپنی اپنی یادوں اور اپنے اپنے سوالات کے ساتھ ہمارا تعاقب کرتے ہیں۔ اب یہ دیکھئے کہ یہ کالم جس دن شائع ہو رہا ہے۔اس کا اگلا دن 25دسمبر ہے۔ دنیا کیلئے کرسمس اور ہمارے لئے پاکستان کے بانی کی سالگرہ اور یہ سالگرہ ہم باقاعدہ طور پر مناتے ہیں۔تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ،مضامین شائع ہوتے ہیں۔ نیوز چینلز پر بھی اس دن کی بازگشت زور وشور سے سنائی دیتی ہے۔ یہ روایت کچھ اس قسم کی ہے کہ ایک ہی مضمون ہر سال شائع ہوتا رہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ ویسے بھی جو باتیں کہی جا چکی ہیں ان ہی کی تکرار سنائی دیتی ہے۔ لیکن اگرآپ غور کریں تو یہ روایتی تجدید وفا بھی غنیمت ہے۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ ہم نے اپنی قومی زندگی سے اور اپنی حکمرانی کے انداز سے قائد اعظم کو بڑی حد تک فارغ کر دیا ہے۔ ویسے یہ مسئلہ ہے کہ قائد اعظم نے کس لئے اور کیسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا متنازع رہا۔ لبرل حلقے ان کی 11اگست 1947کی تقریر کو سینے سے لگائے رہتے ہیں۔ قدامت پرستوں کیلئے اسلام کا حوالہ موجود ہے۔میں ان لوگوں میں سے ہوں جو قائد اعظم کی11اگست کی تقریر کوبہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیونکہ اس سے پہلے انہوں نے جو کچھ بھی کہا ہو، کچھ بھی سوچا ہو، تقسیم کے وقت کی دیوانگی نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔ عجیب بات ہے کہ اس صورتحال کی پیش بینی بالکل نہیں کی گئی۔ تو آپ تصور کریں کہ ان لمحات میں قائد اعظم کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کیا رہی ہو گی۔ اس تقریر میں ان کے جذبات کا برملا اظہار تھا۔ ہاں، جو باتیں انہوں نے کہیں وہ حیران کن ضرور تھیںاور اسی لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اس تقریر کو سمجھنے کی کوشش کریں۔آنیوالے سال کی14اگست کو پاکستان 70سال کا ہو جائےگا۔یہ کہتے ہوئے ہم جھجکتے ہیں کہ یہ وہ پاکستان نہیں ہے جو کہ قائد اعظم نے بنایا تھا کیونکہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ پھر بھی، جو پاکستان ہمارا ہے وہ ایک زندہ حقیقت ہے ،آبادی کے لحاط سے دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک ایٹمی طاقت ہے اور عالمی سطح پر اس کی ایک خاص اہمیت ہے۔ لیکن ہم نے اس ملک کا کیا حال بنا رکھا ہے ؟ قائد اعظم کی کسی تقریر یا بیان کے کسی حصے یا جملے کو اپنی دلیل بنائے بغیر بس یہ سوچئے کہ آج کے پاکستان کا قائد اعظم کی شخصیت ،ان کے کردار اور ان کی ز ندگی کے سفر سے کیا تعلق بنتا ہے۔ کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ قائد اعظم جیسے فرد کے دل میں مثال کے طور پر طالبان سے دوستی کے جذبات پیدا ہو سکتے تھے؟ کیا وہ فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث کسی جماعت یا فرد سے کسی قسم کے تعلقات قائم کرسکتے تھے ؟ پاکستانی معاشرے کا سنجیدگی سے تجزیہ کریںتو آپ کو اندازہ ہو گا کہ یہ ملک قائد اعظم کی سوچ سے کتنی دور نکل آیا ہے۔ اور یہ جو میں نے قائد اعظم کی سوچ کا ذکر کیاتو اس لئے کہ یہ عنوان بھی اس ہفتے کی تقریبات میں شامل ہے۔ قائد اعظم کی سوچ ؟ سوچئے کہ وہ سوچ کیا تھی۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے اور اتنے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں کہ اگر ہمیں دیدہ ور رہنما اور قائدا عظم کی صلاحیتوں سے آگاہ حکمراں نہ ملے تو ہم اندھیروں میں کھو جائیں گے۔ ایک اور بات ۔ جس طرح ہم قائد اعظم کی سوچ کی بات کر رہے ہیں تو یہ بھی ظاہر ہے کہ انتہا پسندوں کی اور تعصب اور نفرت کے علمبرداروں کی بھی ایک سوچ ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ اس زمانے میں سوچ کا سوچ سے ٹکرائو جاری ہے دہشت گردی کیخلاف جو جنگ ہم لڑ رہے ہیں وہ بنیادی طور پر ہتھیاروں سے لڑی جا رہی ہے۔ حساب کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ کتنے دہشت گردمارے گئے اور سب تو مارے نہیں گئے کیونکہ چند بڑے واقعات تو اب بھی ہوئے ہیں۔ جیسے کوئٹہ میں دہشت گردی کا وہ واقعہ جس کی رپورٹ نے ایک ہنگامہ بپا کر دیا ہے یہ سب ہے لیکن سوچ کی جنگ کہاں اور کیسے لڑی جا رہی ہے اس کا ہمیں علم نہیں۔
قائد اعظم کی سوچ کے بارے میں تو سوچنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ وہ جس ملک کے بانی مانے جاتے ہیں وہ دہشت گردی، انتہا پسندی، عدم برداشت اور پرتشدد فرقہ واریت کی آگ سے جھلس چکا ہے۔ ہاں ،16دسمبر 2014ء کے بعد یہ احساس ہوا کہ اب ہمارے حکمراں پورے عزم کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کر یں گے اور اسے ختم کر کے ہی دم لیں گے۔ نیشنل ایکشن پلان کا ایک تعلق سوچ کی جنگ سے بھی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس پلان کے رکھوالے وہی افراد ہیں جو پرانی سوچ کے پہرہ دار ہیں۔ گویا عہد تو یہ ہے کہ ہم بدلیں گے، اپنے خیالات بھی اوراپنی سمت بھی۔ لیکن اس ہمہ گیر اور انتہائی دشوار عمل کی سربراہی وہ حضرات کر رہے ہیں جو ذہنی اور جذباتی طور پر اس کے حق میں نہیں ہیں۔ اب یہ جو سوچ کا مسئلہ ہے تو اس محاذ پر کیا ہو رہا ہے ؟ کیا ہمارا معاشرہ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کے بعد یعنی گزشتہ دوسالوں میں انتہاپسندی، ،تعصب، اور نفرت کی گرفت سے کسی حد تک نکل پایا ہے ؟کیا واقعی کچھ فرق پڑا ہے۔ میرے پاس اس ضمن میں ایک مثال ہے۔2016کے آخری مہینے یعنی دسمبر کے پہلے دن پنجاب اسمبلی کے ایک حلقے میں ضمنی انتخاب ہوا۔ایک امیدوار نے کہ جسے ایک ایسی مذہبی جماعت کی حمایت حاصل تھی کہ جس پر پابندی لگائی گئی ہے، شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس کے ووٹوں کی تعداد تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کےا میدواروں کے کل ووٹوں سے زیادہ تھی۔ دیکھ لیجئے کہ سوچ نہیںبدل رہی، اور بدلے بھی کیسے۔ جو ہمارےحکمراںہیں اور وزیر ہیں ان کی نظریاتی وابستگی وہی ہے جو کہ تھی۔ یہ تو سب کہتے ہیں کہ آرمی پبلک اسکول کی درندگی نے کھیل کو بدل دیا۔ (گیم چینجر !) تو موجودہ حکومت کی یا یوں کہئے کہ چوہدری نثار علی اور رانا ثناءاللہ کی سوچ کتنی بدلی۔ ! اور اب قائد اعظم کی سوچ کا سوال اٹھ رہا ہے۔ اگر موجودہ حالات کی سنگینی اور قدامت پرستانہ انتہا پسندی کے مضمرات کا ہمیں احساس ہے تو لائوڈ اسپیکر یا کیمرے کے سامنے نہیں بلکہ اپنے ضمیر کے سامنے کھڑے ہو کر ہمیں اپنے آپ سے مکالمہ کرنا ہو گا۔ سوچنا ہو گا۔ اور یہ دن کئی اور طرح سے بھی فکر انگیز ہیں۔ آنے والے منگل کو بے نظیر کی برسی ہے۔ یہ سب کیسے ہوا ؟ اتنے گہرے زخم کیا ہم کچھ سوچے اور کچھ کئے بغیر برداشت کرلیں گے؟ ٹھیک ایک ہفتے بعد۔، آج ہی کے دن ،یہ سال غروب ہو جائے گا۔ سو ایک طرف تو گزرے ہوئے سال کے واقعات کے بارے میں کئے جانے والے تجزیوں کا ڈھیر ہے اور دوسری طرف ایک نئے سال کی خطرناکی ہمیں ڈرا رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سوچ کے محاذ پر کچھ بدلے گا۔؟

.