باپ بیتی

December 27, 2016

یہ باپ بیتی میری آپ بیتی نہیں ہے۔ مجھے آج تک موقع ہی نہیں ملا کہ میں باپ بیتی لکھ سکوں۔ وہ اس لئے کہ روانگی کی آمد آمد ہے مگر میں باپ بننے سے بچ گیا ہوں۔وہ بچے خاص طور پر بیٹے نایاب ہوچکے ہیں جو باپ کی درگت نہیں بناتے تھے۔ لہٰذا میری درگت نہیں بنی۔ بیٹے ہوتے تو میری درگت بنتی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ میں نے بیٹوں کو اپنے باپ کی درگت بنانے کی لذت سے محروم کردیا ہے۔ زندگی میں نہ ملا بانس اور نہ بجی بانسری۔ اگر آپ کے پاس بانسری نہیں ہے تو پھر آپ چین کی بانسری تو کیا، آپ بے چینی کی بانسری بھی بجا نہیں سکتے۔ ایسے میں آپ صرف تالی بجا سکتے ہیں اور تالی بجانے کیلئے یا تو آپ مداری کا تماشہ دیکھتے ہوئے نظر آتے ہیں یا کسی سیاسی جلسے میں تالیاں بجاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس بھونڈی وضاحت سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ باپ بیتی میری آپ بیتی نہیں ہے… یہ کہانی ہے کسی اور کی، اسے لکھ رہا کوئی اور ہے۔میں دو بیٹوں اور ایک بیٹی کا باپ ہوں۔ بچوں کی ماں یعنی میری بیوی نے ایک روز متنبہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ کان کھول کر سن لو، تم اگر چمپا کلی سے اسی طرح پینگیں بڑھاتے رہے تو ایک روز میں چلی جائوں گی۔ میں اسے یقین دلواتا رہا کہ بیگم میری بات کا یقین کرو کہ میں کسی چمپا کلی کو نہیں جانتا۔ اور تم تو خوب اچھی طرح سے جانتی ہو کہ مجھے پینگ سے ڈر لگتا ہے۔ یاد رہے تمہارے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے ایک مرتبہ میںگر پڑا تھا۔ میرے سر پر گہری چوٹ لگی تھی اور میں سب کچھ بھول گیا تھا۔ تمہیں پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ مگر جب تمہارے والد اور میرے ہونے والے سسر نے میرے سر پر ڈنڈا مارا تھا تب مجھے سب کچھ پھر سے یاد آگیا تھا، حتیٰ کہ چھٹی کا دودھ بھی یاد آگیا تھا۔ تمہارے والد نے کہا تھا: اوے بدبختا، میری بیٹی سے پینگیں بڑھاتے ہوئے تجھے شرم نہیں آتی؟ کیا تیری ماں بہن نہیں ہے؟ یاد ہے تمہیں، میں نے جواباً کیا کہا تھا ؟ میں نے کہا تھا: سر، میری ماں بھی ہے اور ایک بہن بھی ہے۔ مگر میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ میرے ہونے والے سسر نے کہا تھا : تو پھر اپنے والدین کو لے آ۔ بندے دا پتر بن کر میری بیٹی سے شادی کر اور پینگیں بڑھانا بند کر۔ اگر پھر کبھی میں نے تجھے پینگیں بڑھاتے ہوئے دیکھا تو میں تجھے پلنگ پر الٹا لٹکا کر تجھے لتر ماروں گا۔ یاد ہے نا تجھے میری باولی بلا؟ مگر میری باولی بلا نے میری کسی بات کا یقین نہیں کیا۔ وہ اپنے تینوں بچوں کو اور مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ اس نے گھر اور دنیا چھوڑنے کیلئے انوکھا طریقہ اپنایا۔ وہ ذیابطیس کی پرانی مریضہ تھی۔ ایک رات اس نے تینوں بچوں کے تمام چاکلیٹ اور ٹافیاں کھالیں ۔ جیم اور جیلی کی بوتلیں خالی کردیں۔ شربت میں بے تحاشہ چینی ملا کر دو چار گلاس فٹافٹ پی گئیں۔ ہم جب صبح اٹھے تو باولی بلا نیند سے نہیں جاگی۔ وہ غنودگی کے عالم میں تھی۔ہم اسے اسپتال لے گئے۔ شوگر لیول نے اس کا دماغ مائوف کردیا تھا۔ تین چار دن کوما میں رہنے کے بعد وہ ہم سب کو چھوڑ کر چلی گئی۔ تب میرے بچے بہت چھوٹے تھے دوستوں اور دشمنوں نے لگاتار مشورے دئیے کہ تو بچوں کی خاطر دوسری شادی کرلے۔ میں ٹس سے مس نہیں ہوا۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں اپنے بچے ان کی ماں بن کر پالوں گا۔ کسی سوتیلی ناگن کا سایہ ان پر پڑنے نہیں دوں گا۔ باولی بلا کو جنت میں آرام سے بیٹھنے نہیں دوں گا۔ میں اس پر ثابت کردوں گا کہ میری زندگی میں کسی چمپا کلی، انار کلی اور چھپکلی کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے میں چاہتا تھا کہ باولی بلا ہمیں اس طرح چھوڑ جانے پر جنت میں پچھتائے۔ اپنی غلطی پر روتی رہے۔
ان دنوں میں یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ اپنے بچوں کی پرورش کیلئے میں نے دن رات ایک کردیئے۔ میں نے اپنے بے انتہا پیار سے بچوں کو ماں کی کمی محسوس ہونے نہیں دی۔ میرے آج کے چھوٹے بچے کل بڑے ہونے لگے۔ بیٹی نے ایم بی بی ایس کیا۔ ڈاکٹر بنی اور اپنے کلیگ ڈاکٹر سے اس کی شادی ہوگئی۔ وہ اپنے گھر کی ہوگئی۔ وہ مجھے نہیں بھولی۔ کبھی کبھار ملنے چلی آتی ہے۔ بڑا بیٹا کمپیوٹر انجینئر بنا۔ ایک فرم میں اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سربراہ یعنی ہیڈ کا عہدہ ملا۔ میرا نیک بیٹا فرم کے کرتا دھرتا یعنی مالک کو اچھا لگا۔ اس نے چپکے سے اپنی بیٹی کی شادی میرے نیک مگر طبیعتاً بونگے بیٹے سے کرا دی۔ ایک روز وہ دفتر سے لوٹا تو اپنے ساتھ ایک کائیاں اور تیز طرار عورت کو لے آیا۔ وہ عورت عمر میں میرے بیٹے سے بڑی لگتی تھی اور مجھ سے ذرا چھوٹی لگتی تھی۔ ایک نظر میں گھر کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے میرے بیٹے سے کہا ; میں اس پھٹیچر گھر میں نہیں رہ سکتی۔ ڈیڈی نے جہیز میں مجھے جو کوٹھی دی ہے، ہم اس میں رہیں گے۔ پھر میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے بہو نے میرے بیٹے سے پوچھا ;یہ بڈھا کھڑوس کون ہے؟ میرے بیٹے نے کھسیانہ ہوتے ہوئے کہا; یہ میرے ابو ہیں۔ بہو نے ناگواری سے منہ موڑا اور میرے بیٹے کو لے کر چلی گئی۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ بہو کی میرے بیٹے کے ساتھ پانچویں شادی تھی۔ اس دن کے بعد آج تک میں نے اپنے بیٹے کی شکل نہیں دیکھی۔ ایک روز بیٹے کا فون آیا۔ ابو مبارک ہو آپ کی بہو اسمبلی کی ممبر بن گئی ہے۔
اچانک میں بہت بوڑھا ہوگیا۔ میں ریٹائر تو بہت پہلے ہو چکا تھا، مگر میں لڑکھڑا کر گرا تب تھا جب میرے چھوٹے بیٹے نے مشہور ماڈل سے شادی کرلی تھی اور اس کا سیکرٹری اور باڈی گارڈ بن کر اس کے ساتھ میرے ہی گھر میں رہنے لگا تھا۔میرے ہونہار بیٹے نے ماسٹر آف کامرس کیا تھا۔ وہ باڈی بلڈر تھا اور عنقریب مسٹر پاکستان بننے کیلئے مضبوط امیدوار تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عجیب و غریب حلیے والے لوگ ہمارے ہاں آنے جانے لگے۔ ان میں کچھ انڈر ورلڈ کے ڈان تھے اور کچھ سیاستدان تھے۔ کچھ ایوینٹ منیجر اور کچھ فیشن شو کرانے والے تھے۔ کچھ فوٹوگرافر تھے، اور کچھ فیشن ڈیزائنرتھے۔ کچھ لوگوں کا واسطہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرا گھر کلب لگنے لگا اور میں اپنے ہی گھر میں اجنبی بن کر رہ گیا۔ ایک روز میرے چھوٹے بیٹے کی بیوی مع میرے بیٹے کے میرے پاس آئی۔ کہنے لگی: اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا بزنس بہت بڑھ گیا ہے۔ ہمیں آپ کے کمرے کی ضرورت ہے۔ میں نے گھبرا کر اپنے چھوٹے بیٹے کی طرف دیکھا۔ میرے چھوٹے بیٹے نے کہا : ابو، ہم آپ کو سرونٹ کوارٹر میں شفٹ کررہے ہیں۔ یہ باپ بیتی آپ کیلئے میں نے اپنے ہی گھر کے سرونٹ کوارٹر میں بیٹھ کر لکھی ہے۔

.