ایک نئی امید کی کر ن

December 27, 2016

2016ء اپنے اختتام کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور 2017ء آیا چاہتا ہے ، بطور قوم ہم گزرے ہوئے 2016میں بھی کنفیوژن کا شکار رہے ، قوم کو ٹرک کی ایسی ایسی بتی کی طرف لگا کے رکھا گیا جو آہستہ آہستہ نہ صرف دور ہوتی گئی بلکہ نظروں سے بھی اوجھل ہوگئی، سیاسی ہنگامہ خیزیاں، دھرنے، اعلانات ، لچھے دار تقریریں، پیشیاں، قطری خط اور پانامہ لیکس ایسے ٹرک تھے جن کی بتیاں ہی نہ تھیں لیکن پھر بھی عوام آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان ٹرکوں کی تصوراتی بستیوں کے پیچھے بھاگتے رہے، رہی سہی کسر ہمارے اینکرز نکالتے رہے اپنی اپنی عینک اور لائن کے مطابق ،روز ایک نیا جن نکالنے کیلئے دور دور کی کوڑی لاتے رہے لیکن عوام سانس روک کر اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر سوتر بم سے نکلنے والے دھوئیں کی طرف یہ انتظار کرتے ہو ئے دیکھتے رہے کہ شاید کوئی ایسا دھماکہ ہوجائے جو ایک نئی راہ متعین کرسکے ، یا دھماکے سے زمین میں سے تیل نہ سہی پانی کی ہی کوئی سبیل نکل آئے، لیکن 2016ء تو ایسے ہی نکل گیا، کبھی بجلی نہیں تو کبھی گیس نہیں ، کبھی فوگ تو کبھی سموگ ، کبھی کچرے کے ڈھیر تو کبھی کھلے گٹر، کبھی ڈینگی تو کبھی چکن گونیا، کبھی کلرکوں کی ہڑتال تو کبھی اساتذہ کی ہڑتال، کبھی نابینا افراد کا احتجاج تو کبھی ڈاکٹروں کا واویلہ، کبھی وکلاء کے چیتھڑے اڑاتے دھماکے تو کبھی پولیس اکیڈمی میں خودکش دھماکوں سے پرخچے اڑاتے ہوئے انسانی اعضا، کبھی ضمنی انتخابات کے رولے تو کبھی بلدیاتی الیکشن کی گرما گرمی اور کبھی آزاد کشمیر میں الزامات کی بوچھاڑ کے بعد انتخابات، اسی سال یعنی 2016 میں،زندگی سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش میں بے چارگی اور بھوک کے دروالے گھر میں آنکھ کھولنے والی قندیل بلوچ کی موت تو کبھی گٹروں ، کنوؤں اور بدبودار کچرے کے ڈھیروں سے لاوارث لاشیں اٹھا کر انہیں نہلانے اور سفید کفن دے کر دفنا نے والے نیک دل انسان عبدالستار ایدھی کی جہان فانی سے رخصتی ، کبھی اسٹیج پر فن کا مظاہرہ کرنے والی قسمت بیگ کے نرم نازک جسم میں گولیاں اتاردی گئیں تو کبھی امجد صابری کو اپنے بچوں کے تنہا رہ جانے کے غم کی وجہ سے ہاتھ جوڑنے کے باوجود دہشتگردوں نے بیچ چوراہے جان لیوا بلٹس کا نشانہ بناڈالا، کبھی قومی ایئر لائن کے طیارے کے انجن میں خرابی اور تباہی کے باعث دل دل پاکستان کے نغمے سے دلوں کو گرمانے والا جنید جمشید بھی رخصت ہوجاتا ہے ، کبھی گھر کے صحن میں دبایا ہوا تو کبھی زیر زمین پانی کیلئے بنائے گئے ٹینکرز سے ملنے والے جدید اسلحے کے ایسے ایسے ڈھیر کہ ہماری پولیس کے پاس بھی نہ ہوں، کبھی سرکاری ملازمتوں میں کی جانے والی بھرتیوں میں گھپلے تو کبھی سرکاری اہلکاروں کے گھروں سے لوٹے ہوئے نوٹوں کی بوریاں کہ گننے کیلئے بینکوں سے نوٹ گننے والی مشینیں مستعار لینا پڑیں، ان ساری مایوسیوں اور خامیوں کے باوجود میرے لئے جسٹس عیسیٰ فائز کی رپورٹ بہت بڑی امید کی کرن ہے جسمیں نہ صر ف دلیری سے رپو ر ٹ کو مر تب کیا گیا بلکہ تما م تر کوششوں کے باوجود اس رپورٹ کو پبلک کرنے سے روکا نہ جاسکااور میرے لئے نئے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کا یہ بیان ایک ایسی امید ہے جس پر نیا پاکستان تعمیر ہوگا، انصاف کا بول بالا کو پسے ہوئے طبقے کو ان کے حقوق ملیں گے ، کرپٹ لوگوں کو جو غریب عوام اور ملک کا خون چوس کر اور چوری کرکے اپنے محل بناتے ہیں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گاکہ آسمان گرے یا زمین پھٹے انصاف ہوگا، کیونکہ انہوںنے کہا ہے کہ دنیاوی فائدے کیلئے وہ اپنی آخرت قربان نہیں کرینگے ، قوم سے وعدہ ہے کہ فرائض کی ادائیگی میں غفلت نہیں برتیں گے اور وہ دنیا کا ایسا بوجھ لے کر دوسرے جہاں نہیں جانا چاہیں گے جس سے اللہ رب العزت کے سامنے شرمندہ ہوں، چیف جسٹس صاحب اللہ تعالیٰ آپ کا مدد گار ہو انشاء اللہ آپ اس قوم کے بھی ہیرو ہونگے اور آخرت میں بھی آپ کا اعلیٰ مقام ہوگا، آپ کے فیصلے نہ صرف موجودہ پاکستان کو مضبوط کرینگے بلکہ آنے والی نسلیں ایک بہترین نظام اور انصاف والے ملک میں آنکھ کھولیںگی۔

.