انصاف عالی مرتبت انصاف

January 06, 2017

زمانہ ہمیشہ کمزور پہ ستم ڈھاتا ہے اور ایک لاوارث بچی سے بڑھ کر ناتواں کون ہوسکتا ہے۔اگر شور و غل نہ ہوتا تو ایک منصف کے گھر میں ظلم کا شکار ہونے والی بچی کا مقدمہ بھی داخل دفتر ہو جاتا۔لوگ معمول کا واقعہ سمجھ کر بھول جاتے۔عین ممکن ہے اس بچی کا باپ اپنی نورِنظر کو ڈانٹ ڈپٹ کر پھر اسی گھر میں بھیج دیتا یا پھر کسی اور ’’مانو باجی‘‘ کے سپرد کر دیتا۔جب احمقوں کی طرح بچے جننے اور پھر انہیں سوغات سمجھ کر بانٹنے والے کٹھور دل باپ دیکھتا ہوں توہے تو یہ جملہ معترضہ لیکن کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ امریکی ماہر حیات ڈاکٹر گریگوری گُڈ ون پنکس نے مانع حمل گولیاں ایجاد کر کے انسانیت پر احسان عظیم نہ کیا ہوتا تو آج بے یار ومددگار بچوں کی تعداد انتہاکو چھو رہی ہوتی۔بہر حال عدلیہ نے از خود نوٹس لیا تو عین ممکن ہے درد سے چورطیبہ کے زخموں کو مرہم میسر آہی جائے اور شاہراہ دستور پر ایستادہ ایک عظیم الشان عمار ت کی شان اور بڑھ جائے۔لیکن طیبہ جیسے ان لاکھوں نہیں کروڑوں بچوں کاکیا ہو گا جو آج بھی کسی صاحب اولاد کے گھر ’’دلتوں ‘‘ اور ’’شودروں‘‘ کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔لاہور،کراچی اوراسلام آباد کے پوش علاقوں میںشاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں بچوں سے جبری مشقت نہ لی جاتی ہو۔مستند عالمی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بچوں پر تشدد اور جبری مشقت کے اعتبار سے دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہے۔عالمی سطح پر اس رجحان میں کمی ہو رہی ہے مگر پاکستان میں مشق ِستم بننے والے بچوں کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔چائلڈ لیبر کے حوالے سے ملکی سطح پر آخری سروے 1996ء میں ہوا جس کے مطابق 3.3ملین بچے بیگار کاٹ رہے تھے اور اقوام متحدہ کے تحت 2012ء میں ہونے والے سروے سے معلوم ہوا کہ ایسے بچوں کی تعداد 12.5ملین ہے۔تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق 25ملین بچے جنہیں مفت تعلیم کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے،اسکولز سے باہر ہیں۔ظلم و جبر کے تھپیڑے سہتی طیبہ تو خوش قسمت ہے کہ میڈیا کی ایک زوردار لہر نے اسے منجدھار سے نکال کر ساحل پر پٹخ دیا مگر ان طفلان قوم کا کیا ہو گا جو آج بھی کسی وکیل،کسی جج،کسی سول سرونٹ،کس بزنس مین کے گھر میں اپنے مقدر پر آنسو بہا رہے ہیں۔آج تک یہی پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ دل کے بہلانے کوکیسے کھوکھلے اور بانجھ الفاظ کی میناکاری کی ہے حضرت انساں نے۔بیٹیاں سانجھی نہ سہی،ان کا درد مشترک نہ سہی،صاحب ِ اولاد تو ہم میں سے بیشتر ہیں۔میری طرح اخبار کا پیٹ بھرنے والے،آپ کی طرح کالم پڑھنے والے،کہنے والے،سننے والے،مثل مقدمہ تیار کرنے والے تفتیشی افسر،کمرہ عدالت میں دلائل سے مقدمے کا پانسہ پلٹ دینے والے وکلا،کرسی انصاف پر بیٹھ کر نوکِ قلم سے فیصلے تحریر کرنے والے جج صاحبان،سب کے لئے بیٹیاں ان کے دل کا سروراور نظر کا قرار ہیں۔بس ایک لمحے کے لئے یہ فرض کر لیجئے کہ جو کچھ طیبہ کے ساتھ ہوا یا پھر اس جیسے کروڑوں بچوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے،اگر آپ کی اولاد کے ساتھ ہو تو آپ پر کیا گزرے گی؟
دل چاہتا ہے آج صاحب انصاف سے ہی باتیں ہوں۔عالی مرتبت انصاف نے حلف اٹھاتے ہی سب سے پہلا حکم صادر کیا کہ پانامہ لیکس سے متعلق آئینی درخواستوں کی سماعت کے لئے بنچ تشکیل دیا جائے اور خود اپنے آپ کو اس بنچ سے الگ کر لیاتاکہ غیر جانبداریت کے تقاضے پورے ہو سکیں۔مگر میری عرضی یہ ہے کہ پانی میں مدھانی مارنے کا کوئی فائدہ نہیں۔پانامہ لیکس اور اس جیسے تمام ایشوز ہمارے طبقہ اشرافیہ کی تفریح طبع کا سامان ہیں۔یہ ایسی ڈور ہے جسے سلجھانے کی جس قدر کوشش کی جائے اس قدر یہ الجھتی ہی چلی جاتی ہے کیونکہ مدعی اور مدعا علیہ میں سے کوئی ایک بھی انصاف کا طلبگار نہیں۔تکلف برطرف،میمو گیٹ اسکینڈل کا کیا بنا؟ایئر مارشل اصغر خان نے خفیہ اداروں کی طرف سے سیاستدانوں میں رقوم بانٹے جانے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا،پیسے دینے والوں نے بیان حلفی جمع کروا دیئے،پیسے لینے والوں میں سے بھی بعض نے اعتراف کر لیا مگر کیایہ بیل منڈھے چڑھ سکی؟گزشتہ دور حکومت میں سوئس حکام کو خط لکھوانے پر عدلیہ نے اپنی ساری توانائیاں ضائع کر دیں،ایک وزیراعظم کو توہین عدالت پر گھر بھیج دیا گیا اور پھر دوسرے وزیراعظم نے خط لکھ کر عدالت کی آنکھوں میں دھول جھونک دی۔کیا اس ساری تگ و تاز کے نتیجے میں لوٹی ہوئی دولت واپس آگئی؟ایک تھا جنرل پرویز مشرف جس کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت غداری کا مقدمہ بنایا گیا تھا،کیا اسے کیفر کردار تک پہنچایا جا سکا؟کتنے ہی ایسے مقدمات عدالتوں کا وقت ضائع کرنے کے بعد فائلوں کی زینت بن گئے۔
یہ ہمارے نظام ِعدل کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ملک کی عدالتیں بھی انہیں ہی برق رفتار انصاف مہیا کرتی ہے جو اس ظالمانہ نظام کے پتھارے دار ہیں۔عالی مرتبت عدلیہ!قدرت نے آپ کو موقع دیا ہے تو آپ ان حکام کے ہائی پروفائل مقدمات پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عوام کو انصاف فراہم کریں۔اعلیٰ عدالتوں میں عام آدمی کی رسائی اورشنوائی ہو۔سپریم کورٹ میں کوئی ایسی زنجیر عدل لٹکائی جائے جہاں ہر محکوم و مجبور انسان قانونی موشگافیوں،عدالتی پیچیدگیوں اور کسی مہنگے وکیل کی خدمات حاصل کئے بغیر انصاف کی دہائی دے سکے۔عدلیہ میں عمل تطہیر کا آغاز ہو،کالی بھیڑوں سے نجات حاصل کی جائے،سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوامقدمات نمٹائے جائیں اور ماتحت عدالتیں جہاں انصاف بکتا ہے،ان کا قبلہ درست کرنے کی طرف توجہ دی جائے تو اس معاشرے میں زندگی کے آثار پیدا کئے جا سکتے ہیں۔لیکن اگر یہ سب کرنے کے بجائے طیبہ کو انصاف کے عجائب گھر میں لازوال مثال بنا کر رکھ دیا گیا اور پانامہ لیکس کے پانی میں مدھانی مارتے رہے تو کچھ حاصل نہ ہوگا۔عطاء الحق قاسمی صاحب نے کیا خوب کہا ہے:
ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب ِاولاد ہونا چاہئے


.