کچھ ذکر سفر مقدس کا

January 09, 2017

کیا کچھ نہیں سوچا تھا کہ یہ مانگوں گا،وہ طلب کروں گا،ایسے التجا کروں گا،ویسے گڑگڑاوں گا،یہ بھی برسوں سے سنتا آ رہا تھا کہ پہلی نظر پڑتے ہی جو مانگا جائے،جو خواہش کی جائے جس چیز کی تمنا کی جائے اور جو آرزو لبوں سے دعا بن کر نکلے وہ ضرور پوری ہوتی ہے۔ ذہن کے پردے پر سب ایک فلم کی طرح چل رہا تھا اور اسی پہلی نظر کی بھرپور افادیت حاصل کرنے کیلئے نظریں نیچی کر کے لبیک اللہم لبیک،لبیک لا شریک لک لبیک پکارتے ہوئے آگے بڑھتا رہا،نظریں تب اٹھائیں جب اس کے بلکل قریب پہنچ گیا،میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ میرا دماغ جیسے بھک سے اڑ چکا تھا، ذہن کورے کاغذ کی طرح بلکل خالی تھا، کوئی دعا،کوئی خواہش،کوئی مدعا، کوئی التجا کچھ بھی تو یاد نہیں رہا تھا، میں حاضر ہوں،اے اللہ میں حاضر ہوں کا ورد تک بھول چکا تھا، صرف خالی نگاہیں تھیں اورسامنے سیاہ غلاف میں لپٹا خدا کا زمین پر وہ پہلا گھر جسے جبریل امین کو حضرت آدم علیہ سلام کے پاس بھیج کر پروردگار نے خود تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی بیت اللہ کی ایک ہیبت اور اس سے جھلکتی خدا کی ایک صفت اس کا جاہ و جلال تھا جس نے ایسے جکڑ لیا تھا کہ اللہ کے حکم کی اطاعت میں اس کے گھر کے گرد طواف میں مشغول لوگ کبھی ادھر دھکیل دیتے تو کبھی ادھر لیکن مجھے کوئی احساس نہیں تھا،احساس تھا تو صرف یہ کہ اس نے مجھ جیسے گناہ گار بندے کو اپنی بارگاہ میں حاضری کی سعادت نصیب فرمائی ہے۔ یہ تھی وہ کیفیت جو بارگاہ الہی میں پہلی بار حاضری کے بعد طاری ہوئی اور پھر دو ہفتوں کے قیام کے دوران خدا سے اس کے گھر میں بار بار ہمکلام ہونے کی کوشش جاری رہی،کعبتہ اللہ کے گرد طواف کرنیوالے اللہ کے مہمانوں میں ہرایک کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ حطیم جو کسی دور میں بیت اللہ کا حصہ ہوا کرتا تھا اس کے اندر نوافل ادا کرنے اور حجر اسود جسے خود آقا دو جہاںﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے نصب کیا تھا اس کو بوسہ دینے کی سعادت حاصل کرے لیکن اس سعادت کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ کچھ تگ و دو کے بعد حطیم میں نوافل توادا کرنے کا موقع مل جاتا ہے لیکن حجر اسود کو بوسہ دینے کیلئے جو زور آزمائی اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اکثریت کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انتہائی مقدس مقام پر بھی میں نے لوگوں کو دست و گریبان ہوتے دیکھا ہے اوراس سے بھی زیادہ بدقسمتی یہ رہی کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے والے کوئی اور نہیں ہم وطن تھے جنہیں اس خالق کائنات کی بھی لاج نہیں تھی جس نے اپنے گھرمیں اونچی آواز میں بولنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالی نے مکہ میں تعمیر کی گئی جس عمارت کو انسانوں کیلئے سب سے پہلی عبادت گاہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس کو خیر وبرکت دی گئی ہے اور یہ تمام انسانوں کیلئے مرکزہدایت ہے۔
اس مقام مقدس پر انسانی ترقی کی بدولت اب ایسی قباحتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جہاں انسان کے اپنے وجود کی نفی ہوجاتی ہے وہاں پر بھی سمارٹ فون کے ذریعے نہ صرف عزیزو اقارب سے رابطہ استوار رکھا جاتا ہے بلکہ دوران طواف انہیں براہ راست اپنی عبادت کے تمام مناظر مسلسل دکھائے جاتے ہیں۔پیغمبروں اور صحابہ کرام کی سرزمین پر دو ہفتے گزارنے کے بعد یہ ادراک بھی ہوا کہ مسلمان بلخصوص پاکستانی اس مقدس سفر کیلئے درپیش مشکلات کو کسی خاطر میں لائے بغیر کیسے کھنچے چلے آتے ہیں۔ پاکستانی عازمین کی مشکلات کا آغاز تو اسی دن شروع ہو جاتا ہے جب وہ عمرہ پیکج اور ایئر ٹکٹ کیلئے کسی ٹریول ایجنٹ سے رابطہ کرتے ہیں، جس طرح عید الفطر، عید الاضحی یا کسی قومی تہوار پر زیادہ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی طرح ربیع الاول جیسا مبارک مہینہ ہو تو ائیر ٹکٹس بھی بلیک میں دستیاب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں اوسطا عمرہ پیکج نوے ہزار سے شروع ہو کر دو لاکھ روپے تک ہوتا ہے۔ ٹریول ایجنٹس عازمین کوحرم کے اردگرد پانچ سو میٹر کی حدود میں ہوٹل کی موجودگی سمیت ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں جو وہاں پہنچنے پر سراب ہی ثابت ہوتے ہیں۔عازمین سے سعودی عرب پہنچنے کے بعد ائیرپورٹ کی حدود میں ہی ان کے پاسپورٹ لے لئے جاتے ہیں جو واپسی کے دن دئیے جاتے ہیں اور یوں عازمین وہاں موجود ایجنٹوں اور متعلقہ ہوٹل انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جو ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھتے ہیں۔ بعض پاکستانیوں کو پاسپورٹ گم ہونے پر سخت اذیت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جبکہ ان کی داد رسی کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے۔ ان مسائل کے خاتمے کیلئے حکومت پاکستان کو حج کی طرح عمرہ کو بھی ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی حکومت کی طرف سے عمرہ اور حج زائرین کیلئے جدہ میں علیحدہ حج ٹرمینل قائم کیا گیا ہے جہاں امیگریشن کے انتظامات ناگفتہ بہ ہونے کے سبب عازمین کو سخت مشکلات اور افسوناک رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس دور جدید میں بھی امیگریشن افسر لکڑی سے بنے کیبن کے اوپر لوہے کے ڈنڈے پر نصب کئے گئے برانی طرز کے کیمرے کا استعمال کرتا دکھائی دیتا ہے،ہر تھوڑی دیر بعد وہ اپنی نشست سے اٹھ کر یا چہل قدمی شروع کردیتا ہے یا اپنے ساتھی کی نشست پر جا کر گپ شپ لگانے لگتا ہے لیکن عازمین سوائے بے بسی کے اظہار کے کچھ نہیں کر سکتے۔اس تکلیف دہ امیگریشن کارروائی سے گزر کر عازمین مکہ روانگی والی کوسٹرمیں بیٹھتے ہیں تومسافر پورے ہونے کے باوجود انہیں ایک سے دو گھنٹے محض اسلئے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ متعلقہ کمپنی کاسعودی نمائندہ آکر دستخط کریگا تو کوسٹر روانہ ہو سکتی ہے اور یہ بھی مزاج یار پر ہے کہ وہ دستخط کیلئے کب شرف بخشے۔ مکہ اور مدینہ میں قائم پاکستانی ریستورانوں پر انتہائی ناقص کھانا دستیاب ہوتا ہے لیکن کوئی متبادل میسر نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی اپنے بھائی بندوں کا خوب استحصال کرتے ہیں۔
مکہ سے مدینہ کا سفر بھی زیادہ آرام دہ نہیں ہے لیکن جیسے ہی بندے کی نظر مسجد نبویﷺ کے سبز گنبد پر پڑتی ہے سب مشکلات بھول جاتی ہیں، انسان بلکل پرسکون ہو جاتا ہے، یہاں بھی ہرایک کوشش کرتا ہے کہ ریاض الجنہ میں نوافل ادا کرنے،منبررسول اورروضہ رسول کی جالیوں کو چھونے کی سعادت حاصل کر لے جن میں سے سرکار دو عالمﷺ سمیت حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی قبریں مبارک نظر آتی ہیں۔ سعودی سیکورٹی اہلکار یہاں بھی عازمین کو روکتے دکھائی دیتے ہیں۔ روضہ رسول کے ساتھ جنت البقیع میں موجود صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کی قبروں کی نشانیاں نہیں ہیں جبکہ شہداء احد کی تمام نشانیاں بھی نہیں ہیں۔ اس مقدس سفر میں گناہ گار آنکھوں نے دیگر عازمین کی طرح صفا، مروہ، غار ثور، غار حرا، جبل رحمت، میدان عرفات، مسجد نمرا، مسجد قبلتین، مسجد سبا، مسجد قبا سمیت متعدد مقدس مقامات کی زیارت بھی کی جبکہ مدینہ منورہ کے مضافات میں وادی جن جیسی پراسرار جگہ کا بھی دورہ کیا جہاں گاڑی کا انجن بند کرنے پر بھی وہ نبی کے شہر کی طرف واپس خود بخود بھاگتی ہے۔ اس مقدس سفر کا سب سے اہم فلسفہ احرام باندھنے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے جو بندے کی’’میں‘‘مار دیتا ہے جو پہن کر نہ کوئی شاہ رہتا ہے، نہ کوئی گداگراور پیغمبر آخر الزماںﷺ کے آخری خطبہ حج کا درس بھی یہی تھا۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو اس مقدس سفر کی سعادت عطا فرمائے۔آمین


.