فاٹا اصلاحاتـ: منظوری میں تاخیر کیوں؟

January 15, 2017

فاٹا اصلاحات کمیٹی کی گزشتہ سال اگست میں منظر عام پر آنے والی رپورٹ معتبر ذرائع کے مطابق مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم پر اتفاق نہ ہونے کے باعث اب تک وفاقی کابینہ میں منظوری کے لئے پیش نہیں کی جاسکی ہے جو یقیناً ایک فوری توجہ طلب معاملہ ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے جنہیں مختصراً فاٹا کہا جاتا ہے، بوجوہ ملک کے باقی حصوں کی طرح ترقی نہیں کرسکے اور حصول آزادی کے ستر سال بعد بھی دنیا کے پسماندہ ترین خطوں میں شامل ہیں۔ اس صورت حال کا ایک بڑا سبب بلاشبہ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں کے سرکردہ افراد عام طور پر قبائلی نظام ہی کو قائم رکھنے کے خواہاں تھے اور ان کے زیر اثر عوام کے پاس طوعاً یا کرہاً اس پر راضی رہنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔تاہم پچھلے چند برسوں کے دوران فاٹا میں واقع دہشت گردی کے مراکز کے خاتمے کی کامیاب کوششوں کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کو اقتصادی، تعلیمی ، سماجی اورعدالتی حوالوں سے باقی ملک کے مساوی لائے جانے کی ضرورت کا احساس ابھرا اور پارلیمنٹ میں بھی اس کا بھرپور اظہار کیا گیا ۔ فاٹا میں اصلاحات کے لئے سفارشات مرتب کرنے کی خاطر وزیر اعظم نے نومبر2015ء میں اپنے مشیر برائے امور خارجہ جناب سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کی رپورٹ گزشتہ سال اگست کے اواخر میں جاری کردی گئی۔ ملک میں بحیثیت مجموعی اس رپورٹ کا خیر مقدم کیا گیا جس کے بعد توقع تھی کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے اس کی جلد از جلد منظوری عمل میں لاکر اگلے مراحل طے کیے جائیں گے تاکہ ان پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے کم سے کم وقت میں بھرپور سرگرمیاں شروع ہوسکیں۔ لیکن ایک تازہ ترین اخباری رپورٹ میں ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ضرورت کے مطابق مالی وسائل کی عدم دستیابی فاٹا اصلاحات کمیٹی کی رپورٹ کی منظوری میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے کیونکہ بعض ارکان کا کہنا ہے کہ مالی وسائل کا پہلے بندوبست ضروری ہے جبکہ سرتاج عزیز نے رابطہ کرنے پر اپنے موقف کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ’’ پہلے وفاقی کابینہ کو اسے منظور کرنا چاہیے ، مالی وسائل کے بندوبست کا معاملہ بعد میں بھی دیکھا جاسکتا ہے،ہمیں منصوبے اور کام کے تخمینے کی تیاری کرنی ہے اور اس کے لئے بہت وقت درکار ہے۔مالی بندوبست کے انتظار میں اصلاحاتی پیکیج کی منظوری میں تاخیر کا کوئی جواز نہیں ‘‘۔جہاں تک وسائل کی موجودہ کیفیت کا تعلق ہے تو ذرائع کے مطابق مرکز فاٹا کے سالانہ ترقیاتی فنڈ میں دو فی صد اضافہ کرسکتا ہے جو ساٹھ ارب روپے کے مساوی بنتا ہے اور کئی ماہرین کے بقول کام شروع کرنے کے لئے یہ ایک مناسب رقم ہے۔ صوبوں کی جانب سے بھی قابل تقسیم وسائل میں سے فاٹا اصلاحات میں تعاون کیا جانا ہے تاہم انہیں شکایت ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں فاٹا اصلاحات کا معاملہ پیشگی اطلاع کے بغیر اچانک پیش کردیا گیا جس کی وجہ سے انہیں اس سلسلے میں تیاری کا موقع نہیں ملا۔تاہم ان اداروں کے آئندہ اجلاس میں مکمل معلومات کی فراہمی کی شکل میں صوبوں کی شکایات دور کرکے فاٹا اصلاحات کے لئے ان کا تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں جناب سرتاج عزیز کا یہ موقف بالکل معقول نظر آتا ہے کہ قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کی تجاویز کی منظوری کو تمام مطلوبہ وسائل کی فراہمی کے بندوبست کے انتظار میں معرض التواء میں نہیں رکھا جانا چاہئے بلکہ فوری طور پر منظور کرکے فی الوقت موجود وسائل سے کام شروع کردیا جانا چاہئے اور مزید وسائل کے لئے سرگرمی سے کوشش کرنی چاہئے۔قبائلی علاقوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاکستان نے جس مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی بناء پر فاٹا کی ترقی کے لئے بین الاقوامی مالی تعاون بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ کابینہ اور پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد پختہ عزم کے ساتھ فاٹا میں ترقیاتی کام شروع کیا جائے اور ان علاقوں کو جلد از جلد عشروں سے جاری محرومی سے نجات دلائی جائے۔


.