ایک معقول تجویز

January 22, 2017

سندھ میں ہر دفعہ رینجرز کو اختیارات میں توسیع دینے کا مسئلہ کیوں پیدا ہوتا ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ، جس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے اور کراچی کے پائیدار امن کے لئے اس مسئلے کو حل ہونا چاہئے ۔ رینجرز ایک پیرا ملٹری فورس ہے اور یہ فورس وفاقی وزارت داخلہ اور کور۔5 کراچی کے تحت کام کرتی ہے ۔ کراچی کے مخصوص حالات کے پیش نظر سندھ پولیس کی معاونت کے لئے رینجرز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں اور کراچی میں رینجرز کی تعیناتی کو کافی عرصہ ہو گیا ہے لیکن جنوری 2015 ء میں نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے بعد رینجرز کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے تحت خصوصی اختیارات دیئے جاتے ہیں ۔ ان اختیارات کی تفویض کے لئے سندھ حکومت وفاقی حکومت سے درخواست کرتی ہے جبکہ قانون کے تحت وفاقی حکومت بھی از خود بھی یہ اختیارات سونپ سکتی ہے ۔ یہ خصوصی اختیارات دراصل پولیس کے اختیارات ہیں ، جن کو بروئے کار لاتے ہوئے رینجرز کے اہلکار کسی ملزم کو گرفتار کرکے اس سے تفتیش بھی کر سکتے ہیں ۔ سندھ حکومت تین ماہ ختم ہونے سے پہلے وفاقی حکومت سےتحریری درخواست کرتی ہے کہ ان اختیارات میں مزید تین ماہ کی توسیع کی جائے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے سندھ حکومت خصوصی اختیارات کی مدت ختم ہونے سے پہلے وفاقی حکومت سے درخواست نہیں کر رہی بلکہ مدت ختم ہونے کے بعد درخواست کی جاتی ہے ۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سندھ حکومت نہ صرف رینجرز کو خصوصی اختیارات دینے میں تذبذب کا شکار رہتی ہے بلکہ رینجرز کی بعض کارروائیوں پر اسے تحفظات بھی ہوتے ہیں ، اگرچہ ان کا کھل کر اظہار نہیں کیا جاتا ۔
تاخیر کے بعد سندھ حکومت رینجرز کو خصوصی اختیارات دے تو دیتی ہے لیکن ہر مرتبہ اس سے اختیارات کے معاملے پر وفاقی اور سندھ حکومت کے اختلافات کا تاثر مزید گہرا ہو جاتا ہے ۔ اس تاثر کی وجہ سے کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور دہشت گرد عناصر اس کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ رینجرز کے خصوصی اختیارات پر پیدا ہونے والا تنازع فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس تنازع کے اصل اسباب کا پتہ لگانا چاہئے ۔ رینجرز کی متعدد کارروائیوں پر حکومت سندھ نے سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ رینجرز کی طرف سے بعض سرکاری دفاتر پر چھاپے مارے گئے اور پیپلز پارٹی کے قائدین کے قریبی ساتھیوں کو گرفتار کیا گیا ۔ ان کارروائیوں پر نہ صرف سندھ حکومت نے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ سندھ حکومت کے ذمہ داروں کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ رینجرز نے ان کارروائیوں میں سندھ حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا ۔ رینجرز کی آخری کارروائی ، جس پر سندھ حکومت نے تحفظات کا اظہار کیا ، 23 دسمبر 2016 ء والی کارروائی تھی ۔ اس روز پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے سربراہ اور سابق صدر آصف علی زرداری ڈیڑھ سالہ جلا وطنی کے بعد وطن واپس آ رہے تھے اور اسی دن رینجرز کی طرف سے ایک اہم شخصیت کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے ۔ اس شخصیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں ۔ اس کارروائی پر وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر مولا بخش چانڈیو نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت سندھ کو اس کارروائی سے آگاہ نہیں کیا گیا ۔
پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے مخالفین کا کہنا یہ ہے کہ رینجرز کی طرف سے پیپلز پارٹی کے لوگوں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے لوگ چیخ پڑتے ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے رینجرز کو خصوصی اختیارات نہیں دینا چاہتے ۔ جبکہ پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ سندھ میں دہشت گردی کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن کے کپتان وزیر اعلیٰ سندھ ہیں ۔ رینجرز کو پولیس اور دیگر سویلین فورسز کی معاونت کے لئے بلایا گیا ہے اور خصوصی اختیارات دینے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ رینجرز کوئی کارروائی کرنے کے لئے سندھ حکومت کو اعتماد میں نہ لیں۔ ہر کارروائی کے لئے سندھ حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ سندھ یا چیف سیکرٹری سندھ کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور اس کے مخالفین کے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تنازع نہ صرف موجود ہے بلکہ تنازع کے واضح اسباب بھی ہیں ۔ اس تنازع کو ایک حقیقت کے طور پر لینا چاہئے اور اسے حل کرنا چاہئے۔
جنوری 2015 میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے اتفاق رائے سے جو 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان منظور کیا گیا تھا ، اس کے تین نکات تین صوبوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن یا دہشت گردی کے خاتمے کے لئے حکمت عملی سے متعلق تھے ۔ پلان کا نکتہ نمبر ۔ 15 یہ ہے کہ پنجاب میں عسکریت پسندی کے خلاف زیرو ٹالرنس ہو گی ۔ نکتہ نمبر ۔ 16 یہ ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا اور نکتہ نمبر 17یہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی مفاہمت کے لئے بلوچستان کی حکومت مکمل بااختیار ہو گی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اسے مکمل اونر شپ حاصل ہو گی۔ ان تین نکات سے یہ بات واضح ہے کہ پنجاب میں سخت آپریشن ہونا چاہئے، جو پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے نزدیک نہیں ہوا ۔
کراچی میں پہلے سے جاری آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پہلے والی حکمت عملی کو بھی جاری و ساری رکھنا چاہئے جبکہ بلوچستان میں آپریشن کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کیا گیا ہے ۔ ان تینوں نکات میں تینوں صوبوں کے مخصوص حالات کے پیش نظر الگ الگ حکمت عملی اختیار کی گئی ہے ۔ نیشنل ایکشن پلان کی اس روح کو سمجھنا چاہئے ۔ متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد انتہائی پڑھے لکھے اور زیرک سیاست دان ہیں ۔ وہ کامیاب بیورو کریٹ بھی رہے ہیں اور ان کی حالات پر بہت گہری نظر ہے ۔ انہوں نے ایک معقول تجویز دی ہے ۔
ان کا کہنا یہ ہے کہ پہلے کچھ حقائق کو تسلیم کیا جائے۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے حالات اب بھی ٹھیک نہیں ہیں اور رینجرز کو خصوصی اختیارات دینے کی ابھی ضرورت ہے ۔دوسری حقیقت یہ ہے کہ رینجرز کو خصوصی اختیارات دینے کے معاملے پر تنازع موجود ہے ۔ انہوں نے مسئلے کا حل یہ بتایا ہے کہ رینجرز کو لامحدود اختیارات نہ دیئے جائیں اور صرف اسے ایسے اختیارات دیئے جائیں کہ وہ دہشت گردوں سے بہتر طور پر نمٹ سکے ۔ رینجرز سویلین حکومت خصوصاً وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکرٹری سندھ کو جواب دہ ہو اور اپنی کارروائیوں میں وہ حکومت کو اعتماد میں لے ۔ اس ضمن میں قانون میں ترمیم بھی کی جا سکتی ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وفاقی اور سندھ حکومت مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں تاکہ کراچی آپریشن کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے ۔ مسئلے کے حل کے لئے جو تجویز سید سردار احمد نے دی ہے ، اس کے پیرامیٹرز کے مطابق وفاقی اور سندھ حکومت کو فوراً بات چیت شروع کر دینی چاہئے ۔



.