مثنوی مولاناروم

January 23, 2017

آپ کی خدمت میں مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی سے کئی واقعات پیش کرچکا ہوں۔ چونکہ اس میں تمام واقعات نصیحت آمیز ہیں میں عوام کی اکثریت کی خاطر وقتاً فوقتاً کوئی واقعہ بیان کردیتا ہوں۔ عام عوام کی اس مثنوی تک رسائی نہیں ہے۔ مہنگی ہے۔ اخبار جنگ میں کالم کے ذریعے ان تک یہ اچھے واقعات جو نصیحت آمیز ہیں اسی وجہ سے میں پیش کرتا ہوں۔
میں ایک کالم میں آپ کو بتلا چکا ہوں کہ مولانا رومیؒ ایک جیّد عالم، صوفی تھے جو بلخ میں ستمبر 1207 ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام شیخ محمد بہائو الدین تھا۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد کی وفات 80 سال کی عمر میں 1231 میں قونیہ میں ہوئی۔ مولانا کی وفات قونیہ میں ہی 66 سال کی عمر میں دسمبر 1273 میں ہوئی۔
ابن بطوطہ، مشہور سیاح، نے اپنے سفر نامے میں مثنوی مولانا رومؒ کی تخلیق کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’مولانا اپنے مدرسہ میں درس دیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک شخص حلوہ بیچتا ہوا مدرسے میں آیا۔ حلوہ قاشوں کی شکل میں تھا۔ مولانانے ایک قاش لی اور کھا لی، حلوہ دے کر وہ تو کسی جانب چلا گیا اور مولانا کی یہ حالت ہوئی کہ بے اختیار کھڑے ہوئے اور وہاں سے نکل گئے۔ برسوں کچھ پتہ نہ چلا۔ جب واپس آئے تو یہ حالت تھی کہ کچھ بولتے چالتے نہیں تھے جب کبھی زبان کھلتی تو شعر پڑھتے تھے اور ان کے شاگرد لکھ لیا کرتے تھے۔ یہی مجموعہ اشعار مثنوی بن گئی۔مولانا نے خود ایک شعر میں فرمایا تھا کہ اشعار غیب سے ان کے دماغ میں آتے ہیں۔ واللہ عالم بالصواب۔
میں یہ لکھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ مثنوی میں جو واقعات ہیں وہ سو فیصدی حقائق پر مبنی نہیں ہیں۔ مولانا رومیؒ نے یہ واقعات سُن سنا کر بیان کئے اور ان میں مسلمانوں کیلئے نصیحت آمیز ہدایات شامل کردی ہیں۔ ایک ایسا ہی واقعہ ’’وحی کاتب کا مُرتد ہوجانا‘‘ ہے۔ میں اپنی محدود معلومات کی وجہ سے کہیں تاریخ میں یہ واقعہ نہیں ڈھونڈ سکا۔ میں آپ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کرتا ہوں جو مثنوی میں ہے۔
’’حضرت عثمان رضی اللہ سے پہلے ایک بہت سرگرم کاتب وحی تھا۔ ایک مرتبہ وحی کا پرتو اس پر پڑا حضور اکرم ؐ وحی کے الفاظ لکھوا رہے تھے تو اس کی زبان پر آنحضورؐ کے بولنے سے پہلے ہی وحی کے الفاظ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالَقَیْنجاری ہوگئے۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ٹھیک ہے لکھ لو اس سے اسے یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے حالانکہ یہ حضور اکرمؐ کے پرتو کا اثر تھا وہ نالائق اس کے باوجود گمراہ ہوگیا جب اس کے خیالِ بد کا عکس رسول اکرم ؐ پر پڑا تو اللہ کا قہر اس پر نازل ہوا وہ کتاب بھی اور دین سے بھی برطرف ہوا ،کینہ کی وجہ سے حضور اکرامؐ کا دشمن بن گیا وہ توبہ بھی نہ کرسکا کیونکہ اللہ نے توبہ کا دروازہ اس پر بند کردیا۔ اس لئے سورۃ یٰسین میں فرمایا ’’بے شک ہم نے کردیئے ان کی گردنوں پر طوق تو وہ منہ اٹھائے ہوئے ہیں اور کردی ہم نے ان کے سامنے دیوار اور ان کے پیچھے دیوار۔ ہم نے ان کو اوپر سے ڈھانپ دیا پس وہ نہیں دیکھتے۔‘‘
دنیا کی محبوب چیزیں انسان کو محبوب حقیقی کے دیدار سے مانع آتی ہیں لوہے کے بند کو جدا کیا جاسکتا ہے لیکن غیبی بند کی بجز رحمت اِلٰہی کوئی دوا نہیں۔ اگر بھڑ ڈنگ مارے تو تم اس کو فوراً دفع کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہو لیکن اگر تجھ کو تیرے تکبّر کے ڈنگ نے زخمی کیا ہے تو غم زیادہ ہوگا اور درد کم نہ ہوگا۔ اس کا علاج یہی ہے کہ فریاد سننے والے کے سامنے فریاد کر کہ :
اے محب عفو از ما عفو کن
اے طبیب رنج ناسور کہن
اے معافی کو پسند کرنے والے ہمیں معاف فرمادے۔ اے پرانے ناسور کی تکلیف کے طبیب حکمت کے عکس نے اس بدبخت کو گمراہ کردیا اس لئے خود پسند نہ بن اور برباد نہ ہو۔ تو اپنے دل کے اندر جو روشنی محسوس کرتا ہے وہ تیرے پیر کی وجہ سے ہے گھر اپنے اندر اگرچہ روشنی محسوس کررہا ہے لیکن یہ تیرے روشن پڑوسی کی وجہ سے چمک رہا ہے۔ شکر کر گھمنڈ نہ کر اس عارضی چیز نے متکبروں کو اُمت سے دور کردیا ہے۔ میں اس شخص کا غلام ہوں جو اپنے آپ کو عاجز و مسکین سمجھے اور اپنے آپ کو کمال پر نہ سمجھے۔ سالک بہت سی منزلیں طے کرکے قرب تک پہنچتا ہے یہ مقام آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔
لوہا سرخ ہوگیا ہے تو یہ آگ کی وجہ سے ہے۔ اگر روشن دان سے گھر میں کچھ روشنی آئی ہے تو یہ سورج کی ہے اگر دیوار کہے کہ میں روشن ہوں اور مجھ پر غیر کا عکس نہیں ہے تو سورج کہے گا اے گمراہ جب میں غائب ہوجائوں گا پھر پتہ چلے گا‘ جسم اپنے حسن و جمال پر ناز کرتا ہے تو روح جس سے اپنے آپ کو اس میں چھپایا ہوا ہے کہتی ہے تو کاہے چند دن میری وجہ سے جی لیا۔ ذرا ٹھہر جا میں تجھ سے رخصت ہوجائوں پھر تجھے دیکھوں گی تو کیا ہے تیرے دوست تجھے قبر میں دفن کردیں گے اور تجھے چیونٹیوں اور سانپوں کی غذا بنا دیں گے۔ تجھ پر اپنی جان قربان کرنے والا بھی تیری بدبو سے اپنی ناک بند کرے گا۔ یہ تیرا حسن، گویائی، آنکھ کان روح کا اثر ہے۔
جس طرح روح کا اثر بدن پر ہے اسی طرح ابدال کا اثر میری روح پر ہے۔ جان جب جان سے اپنا قدم پیچھے ہٹا لے تو سمجھ لے کہ جان بے جان جسم کی طرح ہوجائے گی۔ میں اسی وجہ سے زمین پر چہرہ رکھتا ہوں تاکہ یہ قیامت کے دن میری گواہ ہو۔ قیامت کو زمین لوگوں کی حالتوں کی گواہی علی الاعلان دے گی۔ زمین اور اس کا خار و خس بولنے لگے گا۔ یہ سب چیزیں بولتی اور اہلِ دل ان کی باتیں سنتے ہیں، جیسے ستون حنانہ رونے لگا تھا، فلسفی اپنی عقل کے زور پر شیطان کا انکار کرتا ہے حالانکہ وہ خود شیطان ہی کی اطاعت میں حقائق سے انکار کرتا ہے۔ فلسفی نے اگر شیطان کو نہیں دیکھا ہے تو خود اپنے آپ کو دیکھ لے اس میں شیطان کے اثرات موجود ہیں، جنوں کو بھی تو ان کے اثرات سے ہی پہنچانتے ہیں۔ جنون کی بھی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ فلسفی کسی گروہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتا بلکہ ہر کج فہم فلسفی ہی ہوتا ہے کہ کیونکہ روح سے اس کاکوئی واسطہ نہیں ہوتا۔
اے مومنو! تم میں سے بھی فلسفی ہوسکتا ہے ایک مومن کے دل میں فاسد خیالات آسکتے ہیں لہٰذا بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایمان والے کا کام ہے کہ وہ بد خیالات کے خوف سے ہمیشہ لرزتا رہے۔ شیطان کا مذاق وہ اُڑاتا ہے جو اپنے آپ کو بڑا پارسا سمجھتا ہے۔ جب انسان کے مخفی حالات کھلتے ہیں تو اس کے معتقد واویلا کرنے لگتے ہیں۔ جب تک انسان کسوٹی پر نہیں پرکھا جاتا کھرا کھوٹا یکساں معلوم ہوتا ہے۔ شیطان بھی بہت بڑا ولی تھا جب اس کا باطنی عیب (تکبر) کھلا تو اصل ظاہر ہوگیا۔ رات کے وقت کھوٹا سونا کھرے کی برابری کرتا ہے تو کھرا اس کو کہتا ہے اے دھوکے باز ٹھہر جب تک کہ دن چڑھ جائے۔‘‘ (حکایاتِ رومیؒ مرتب میاں محمود)
یہ عرض کرتا چلوں کہ مثنوی مولانا روم تصوف کی دنیا کی سب کتابوں سے افضل ہے اس مشہور مثنوی کو جو بلند و بالا مقام و مرتبہ حاصل ہوا وہ آج تک ایران کی کسی اور تصنیف کو حاصل نہیں ہوا۔ اس کی بین الاقوامی شہرت بھی مشرق کی تمام کتابوں سے بہتر ہے اور لاتعداد غیرملکی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا ہے۔

.