مکمل تلاشی، کلین چٹ؟

January 27, 2017

اچھی خبر یہ ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان میں کرپشن کم ہوئی ہے اور یہ 9 درجے کی بہتری کے ساتھ 116نمبر پر آگیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بدعنوانی میں کمی کے حوالے سے پاکستان کو پہلا نمبر ملا ہے۔ چونکہ ہم بہت سی چیزوں کا مقابلہ بھارت سے کرتے ہیں لہذا اس ادارے کے مطابق انڈیا کی کرپشن انڈیکس میں صرف پانچ درجے بہتری ریکارڈ کی گئی۔ یہ رپورٹ یقیناً نواز شریف حکومت کیلئے بڑی حوصلہ افزا ہے اور اس کا یہ کہنا بجا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اس کی شفافیت کی پالیسی پر ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے مگر یہ بات بلاشبہ پاکستان کیلئے بھی بڑی نیک نامی کا باعث بنی ہے۔ یقیناً یہ رپورٹ ان بے شمار دعوئوں کی نفی کرتی ہے جن کے مطابق موجودہ حکومت بہت کرپٹ ہے جس نے اربوں کھربوں روپے کے میگا پروجیکٹ صرف اس لئے شروع کئے ہیں کہ بڑا مال بنایا جا سکے۔ پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایسی رپورٹ کی تیاری حکومت کا ڈرامہ ہے۔ یہ یقیناً لغو بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی اپنی حکومت ایسی رپورٹ تیار کرانے میں کیوں ناکام رہی۔ اس کا جواب ان کے پاس نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت تمام قومی اور بین الاقوامی معیاروں کے مطابق کرپٹ ترین تھی جس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان بھی بغیر کسی ثبوت کے ہمیشہ سے ہی ایسے الزامات حکومت پر لگاتے ہیں مگر جب بات آتی ہے انہیں عدالت یا کسی اور فورم پر ثابت کرنے کی تو وہ کہتے ہیں کہ ان کا کام تو صرف الزام لگانا ہے ثابت کرنا نہیں اور یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ ثبوت ڈھونڈے۔ تاہم وہ خواجہ آصف کے نقش قدم پر چلنے سے قاصر ہیں جنہوں نے گزشتہ حکومت کے خلاف الزامات لگا کر انہیں عدالت عظمیٰ میں ثابت بھی کیا اور اس کے بعد اس کے مختلف رہنمائوں پر مقدمات بنے جو وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔
یہی حال وزیرا عظم نواز شریف اور ان کے بچوں بشمول مریم، حسین اور حسن کے خلاف آف شور کمپنیوں اور لندن اپارٹمنٹس کے بارے میں عمران خان کے الزامات کے متعلق ہے جن پر سپریم کورٹ میں کارروائی چل رہی ہے۔ دونوں اطراف سے بڑے بڑے دعوے کیے جارہے ہیں۔ نون لیگ کا کہنا ہے کہ دو ہفتے کی بات ہے کلین چٹ ہمارے ہاتھ میں ہو گی اور ہمارے مخالفین کو شرمندگی ہوگی کہ انہوں نے کیوں بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کی۔ دوسری طرف ایک درخواست گزار کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے ہی تابوت نکلیں گے مراد یہ کہ نوازشریف کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ تو صرف عدالت کو ہی معلوم ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتی ہے مگر بہت سی چیزیں کئی ہفتوں سے جاری کارروائی کے دوران کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ مریم کے وکیل شاہد حامد کا کہنا ہے کہ جو دستاویزات پی ٹی آئی نے ان کے کلائنٹ کے خلاف عدالت میں پیش کی ہیں ان پر ان کے دستخط جعلی ہیں۔ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے اگر یہ ثابت ہو گیا کہ واقعی یہ دستخط بوگس ہیں تو پی ٹی آئی کو بہت زیادہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کا سارا کیس بھی ختم ہو جائے گا، سیاسی نقصان اس کے علاوہ ہو گا۔ اب یہ پی ٹی آئی کا کام ہے کہ وہ ثابت کرے کہ مریم کا کلیم صحیح نہیں ہے مگر بظاہر وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کیونکہ اس نے تو وہ دستاویزات جو اس نے انٹرنیٹ سے ڈائون لوڈ کی تھیں عدالت میں بغیر ان کی تصدیق کے پیش کر دیں اور یہ سمجھا کہ اس نے اب مریم کے خلاف اپنا کیس ثابت کر دیا ہے۔ ایسی تین دستاویزات جو کہ کئی بار اخباروں میں چھپ چکی ہیں ان پر اگر مریم کے دستخطوں کا بغور جائزہ لیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ مختلف ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ ججوں نے ان دستخطوں پر ایک نظر ڈالنےکے بعد یہ کہہ دیا تھا کہ ان تینوں میں فرق بڑا واضح ہے۔ عدالت تو ان دستخطوں کی تصدیق کرانے سے رہی کیونکہ وہ بار بار کہہ چکی ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گی کیونکہ وہ کوئی تفتیشی ادارہ نہیں ہے۔
ایک طرف تو عمران خان شریف خاندان کی ’’مکمل تلاشی‘‘ چاہتے ہیں مگر دوسری طرف وہ خود ایسے ہی سلوک کے قطعی مخالف ہیں۔ الیکشن کمیشن میں دو سال سے پی ٹی آئی کے بانی لیڈر اکبر ایس بابر کا ریفرنس پارٹی کی فارن فنڈنگ میں ہیرا پھیری کے بارے میں چل رہا ہے مگر عمران خان وہاں کوئی ٹھوس جواب دینے سے انکاری ہیں۔ تاہم یہ کیس ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا اور یہ خطرناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن پر متعصب ہونے کا الزام لگانے پر انہوں نے پہلے ہی معافی مانگ لی ہے مگر اس آئینی ادارے نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ہے کیونکہ انہوں نے معافی مانگنے کے بعد کہا تھا کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا۔ اس طویل عرصے کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی نے فارن فنڈنگ کا حساب الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرایا اور ان کی کوشش یہی ہے کہ وہ اس کو ہرصورت ٹالتے رہیں۔ اکبر ایس بابر نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ فارن فنڈز بذریعہ ہنڈی اور حوالہ پاکستان لائے گئے جن کا غلط استعمال کیا گیا۔ دوسری طرف انہوں نے عدالت عظمیٰ میں بار بار یہ الزام لگایا ہے کہ مریم نیسکول اور نیلسن آف شور کمپنیاں جن کے مالک ان کے بھائی حسین ہیں اور لندن فلیٹس کی دراصل بینفشر آنر ہیں مگر ساتھ ساتھ انہوں نے سپریم کورٹ میں ہی اپنے خلاف آف شور کمپنی کے بارے میں ایک پٹیشن میں یہ جواب داخل کیا ہے کہ ایسی کمپنی کا بینفشر مالک اس کا اعلان کرنے کا پابند نہیں کیونکہ اس کمپنی کے شیئرز بینفشر آنر کے نام پر رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔ اپنی خفیہ آف شور کمپنی کا اعلان نہ کرنے کی وجہ سے بطور ایم پی عمران خان کی نااہلی کیلئے درخواست پر ان کی جانب سے دیا جانے والا جواب پاناما پیپر کیس میں حکمران خاندان کیلئے بڑا دفاع بن سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ اگر کوئی ایک شخص بھی آف شور کمپنی کا واحد مالک ہے اور کمپنی کے حصص پراکسی ڈائریکٹرز کے نام رجسٹرڈ ہیں اور مالک کے نام رجسٹرڈ نہیں ہیں تو وہ اپنی آف شور کمپنی کے بارے میں بتانے کا پابند نہیں ہے۔ انہوں نے نیازی سروسز لمیٹڈ سے وابستہ بینک اکائونٹس کی تفصیلات اور 1983ء سے 2015ء تک کھاتوں کی تفصیل شیئر کرنے سے مکمل اجتناب کیا ہے جبکہ اس وقت تک ان کی کمپنی نہ صرف برقرار تھی بلکہ آمدنی کے گوشوارے بھی جمع کروا رہی تھی۔ عمران خان مسلسل اصرار کرتے رہے کہ اس آف شور کمپنی سے صرف ایک اثاثہ منسلک تھا لیکن بینک اکائونٹس اور بینک اسٹیٹمنٹس کا ذکر گول کر گئے۔ یہ بھی بہت اہم ہے کہ زیادہ تر معاملات میں آف شور کمپنی براہ راست اصل مالک کے نام پر رجسٹرڈ نہیں کرائی جاتی اور کمپنی کے حصص جعلی یا پراکسی ڈائریکٹرز کے نام پر جاری ہوتے ہیں۔ عام طور پر لوگ کسی فنانشل سروسز فراہم کرنے والے ادارے سے آف شور کمپنی قائم کرنے کیلئے مدد طلب کرتے ہیں اور یہ ادارے ہی آف شور کمپنیاں قائم کرنے کیلئے جعلی یا پراکسی ڈائریکٹرز کا انتظام کرتے ہیں۔ بینفشر آنرشپ کا ریکارڈ الگ سے رکھا جاتا ہے اور وہ خفیہ ہوتا ہے۔ کچھ معاملات میں آف شور کمپنیوں کے حصص ڈائریکٹرز اور کمپنی کے نامزد ڈائریکٹرز کے نام پر جاری ہوتے ہیں۔

.