چیئرنگ کراس کے ہلال

February 15, 2017

انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ایک اور زخمی کی دھڑکنیں رک گئیں۔ ایک اورچراغ بجھ گیا۔ شہادتوں کی تعداد میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا۔ امید کی جاگتی گھنٹیاں سو گئیں۔ مال روڈ پرسرد سورج کی کالی چتا۔ ہر طرف راکھ چہرے پہ مل مل کے آتی ہوئی۔ ایڑیوں سے اندھیرے اڑاتی ہوئی، خود کش جیکٹ سے نکلے ہوئے شیشے کے نوکدار ٹکڑے روح میں پیوست کر گئی ہے۔ موت کے فلسفے کے شبستان میںکتنے سدھارتھ صفت سو گئے۔ کتنے رنگ پتھرا گئے۔ خوابوں کی کتنی تعبیریں کرچیاں ہوگئیں۔ سمٹ مینار کے سامنےارمغانِ حرم بہہ گئی۔ خیر کی میت پنجاب اسمبلی کی دہلیز سے اٹھی۔ امن و اماں کے سکوتِ گل سے شام اپنی خالی ہوئی۔ سید احمد مبین اور زاہد گوندل سے نیام اپنی خالی ہوئی۔ شہباز شریف کی کلائی سے بندھا ہوا لاہورخون کے راوی میں گر پڑا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے سلوگن دھرے کے دھرے رہ گئے میں ایک بار پھر مر گیا۔ چیئرنگ کراس کے ہر ہلال سے میرا خون نکلا اور سڑک پر جم گیا۔ میرے لوتھڑوں سے فٹ پاتھ بھر گیا۔ جیو کی اسکرین سے نکلا کہ دھماکے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان کے منحرف دھڑے جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے کہ لاہور میں خودکش دھماکہ ان کے ساتھی نصراللہ عرف ذبیح اللہ نے کیا ہے۔ بے گناہوں کےقاتلوں کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ گزشتہ سال گلشن اقبال پارک میں بم دھماکے کی ذمہ دار بھی اسی گروپ نے قبول کی تھی جس میں 70افراد جاں بحق ہو گئےتھے۔ وہ ایسٹر کا دن تھا۔ اُس دن کئی مسیحی بھائی کراس پر سج گئے تھے۔ آج مسلمان چیئرنگ کراس پر قربان ہو گئے۔
یہ تحریک طالبان کا کوئی منحرف گروپ نہیں۔ بس طالبان نے اپنے گلے میں اِسی نام کی تختی لٹکا لی ہے۔ دراصل کچھ عرصہ پہلے احرار الہند کےنام سے ایک گروپ وجود میں آیا تھا۔ یہ گروپ دو سگےبھائیوں نے بنایا تھاجن کا تعلق ضلع اٹک کے شہر حضرو سے ہے۔ پھر صلح ہو گئی۔ تحریک طالبان پاکستان کے نام میں جماعت الاحرار کااضافہ کردیا گیا۔ ان دنوں پاکستانی طالبان کی کمان انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دونوں لال مسجد کے سابق طالب علم بھی ہیں۔ جب پہلی بار احرار الہند کا نام سامنے آیا تھا تواحرار الہند نے کسی مولانا عمر قاسمی کو اپناسربراہ قرار دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ عمر قاسمی کا تعلق بھارت سے ہے۔ رانا ثناءاللہ نے بھی تسلیم کیا ہےکہ جماعت الاحرار کے بھارتی ایجنسی را کے ساتھ قریبی مراسم ہیں۔ جن دنوں انہوں نے ا پنا نام ’’احرار الہند‘‘ رکھا تھا۔ انہی دنوں میں نے لکھا تھا غور کیا جائےکہ انہوں نے اپنی تنظیم کانام ’’احرار الہند‘‘ کیوں رکھا ہے۔ ’’احرار“ کا لفظی مطلب وہ قوم یا گروہ ہےجوکسی کی غلامی قبول نہیں کرتا پھر اس احرارکے ساتھ ’’ہند‘‘ کا لفظ کیوں لگایا گیا۔ کیاوہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتے۔ ہمارا وطن ہندوستان ہے۔
جہاں تک طالبان پر بھارتی اثرو رسوخ کا تعلق ہے تو اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس رابطے میں اُن بعض بھارتی مسلمان علماء کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جو طالبان سے نظریاتی ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ سوات اور وزیرستان کے آپریشن کے دوران بھارت سے آیا ہوا اسلحہ بھی بڑی تعداد میں پکڑا گیا تھا۔ کلبھوشن سمیت اور بھی کئی ثبوت حکومت ِ پاکستان کے پاس موجود ہیں۔
میرے خیال میں اب اور کوئی چارہ نہیں رہا کہ کراچی اوروزیرستان کی طرح پنجاب میں بھی باقاعدہ ضرب عضب آپریشن شروع کردیا جائے۔ کراچی کی طرح رینجرزکو پنجاب میں بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل درآمدیقینی بنانے کےلئےیہ ادارہ مکمل طور پر افواجِ پاکستان کے حوالے کردیا جائے تاکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ صوبوں کوطے شدہ معاملات پر مرتکز رکھے۔ نیشنل ایکشن پلان کی باتیں یاد دلا دوں۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کو بھول گئی ہوں۔ دہشت گردوں کی سزا ئوں پرعملدرآمد۔ اسپیشل ملٹری کورٹس۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں سے عسکری ونگز کا خاتمہ۔ منافرت کے خلاف کارروائی۔ سہولت کاروں کے خلاف کارروائی۔
کالعدم تنظیموں کے افرادکی نگرانی۔ اقلیتوں کا تحفظ۔ کاؤنٹر ٹیررازم فورس۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن۔ میڈیا پردہشت گردوں کی تشہیر پر پابندی۔ فاٹا میں انتظامی وترقیاتی اصلاحات۔ آئی ڈی پیز کی واپسی۔ دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کاخاتمہ۔ سوشل میڈیا پر دہشت گردنظریہ کے فروغ پر پابندی۔ پنجاب میں دہشتگردی کا خاتمہ۔ ’کراچی آپریشن‘ کامنطقی انجام۔ بلوچستان میں سیاسی مفاہمت۔ فرقہ واریت کے خلاف فیصلہ کن کارروائی۔ افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ۔ فوجداری نظام میں اصلاحات۔ میرے خیال میں تو ان بیس نکات میں سے ایک بھی نکتہ ایسا نہیں جس پر پوری طرح عمل درآمد کیا گیاہو۔ ایسی صورت میں چیئرنگ کراس کے فٹ پاتھوں پر انسانی جسموں کے لوتھڑے ہی چپکے ہوئے دکھائی دیں گے اور کیا ہوگا۔ اب آخر میں لاہور کےلئے شعیب بن عزیز کا ایک دعائیہ شعر۔
مِرے لاہور پر بھی اِک نظر کر
ترا مکّہ رہے آباد مولا



.