دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہو رہی؟

February 16, 2017

شاخیں کاٹ کر بغلیں بجارہے ہیں، تنے اور جڑکی طرف کبھی متوجہ ہی نہیں ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف ہر حکومتی اقدام اور ہر دعوے کے جواب میں ہمیشہ یہی رائے ظاہر کرتا رہا۔ لیکن یہاں فوجی آپریشنز اور وہ بھی مخصوص علاقوں میں، کو مسئلے کا حل باور کرایا گیا۔ حالانکہ ملٹری آپریشنز صرف شاخیں کاٹنے کا عمل ہے اور اس کے نتائج کا انحصار بھی، اس کے وقت، طریقے اور بعد کے اقدامات پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کبھی ملٹری آپریشن پر بغلیں بجانے والوں کی صف میں شامل ہوا اور نہ عارضی خاموشی کو مسئلے کا حل باور کرایا۔یہی عرض کرتار ہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ تب حل ہوگا جب اس کے تمام محرکات کو ختم کیا جائے گا اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، تب تک کسی وقتی خاموشی یا پھر دہشت گردی کے مقام یا اہداف کی تبدیلی کے لئے ان کی طرف سے فراہم کردہ وقفے کو حل سمجھنا اپنے آپ کودھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
میرے نزدیک دہشت گردی کے محرکات یا روٹ کازز (Root Causes) اور دہشت گردوں کے سامنے پاکستانی ریاست کی بے بسی کی وجوہات درج ذیل ہیں۔
(1) روز اول سے سیاسی اور اسی کی دہائی کے بعدسیاسی کے ساتھ ساتھ تزویراتی (Strategic) مقاصد کے لئے بھی مذہب کا استعمال۔
(2)جہاد، قتال، ارتداد، خلافت اور اسی نوع کی دیگر مذہبی اصطلاحات سے متعلق مخصوص بیانیہ کا رائج ہونا۔
(3)ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات اور اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے خلاف پراکسی وارز۔ یا پھر اس کی خاطر پاکستان کے اندر قانون کے نفاذ کے معاملے میں پسند ناپسند کا عمل۔
(4)خطے میں جاری عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی وارز اور پاکستانیوں کا اس میں مختلف طاقتوں کے لئے استعما ل ہونے کا عمل۔
(5)سول ملٹری تصورات کا فرق اور دونوں طبقات کا آپس میں تنائو۔
(6)ریاستی اداروں یعنی مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا میں ہم آہنگی کا نہ ہونا۔
(7)قانون نافذکرنے والے اداروں میں کوآرڈنیشن کا فقدان۔
(8)بیروزگاری اورمعاشی تفاوت یا تضادات۔ بعض علاقوں اور بعض طبقات کا بہت محروم ہونا اور بعض کا بہت خوشحال ہونا۔
اب آئیے ان عوامل سے متعلق ریاست پاکستان کے رویے اور اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔
جہاں تک پہلے محرک کا تعلق ہے تو سیاسی مقاصد کے لئے مذہب کا بطور ہتھیا راستعمال کا عمل نہ صرف برقرار ہے بلکہ بعض حوالوں سے مزید بڑھ گیا ہے۔ روایتی مذہبی سیاسی جماعتوں کے علاوہ گزشتہ سالوں میں کئی دیگر مذہبی گروہ میدان سیاست میں سرگرم عمل ہوگئے ہیں جو نہایت بے دردی کے ساتھ مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ تزویراتی مقاصد کے لئے بھی اس کا استعمال بدستور جاری ہے اور جو عناصر یہ کام کررہے ہیں، ان سے متعلق صرف نظر کی پالیسی بدستور برقرار ہے۔
دوسرے محرک سے متعلق عرض ہے کہ ماضی میں امریکہ، عرب ممالک اور پاکستانی ریاست کی سرپرستی میں سوویت یونین کے مقابلے کے لئے تخلیق کردہ جہادی بیانیہ کے جواب میں پاکستان یا پھر کوئی دوسرا سلامی ملک جوابی بیانیہ سامنے نہیں لاسکا۔ جہادی بیانیہ حسب سابق کتاب،انٹرنیٹ، ممبرومحراب، اسٹیج اور حتیٰ کہ ٹی وی اسکرین کے ذریعے بیان کیاجارہا ہے جبکہ جوابی بیانیہ پر یقین رکھنے والوں کا جینا بدستور پاکستان میں دشوار ہے۔ ریاستی معاملات چلانے والوں کو یا تو ان باتوں کی سمجھ نہیں یا پھر یہ ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل فو ن کی سہولتوں کے بعد اب شدت پسند بیانیہ پہلے سے زیادہ آسانی اور شدت کے ساتھ گھر گھر ہر پاکستانی تک پہنچ رہا ہے۔
تیسر ا محرک یعنی ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ کشیدگی نہ صرف بدستور برقرار ہے بلکہ جس قدر ان دنوں، دونوں کے ساتھ تعلقات آج خراب ہیں، پہلے کبھی نہیں تھے۔ ان دونوں ممالک نے مکمل ایکا کر لیا ہے اور دونوں کی پاکستان کے خلاف پراکسی وار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید تیز ہوتی جارہی ہے۔اسی طرح چوتھا محرک بھی مزید کارفرما ہوگیا ہے اور جوں جوں عرب دنیا میں ایران اور برادرعرب ملک کی جنگ شدت اختیار کررہی ہے، پاکستان کے اندر بھی ان کی پراکسی جنگ گرم ہوتی جارہی ہے۔ اگر پاکستانی ریاست نے سب فریقوں کو شٹ اپ کال نہیں دی تو مجھے یہ پراکسی جنگ مستقبل میں بہت بھیانک شکل اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔اسی طرح پاکستان اب چین اور چین کے مخالف ممالک کی پراکسیز کا بھی میدان بنتا جا رہا ہے۔
پانچواں محرک یعنی سول ملٹری تنائو بدستور برقرار ہے اور پچھلے سالوں کے دوران ہم آہنگی لانے کا کوئی میکنزم سامنے نہیں لایا جاسکا۔ پہلے یہ تنائو صرف خارجہ معاملات پر سامنے آتا تھا لیکن گزشتہ چند سالوں سے داخلی سلامتی کے معاملات پر بھی یہ تنائو دیکھنے کو ملا۔ پہلے خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی معاملات پر سوچ کے فرق کی وجہ سے داخلی سیاست پر بھی اثر پڑتا تھا لیکن اب تو دونوں طرف داخلی محاذ پر ایک دوسرے کے ساتھ اسکور برابر کرنے کے لئے خارجہ پالیسی اور نیشنل سیکورٹی معاملات کی بھی آڑلیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کو ورغلانے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ خارجہ اور قومی سلامتی کے معاملات پر قومی یکجہتی تو درکنار، اب غداری جیسے سنگین الزامات بھی سیاسی اور کاروباری رقابت کی وجہ سے لگائے جارہے ہیں اور یہ استعمال اس قدر بڑھ گیا کہ اب ملک کے اندر غدار اور محب وطن کی پہچان مشکل ہوگئی ہے۔
چھٹے محرک کو بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی سے متعلق ریاستی اداروں سے متعلق ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ملٹری کو سیاستدانوں کے رویے سے شکایت ہے۔ حکومت اوردیگر ریاستی ادارے عدلیہ کی کارکردگی پر عدم اعتماد ظاہر کررہے ہیں۔ عدلیہ حکومت اور دیگر اداروں پر برہم ہے یا پھر اس سے شاکی ہے۔ اسی طرح حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو میڈیا سے شکایت ہے۔ اس وقت ہر ادارہ کی ترجیحات میں دہشت گردی کا مقابلہ نہیں بلکہ اپنی اپنی بقاکی جنگ سرفہرست نظر آرہا ہے۔جہاں تک ساتویں یعنی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مابین کوآرڈنیشن کے فقدان کا تعلق ہے تو اس مسئلے کے حل کے لئے بھی گزشتہ سالوں میں کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس غرض سے نیکٹا کا ادارہ قائم کیا گیا تھا لیکن اس ادارے کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، اس کے تناظر میں اسے پاکستان کا مظلوم ترین ادارہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
آٹھویں محرک سے متعلق تو ہر کوئی جانتا ہے کہ میاں نوازشریف کی حکومت میں اس بیماری کا علاج تو کیا کیا جاتا، الٹا یہ بیماری مزید بڑھ گئی۔سی پیک جیسے پروجیکٹ جو محروم علاقوں کی محرومیاں کم کرنے کا ذریعہ ہوسکتے تھے، کو ان علاقوں کی محرومیوں میں اضافے کا محرک بنا دیا گیا۔ اسی طرح محروم طبقات کی محرومیاں بھی روز بروز بڑھ رہی ہیں۔
پاکستان میں دولت توبڑھ گئی لیکن وہ دولت مخصوص علاقوں اور مخصوص طبقات کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ غریب افراد حد سے زیادہ غریب اور امیر، حد سے زیادہ امیر ہوتے جارہے ہیں۔
اب جبکہ کسی روٹ کاز (Root Cause) کی طرف توجہ نہیں دی جارہی اور دہشت گردی کے بنیادی محرکات کا کوئی سد باب نہیں کیا جارہا تو نہ جانے کیسے لوگ مطمئن ہوکر یہ نعرہ بلند کردیتے ہیں کہ دہشت گردی کا مسئلہ حل ہونے کو ہے۔ اورجب ہمارا یہ رویہ ہے تو کس بنیاد پر ہم یہ خواب دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کا مستقبل محفوظ ہے۔شاخوں کو کاٹ کر تنے اور جڑ کو مضبوط رکھنے سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ درخت کا وجود ختم ہوجائے گا تو اس کی مرضی۔ مجھ سے تو یہ حماقت ہوسکتی ہے اور نہ اس طرح کے جھوٹے خواب دکھا سکتا ہوں۔مجھے تو اب بھی اپنے کوئٹہ اور پشاور تباہ حال جبکہ لاہور اور اسلام آباد غیرمحفوظ نظر آتے ہیں۔میرے نزدیک تو پاکستان کو محفوظ بنانے کے لئے مذکورہ سب عوامل کی طرف توجہ دینا ہوگی نہیں توعارضی وقفے آئیں گے لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔

.