لاہور بم دھماکہ اور بیرونی مداخلت!

February 17, 2017

پاکستان کے دل لاہور کی اہم اور مصروف شاہراہ مال روڈ پر بم دھماکے سے پوری پاکستانی قوم ابھی تک سوگوار دکھائی دے رہی ہے۔ اس افسوس ناک واقعہ میں ڈی آئی جی ٹریفک احمد مبین اور ایس ایس پی زاہد محمود سمیت 13افراد لقمہ اجل بن گئے۔ سانحہ لاہور انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشتگردی کو جڑ سے ختم کرنے کا عزم کیا ہے۔یہ ایک اچھی بات ہے لیکن اس کے لئے حکومت کو تمام دینی وسیاسی جماعتوں کواعتماد میں لے کر سنجیدہ عملی اقدامات کرنا ہوں گےتب ہی ہم دہشتگردی کے عفریت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ واقفان حال کاکہنا ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی آچکی ہے۔اب پاکستان مخالف بیرونی قوتوں نے ایک بار پھر دہشتگردی کابازار گرم کرنے کی منظم سازش کی ہے۔ 13 فروری کوپیر کے روز لاہور میں شام 6بج کر10منٹ پر مال روڈ پر بم دھماکہ کیا گیا۔ اُسی روز کوئٹہ میں فائرنگ کے نتیجے میں2پولیس اہلکار وں کونشانہ بنایاگیااور کچھ ہی دیر کے بعد بھمبھر سیکٹرمیں بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر گولہ باری کرکے تین پاکستانی فوجیوں کوشہید کردیا۔ اگر ان تینوں واقعات کاگہرائی سے جائزہ لیاجائے تو صاف ظاہر ہوتاہے کہ بھارت اب پاکستان کے خلاف کھل کر سامنے آچکا ہے۔امرواقعہ یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت نہیں چاہتے کہ پاکستان میں سی پیک کاعظیم منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکے۔اس لئے ہمیں اب دہشتگردی کی نئی لہر کاسامنا کرناپڑرہا ہے۔سانحہ لاہور کے بعد پشاور میں ججوں کی گاڑی اور فاٹا میں سیکورٹی اہلکاروں پر حملوں میں بھی8افراد شہید ہوچکے ہیں۔ واقفان حال کامزیدکہنا ہے کہ پی ایس ایل کا فائنل بھی لاہور میں ہونے والاہےاس لئے مال روڈ پر دھماکہ کرا کر پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کاراستہ روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔پاکستان سپرلیگ کافائنل لاہور میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ آئندہ غیر ملکی کرکٹ ٹیمیں بھی پاکستان آسکیں۔ ماضی میں سری لنکن ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ پاکستان میں نہیں ہورہی تھی۔ پاکستانی کرکٹ صرف متحدہ عرب امارات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔اب ہمارے دشمنوں نے لاہور پر ایک اور وار کیا ہے۔پاکستانی قوم دہشتگردی کے خلاف یک آواز ہوچکی ہے۔ اب انشاء اللہ ملک دشمن بیرونی قوتوں کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ پی ایس ایل کافائنل لاہور میں ہی ہوگا اور ہم کھلاڑیوں کومکمل سیکورٹی فراہم کریں گے۔ پاکستان اس وقت چاروں طرف سے خطرات میں گھراہوا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے تازہ ترین سیکورٹی الرٹ جاری کیا ہے کہ سی پیک پر حملے کاخطرہ ہے۔ دہشتگرد عناصر سی پیک منصوبوں پر حملہ کرسکتے ہیں۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ پاکستان میں امن کن قوتوں کوکھٹکتا ہے؟ اور دہشتگردی کے تانے بانے کہاں جاملتے ہیں؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ہندوستان ہماراازلی دشمن ہے اور اُس نے کبھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی ڈھاکہ میں اعتراف کرچکے ہیں کہ انڈیا نے مشرقی پاکستان کو توڑاتھا۔ اس وقت بھی نریندرمودی اور ان کے وزراء کھلے عام پاکستان توڑنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس منظر نامے میں پاکستان کے اُن لبرل اور بھارت نوازدانشوروں کی عقل پر ماتم کیاجاسکتا ہے جو بھارت کو پاکستان کا دوست سمجھتے ہیں اور اُس سے یکطرفہ طور پر تعلقات بڑھانے کی بات کرتے ہیں۔ ہندوستان پاکستان کو ترقی کرتادیکھنا نہیں چاہتا۔ابھی چند ماہ قبل بلوچستان سے انڈین ایجنٹ کل بھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا۔اسلام آباد میں بھارتی سفارتکاروں کو ناپسندیدہ سرگرمیوں کی وجہ سے ملک بدرکیا گیا۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی ہندوستان نہتے کشمیریوں پر ریاستی مظالم ڈھارہا ہے۔ان حالات میں پاکستان سے بھارت کے تعلقات میں بہتری اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک وہ اپنے طرز عمل کوتبدیل نہیں کرتا۔پاک چین اقتصادی راہداری پورے خطے کی ترقی وخوشحالی کا منصوبہ ہے۔ روس، ایران، اومان، ترکی، جرمنی نے اس میں شراکت داری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ سعودی عرب بھی اس میں خصوصی دلچسپی لے رہا ہے۔ افغانستان کو سی پیک اہمیت کااندازہ ہے اور دکھائی دے رہا ہے کہ افغانستان بھی جلد پاکستان کے ساتھ مل کر اس کے ثمرات سے فائدہ اٹھائے گا۔ اب ہمسایہ ممالک میں بھارت ہی باقی رہ گیا ہے جو اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بلاجواز اس کی مخالفت کررہا ہے۔ بھارت نے پہلے چین کے ساتھ اپنے تحفظات کااظہارکیا ۔اب وہ امریکہ کو ساتھ ملا کر اقتصادی راہداری کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے مگر اُسے سوائے ہزیمت کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے اپنے تمام ترہتھکنڈوں میں ناکام ہوکربالآخر پاکستان میں دہشتگردی دوبارہ شروع کروادی ہے۔ پاکستان نے اقوام متحدہ اور امریکی حکام کو بھی پاکستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پیش کیے تھے۔ افسوس کہ ابھی تک اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے پاکستان میں بھارتی ریشہ دوانیوں کانوٹس نہیں لیااور نہ ہی امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے ہندوستان پر دبائو ڈالا گیا ہے۔
دہشت گردی صرف پاکستان کامسئلہ نہیں ہے بلکہ عالمی مسئلہ ہے۔ بلجیم، فرانس، ترکی، مشرق وسطیٰ ہرجگہ امریکہ اوریورپ کی سرپرستی میں دہشت گردی ہورہی ہے۔ خود امریکہ میں بھی پُرتشدد و اقعات ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسی تناظر میں ایران کے سرکاری ٹی وی کے لائیو ٹاک شومیں لاہور بم دھماکے اور دہشت گردی کے موضوع پر مجھے شرکت کاموقع ملا ہے۔میں نے عرض کیا کہ امریکہ اور بھارت دونوں ایشیاکی ترقی کاراستہ روکنا چاہتے ہیں۔چونکہ اقتصادی راہداری ایک عظیم منصوبہ ہے اور اس سے ایشیا کی ترقی کا دروازہ کھلے گا۔ اس لئے امریکہ بھارت کی سرپرستی کررہا ہے اور وہ اُس کے ذریعے خطے میں بدامنی پھیلا کر سی پیک کے منصوبے کوناکام کرنا چاہتا ہے۔ میں نے پروگرام میں مزید عرض کیا کہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کے علاوہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ بھی بڑا اہم ہے۔ ایران اپنے حصے کا کام مکمل کرچکا ہے۔ اب پاکستان نے اپنے علاقے میں گیس پائپ لائن بچھانی ہے۔ امریکہ اور بھارت دونوں جانتے ہیں کہ اگر اکنامک کاریڈور اور گیس پائپ لائن منصوبے مکمل ہوگئے تو پاکستان کو چین کے ساتھ ایشیا کی ترقی کے عمل میں مرکزی اہمیت حاصل ہوجائے گی۔قصہ مختصر یہ ہے کہ اب پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کایہ امتحان ہے کہ وہ اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کریں اور ملکی وقومی مفاد میں ایسی پالیسیاں تشکیل دی جائیں کہ جن سے پاکستان کوآگے بڑھنے میں مددمل سکے۔سی پیک اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے ہمارے لئے خاصے اہم ہیںاور ان پر ہمارے مستقبل کی ترقی کادارومدار بھی ہے۔ہمیں اس وقت بڑی حکمت ودانائی کے ساتھ اپنے قدم اٹھانے ہوں گے۔کچھ بیرونی قوتیں ہمیں اپنے اصل اہداف سے ہٹاکر نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔لاہور اورملک کے دیگر حصوں میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات بھی اسی کا شاخسانہ ہیں۔ پاکستان کو اندرونی مسائل میں الجھائے رکھنا ہمارے چالاک اورمکار دشمن کاایجنڈا ہے۔کراچی، بلوچستان اور فاٹا میں آپریشن کے خاطرخواہ نتائج نکلے ہیں۔پنجاب میں بھی ایک طے شدہ ٹائم فریم میں محدود آپریشن کے ذریعے ملک دشمن بیرونی عناصر کاقلع قمع کیاجاسکتا ہے لیکن پنجاب میںطویل آپریشن نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ویسے بھی پنجاب کے کراچی اور بلوچستان جیسے حالات نہیں ہیں۔

.