تلخی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر

February 21, 2017

زندگی کے ہر شعبے میں لفظوں کے انتخاب پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ الفاظ کا حسن انتخاب سامعین کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے جبکہ تند خوئی اور تند روئی انسانوں کو انسانوں سے دور کردیتی ہے۔ لفظوں کے مناسب انتخاب کی ذمہ داری بنیادی طور پر قائدین پر عائد ہوتی ہے کیونکہ لوگ شعوری و لاشعوری طور پر اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے الفاظ اور لب و لہجے کو روزمرہ زندگی میں دوہراتے رہتے ہیں۔ ایک دو روز قبل ایک بڑی پارٹی کے قائد نے چوہدری نثار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’تم انسان بنو‘‘ اس مصرع طرح پر حکمران پارٹی کے نوجوان رکن اسمبلی اور ترجمان نے گرہ لگاتے ہوئے کہا کہ ’’تم انسان کے بچے بنو‘‘۔ سیاست و قیادت میں ہمارے لئے بانی پاکستان قابل تقلید نمونہ ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح نے کبھی اپنے بدترین مخالف کے بارے میں بھی کوئی نازیبا یا اخلاق سے گرا ہوا جملہ استعمال نہیں کیا تھا یہی طرز تکلم ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا بھی تھا۔ جہاں تک ہماری دینی سیاست کے قائدین کا تعلق ہے تو قیام پاکستان سے لے کر تقریباً 1970 ءکی دہائی کے آواخر تک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا مفتی محمود اور مولانا نورانی تینوں شخصیات ہمیشہ نہایت شستہ اور شائستہ لب و لہجے کے ساتھ گفتگو کرتی تھیں۔ 1950 کی دہائی میں سیاست دانوں کے مابین ہر وقت ٹھنی رہتی تھی لیکن کیا مجال کہ کبھی کسی نے دوسرے کے خلاف کو ئی اخلاقی و تہذیبی معیار سے گرا ہواجملہ یا لفظ استعمال کیا ہو۔ آج کے کہنہ مشن سیاست دان بالعموم اور نوجوان سیاست دان بالخصوص یہ سمجھتے ہیں کہ ٹی وی چینلز پر ان کی گفتگو جتنی تندوتیز اور گالی گلوچ سے لبریز ہوگی اتنی ہی ان کی ریٹنگ زیادہ ہوگی اور لوگ انہیں پسند کریں گے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں لوگ تہذیب و شائستگی سے گری ہوئی گفتگو کو ناپسند کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دان اپنے گریبان میں جھانکیں اور اپنے انداز گفتگو پر نظر ثانی کریں۔ اختلاف ضرورکریں مگراحترام باہمی اور شائستگی کی حدود پامال نہ کریں۔

.