ردِ فساد کےلئے اسبابِ فساد کا خاتمہ

March 08, 2017

یہ تو روزمرہ کا معمول ہے کہ کوئی آدمی اپنے گھر بیٹھ کر بھی اپنے آپ کو محفوظ خیال نہیں کرتا۔ ٹیلی وژن کی شریانوں سے لہو بہہ بہہ کر ڈرائنگ روم کے کارپٹ کا ستیاناس کردیتا ہے۔ ان ہلاکت خیزیوں کے اسباب کچھ بھی ہوں ایک چیز سےانکار نہیں کیا جاسکتا کہ کہیں کوئی بنیادی خرابی رہ گئی ہے،اس تہذیب کے قصر کی اساس میں کوئی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی گئی ہے کہ عمارت ثریا تک پہنچ گئی مگر اسکی کجی ہر دیکھنے والی آنکھ کو چبھ رہی ہے اوراس وقت ملک کی صورت حال یہ ہے کہ صرف سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت میں تمام سیاسی پارٹیاں کام کئے جا رہی ہیں اگرچہ اعتزاز احسن چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ؎
ایک طرف تھی جنتا ساری
ایک طرف چند گھرانے
ایک طرف تھے بھوکے ننگے
ایک طرف تھے قارون کے خزانے
ایک طرف تھیں مائیں بہنیں
ایک طرف تھے تحصیل اور تھانے۔
ایک طرف تھی تیسری دنیا
ایک طرف بیداد پرانے
ایک طرف تھے سچل اور باہو
اعتزاز احسن نے سلطان باہو کو یاد کیا ہے۔
ان کے نزدیک مساواتِ محمدیؐ ہی وہ واحد راستہ ہے جو دنیا کوامن اور آشتی کی جنت میں لے جاسکتا ہے لیکن افسوس کہ خود چارہ سازبیکساں پیغمبر انسانیتﷺ کے ماننے والوں نے صرف نماز اور روزہ کو دین سمجھ رکھا ہے۔ یہ ایک اہم موضوع ہے جس پر اس ملک کے اہل دانش و بینش کو غور کرنا ہو گا۔ مجھے یاد آرہا ہے ایک سفر کا واقعہ یہ ایک خوشگوار دن تھا، بادلوں کے ساتھ ساتھ دھوپ بھی نکلی ہوئی تھی کہیں ہلکی ہلکی بارش شروع ہو جاتی تھی اور کہیں بادلوں میں دھوپ کی پیوند کاری رنگ بکھیرنے لگتی تھی،قوسِ قزح ہمارے ساتھ بنتی اور بگڑتی جا رہی تھی ڈاکٹر افتخار احمد اور میں مانچسٹر واپس برمنگھم آنے کیلئے ایم سکس پر سفر کر رہے تھے۔ ہمارا موضوع عجیب و غریب سا تھا ہم دونوں یہ سوچتے تھے کہ انسان کہاں کھڑاہے، اشتراکیت ناکام ہوچکی تھی،سرمایہ دارانہ نظام کے عفریت نے انسانیت کا بند بند مضمحل کر دیا ہے اور وہ اسلامی نظام جسے ہم انسانیت کیلئے نجات دہندہ سمجھتے ہیں اسے چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج تک کسی نے نظام حکومت کے طور پر پیش نہیں کیا۔ اس بات کا تو شور ہر مسجد کے مینار سے سنائی دیا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ موجودہ دور میں اسے کس انداز میں رائج کیا جائے گا،اسلامی تعزیرات پر بھی بہت سے کتابیں موجود ہیں مگر لمحہ موجود میں انہیں کیسے نافذ کیا جاسکتا ہے اس پر کسی نے بحث نہیں کی،اسلامی حکومت کے ادارے کیسے ہوتے ہیں یہ کہیں نہیں لکھا گیا،اسلام میں فوج کی حیثیت کیا ہے اس پر کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم کےکارناموں پر ہی کتابیں لکھی گئیں، عدالتی نظام کیسا ہوگا؟، یہ سب کہتے ہیں کہ مذہب میں جاگیرداری حرام ہے مگرقانون ملکیت پرکھل کر کبھی کسی نے بات نہیں کی۔ مذہب میں زراعت کا نظام صحت عامہ کا نظام،تعلیم کا نظام، آبپاشی کا نظام کیا ہے،اسلامی معاشرہ کیسے تشکیل پاتا ہے اور یایہ کہ نظام صرف انہی ممالک میں نافذ ہو سکتا ہے جہاں مسلمان آباد ہیں یا غیرمسلم بھی اس نظام سے اپنی معاشرت کو خوبصورت بنا سکتے ہیں؟ یہ تمام سوال کسی کتاب کے متقاضی ہیں مگر ایسی کوئی کتاب موجود نہیں اور اس سلسلے میں کام کرنے والے ادارے نظریاتی کونسل میں بیٹھے ہوئے کچھ ارکان کو تو زنا اور ریپ کافرق معلوم نہیں اتنے بڑے سوالوں کے جواب وہ کیسے دیں گے۔
دوسری طرف جدید دنیاکے کارہائے نمایاں ہیں یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب سرمایہ دارانہ تہذیب نے اپنے چہرے پر نئی پلاسٹک سرجری کرائی تھی اور نئے خدو خال کے ساتھ تاریخ کی ا سکرین پر نمودار ہوئی تھی۔ اس کی گفتگو میں بڑے عظیم اور دانشورانہ دعو ے تھے۔ یقیناًوہ اس یقین کے ساتھ زیرو گرائونڈ پر آئی تھی کہ انسانیت کے تمام زخموں کی بینڈیج اس کے پاس ہے وہ ہر درد کی چارہ گری کرے گی۔ اس نے ہر کرب کی مسیحائی سیکھ لی ہے۔ وہ انسان کے سینے میں طمانیت بھر دے گی۔ پریشان حال ذہن کو امن وسکوں سے ہمکنار کر دیگی۔ دنیاکی خوبصورتی کواپنے خوبصورت تر عمل سے خوبصورت ترین بنادے گی۔ انسان کی اجتماعی سوچ نے گڈمارننگ کہتے ہوئے اس تہذیب سے مصافحہ کیا۔ بے شک اس تہذیب کے ماتھے پربے مثال مادی ترقی کی صبحیں درج تھیں اور اس کا اعلان تھا کہ عالمِ انسانی میں اب رات کی سپرمیسی ختم ہوجائے گی۔ اندھیرا کہیں نہیں رہیگا ہر طرف روشنی ہوگی، نور ہوگا اور انسان رو شنیوں کا سفر شروع کر یگا اور اس کے ہر قدم پر ایک کہکشاں ہوگی مگر ہم نے دیکھ لیا کہ اس تہذیب نے ایک ہی صدی میں انسانیت کو دو عالمی جنگوں کے دوزخ میں جھونک دیا، اس کے بعد بھی اسکا قہر ختم نہ ہوا اور آج تک کسی نہ کسی زمین پر جہنم کے شعلے انسانی آبادیوں کو راکھ کرتے چلے آرہے ہیں۔ درد کی یہ مسلسل فلم بڑی خوفناک ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی سے لے کر اب تک اس میں ایسے ایسے سین موجود ہیں جنہیں ایک بار بھی دیکھا نہیں جا سکتا۔
اس تہذیب نے بلا شبہ اْس سائنس کو بھی رواج دیا جس نے شہر جگمگا دئیے۔ فاصلوں کو کھینچ لیا۔ دنیا مٹھی میں سمیٹ دی۔ عمر میں اضافہ کیا۔ بیماریوں کے علاج دریافت کئے۔ انسان کو آسانیاں اور سہولتیں عطا کیں۔ مشینوں نے قوتِ کار میں بے پناہ اضافہ کیا زرعی پیداوار اور صنعتی پیداوار کے اضافے نے زمانہ بدل دیالیکن دوسری طرف اسی سائنس نے ہلاکت خیزیوں میں بھی بے پناہ اضافہ کیا۔ انتہائی خطرناک جنگی سامان بنا یا گیا، ہائیڈروجن بم اور ایٹم بم جیسی اندھی قوتوں کا رواج ہوا اور آدمی آدمی کے شکار میں بہت زیادہ بے باک ہوتا گیا۔
اکیسویں صدی کا آغاز بڑی روشن امیدوں کے ساتھ ہوا تھا انسان کا خواب تھا کہ اب بہت زیادہ حکمت و دانش آگئی ہے، قومیں تعلیم یافتہ ہوگئی ہیں پہلے کی سی جہالت اور ہوس گری کے مظاہرے نہیں ہونگے مگر اسکی ابتدا ہی بڑے خونی حادثات سے ہوئی دہشت گردی عام ہو گئی۔ پاکستان اس دہشت گردی کا خاص شکار بنا۔ ملک سے کرکٹ روٹھ گئی۔ فلم ختم ہو گئی۔ آرٹ مردہ ہوگیا۔ انسانیت کے نام لیوا اپنی جانیں بچانے کےلئے ہجرتیں کرنے لگے۔ موجودہ حکومت کسی حد تک کرکٹ کو تو واپس لانے میں کامیاب ہوئی مگر فلم اور آرٹ کی طرف کوئی زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ ایک وقت تھا جب ہر ضلع میں آرٹ کونسل اسٹیج ڈرامے کرایا کرتی تھی۔ موسیقی کی تقریبات ہوتی تھیں۔ لوگ کلاشنکوفیں ہاتھ میں نہیں قلم کان پر رکھ کر گھروں سے نکلتے تھے۔ بہرحال ملک کی بہتری جہاں ردِ فساد میں ہے۔ وہاں اسبابِ فساد کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔



.