نوشاد صاحب سے ادھوری ملاقات اور راگ بھیروی

March 08, 2017

یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب میں بحیثیت اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر ’’ناگ منی‘‘ کا بیک گرائونڈ میوزک کمپوز کروا رہا تھا اور نثار بزمی فلم کے میوزک ڈائریکٹر تھے، وہ صبح سے شام تک ناگ منی کے ایک ایک فریم پر اپنے فن کے جوہر دکھا رہے تھے، جب آدھی سے زیادہ فلم کا بیک گرائونڈ میوزک بن چکا تو اچانک ایک دن انہوں نے ایورنیو اسٹوڈیو کے تھیٹر ہال میں مجھ سے پوچھا۔
’’تمہارا پسندیدہ راگ کون سا ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’مجھے دو راگ بے حد پسند ہیں، ایک بھیروی او دوسرا پہاڑی‘‘۔
بزمی صاحب کا جواب مجھے آج بھی یاد ہے اور شاید کبھی بھول بھی نہ پائوں، کہنے لگے ’’تمہیں فلم ہدایتکار کے بجائے موسیقار ہونا چاہئے تھا‘‘۔
’’حقیقت میں یہ نثار بزمی صاحب کا بڑا پن، عظمت اور ان کی آنکھ کا حسن تھا جس نے مجھ جیسے موسیقی کی ابجد سے ناواقف شخص میں موسیقی کی جان پہچان دیکھ ڈالی۔
آج لگ بھگ پچاس (50) برس قبل کا یہ واقعہ مجھے اس لئے یاد آیا کہ حال ہی میں ریڈیو سے نشر ہونے والا نوشاد صاحب مرحوم کا ایک انٹرویو سننے کا موقع ملا، اس انٹرویو میں انہوں نے جن راگوں کی تعریف و توصیف کی تھی وہ یہی راگ بھیروی اور پہاڑی تھے۔
نوشاد صاحب سے میری ملاقات بہت کم رہی۔ پہلی ملاقات علی صدیقی مرحوم کی منعقد کی ہوئی اردو کانفرنس دہلی میں ہوئی۔ کانفرنس کے دوران علی صدیقی صاحب نے میرا تعارف نوشاد صاحب سے کروایا اور بتایا ’’یہ ہالینڈ میں رہتے ہیں‘‘۔
انہوں نے پوچھا ’’ہالینڈ تو پھولوں کا دیس ہے، وہاں آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
میں نے کہا ’’آوارہ گردی۔ اور اس آوارہ گردی کا کارن آپ ہیں‘‘۔
حیران ہوئے، مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے۔ ’’بھئی میں کیوں؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’دیکھئے… جب مسلمانوں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے نومولود کے کان میں اذان دی جاتی ہے، ہمارے ساتھ ’’حادثہ‘‘ یہ ہوا کہ اذان کے بجائے آپ کی موسیقی کی تان کان میں چلی گئی، بس پھر کیا تھا دین کے رہے نہ دنیا کے، یوں سمجھئے اسی دن سے آپ کے گرویدہ چلے آرہے ہیں…‘‘
میری بات سن کر نوشاد صاحب بہت خوش ہوئے، کہنے لگے ’’صاحب:آپ نے تو ہمیں فلک پر پہنچا دیا۔ ویسے جوانی میں آنکھیں اور کان دل کا ساتھ دیا کرتے ہیں اور آپ جوان ہیں‘‘۔
میں نے جواباً کہا۔ ’’ویسے سب لوگوں کا قد پائوں سے سر تک ناپا جاتا ہے مگر کچھ لوگوں کا پائوں سے آسمان تک‘‘… یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ کچھ دیر تک فلم و ادب اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد میں نے انہیں اپنا وزیٹنگ کارڈ پیش کرنا چاہا تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا۔ نہیں بھئی… آپ سے ابھی اتا پتہ نہیں لیں گے، آپ سے ہمیں پھر ملنا ہے‘‘… میں نے ان کے بڑے سے دل میں اپنا چھوٹا سا گھر بنالیا تھا۔
میری ان سے دوسری ملاقات بھی دہلی ہی میں ہوئی۔ اس ملاقات میں جہان بھر کے موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ جب میں نے اپنے پسندیدہ راگوں میں بھیروی اور پہاڑی کا نام لیا تو انہوں نے میری پسند کی تائید کرتے ہوئے کلاسیکی موسیقی کے علاوہ فلمی موسیقی کے بھی کئی حوالے دئیے۔ مجھے یاد آتا گیا کہ نوشاد صاحب نے اپنی زندگی کے بہترین نغمے راگ بھیروی میں پیش کئے۔ اور مجھے کیوں یہ راگ پسند ہے؟ آئیے اس سے آپ کو واقف کراتا ہوں۔
کہتے ہیں موسیقی کی دیوی کے آٹھ روپ ہیں ان میں سے ایک اچھوتا روپ بھیروی کہلاتا ہے۔ اس راگ نے میاں تان سین سے لے کر نوشاد علی تک سے خراج عقیدت وصول کیا ہے۔ اس راگ کو بھارت میں نوشاد اور شنکر جے کشن اور پاکستان میں نثار بزمی اور خواجہ خورشید انور نے اپنی انمول اور سحر انگیز دھنوں میں بکثرت استعمال کیا ہے۔ راگ بھیروی جہاں عوام میں نامور رہا وہاں خواص میں بھی مقبول ہے۔ بھیروی نہ صرف کامل راگ ہے بلکہ یہ سات سروں کی بجائے بارہ کومل سروں کے ساتھ ایک خوبصورت اور دل کو چھو لینے والا راگ بن گیا ہے کہ یہ راگ علی الصبح کا راگ ہے اس لئے اس میں روشنی، تازگی، نازکی، خوشبو اور باد صبا جیسی نفاست کی جھلک ہے۔
1946 میں لاہور بھاٹی گیٹ کے رہنے والے اے آر کاردار نے ’’شاہجہان‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی تھی اس کے موسیقار نوشاد تھے، اس کا ایک نغمہ جس کو نوشاد نے اپنی سحر انگیز موسیقی میں ترتیب دیا تھا اور کے ایل سہگل کی سدابہار آواز میں ہم تک پہنچا تھا، یہ نغمہ تھا ’’جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے‘‘۔
اس خوبصورت نغمے سے جو واقعہ وابستہ ہے وہ یوں ہے کہ یہ گیت خود سہگل کو اس قدر پسند تھا کہ انہوں نے مرنے سے قبل نوشاد سے وعدہ لیا تھا کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے جنازے پر نوشاد ان کے اس پسندیدہ گانے کی دھن ضرور بجائیں گے، چنانچہ سہگل کے جنازے پر نوشاد نے ’’جب دل ہی ٹوٹ گیا…‘‘ کی پردرد اور پرسوز دھن بجا کر اپنے عظیم گلوکار دوست کو خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کیا۔
اس کے بعد نوشاد نے لتا منگیشکر کو ’’دلاری‘‘ میں موقع دیا۔ انہوں نے پھر اسی راگ میں لتا سے اس فلم کے لئے یہ دل موہ لینے والا گیت ریکارڈ کروایا۔
’’اے دل تجھے قسم ہے تو ہمت نہ ہارنا
دن زندگی کے جیسے بھی گزرے گزارنا‘‘
میرے حساب سے لتا منگیشکر کی یہ لاجواب آواز پاک و ہند میں نوشاد کے اسی گیت کی وجہ سے پہنچی تھی۔ نوشاد نے فلم ’’بیجو باورا‘‘ کے تمام نغمے کسی نہ کسی راگ میں بنائے تھے اور یہ عمل محض راگ برائے راگ نہ تھا بلکہ نوشاد کی یہ شعوری کوشش تھی کہ ہر ایک نغمے کو ایک الگ الگ راگ میں پیش کیا جائے۔ بیجو باورا کا مشہور گانا۔
’’تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا‘‘
راگ بھیروی میں لتا منگیشکر اور محمد رفیع کی جوڑی نے گایا تھا۔ اسی طرح دلیپ کمار، نمی اور مدھو بالا کی فلم ’’امر‘‘ جس کی موسیقی اسی جادوگر نوشاد نے ترتیب دی تھی کا یہ ہمیشہ زندہ رہنے والا گیت۔
’’انصاف کا مندر ہے یہ بھگوان کا گھر ہے‘‘
محمد رفیع نے بھیروی میں گا کر اسے امر کردیا۔
نوشاد کے فن کا کمال صرف بھیروی تک ہی محدود نہیں تھا انہوں نے کلاسیکی موسیقی کے علاوہ پاپولر میوزک اور فوک سنگیت کو یکجا کردیا تھا۔ یہاں مجھے نوشاد کا کمپوز کیا ہوا ایک بھجن یاد آرہا ہے۔
’’من تڑپت ہری درشن کو آج…‘‘
کہتے ہیں یہ بھجن پنڈت نہرو کو بے حد پسند تھا۔ پنڈت جی مذہبی آدمی نہ تھے لیکن نوشاد کے اس بھجن کی کمپوزیشن پر فدا ہو جاتے تھے۔ جب نوشاد کی ’’بیجو باورا‘‘ ریلیز ہوئی اور فلم کی نمائش سے پہلے ہی اس کے گیتوں نے آسمان سر پر اٹھالیا تو بھارت کے صدر بابو راجندر پرشاد نے پنڈت جی کی ہمراہی میں بیجو
باورا دیکھنے کا پروگرام بنایا۔ طے ہوا کہ یہ فلم نوشاد صاحب کے جلو میں دیکھی جائے (واہ! کیا زمانے تھے) سو بابو راجندر پرشاد، پنڈت جواہر لال نہرو اور نوشاد علی تینوں نے اکٹھے فلم بیجو باورا دیکھی، جب محمد رفیع کی آواز میں بھارت بھوش نے یہ بھجن الاپا تو دونوں سیاست دانوں نے بے اختیار عظیم موسیقار کو گلے سے لگالیا۔



.