روشن خیالی؟؟؟

March 16, 2017

دنیا میں روشن خیالی کا سب سے بڑا منبع قرآن مجید ہے۔ یہ عظیم کتاب کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو اسی حد تک بدلتا ہے جتنا کہ وہ قوم خود اپنی حالت کو بدلتی ہے۔ زندگی اور موت کا فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن انسان بے بس نہیں ہے۔ محنت اور جدوجہد سے ایک انسان اپنا مستقبل خود بنا سکتا ہے اور ایک قوم بھی اپنے آپ کو بدل سکتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں قوموں کے عروج و زوال کے ضمن میں قدرت نے فیصلے کااختیار اپنے پاس نہیں رکھا بلکہ یہ اختیار انسان کو عطا کردیا ہے۔ انسان کو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب کوئی اپنے آپ کو بدل لیتا ہے تو اس کے حالات بھی بدل جاتے ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے لیکن مشیت ایزدی وہی ہے جسے قانون قدرت بھی کہا جاتا ہے۔ اچھے اعمال کا اچھا نتیجہ اور برے اعمال کا برا نتیجہ قرآن کا وعدہ ہے۔ قرآن نے واضح کردیا کہ دین میں جبر نہیں لیکن افسوس کہ آج کچھ مسلمان روشن خیالی کا تمغہ حاصل کرنے کے لئے قرآن کی بجائے کسی اور طرف دیکھ رہے ہیں۔ بحث یہ ہورہی ہے کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لئے بیانیے کی تشکیل حکومت کی ذمہ داری ہے یا علماء کی ہے؟ کیا قرآن مجید کی شکل میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ایک بیانیہ پہلے سے موجود نہیں؟ کیا اس بیانیے میں بے گناہوں کا خون بہانے کی ممانعت نہیں ہے؟ اگر اس بیانیے میں ایک بے گناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے تو پھر آپ کوئی اور بیانیہ تلاش کیوں کرتے ہیں؟ زیادہ دن نہیں گزرے جب سانحہ کوئٹہ کی انکوائری کرنے والے کمیشن کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں دہشت گردی کے مقابلے کے لئے قرآن مجید کو جوابی بیانیے کے طور پرپیش کیا لیکن افسوس کہ اس رپورٹ کے بہت سے روشن پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی بجائے حکومت نے اس رپورٹ کو کچھ تنازعات کی تاریکی میں دھکیل دیا۔ نیتوں کا حال تو اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے لیکن قول و فعل کا تضاد ہمارے لئے ایک لعنت بن چکی ہے۔ ہم اپنے مسلمان ہونے پر فخر تو کرتے ہیں لیکن قرآن مجید کو ریاست کا بیانیہ قرار دینے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ کچھ طاقتور لوگوں کے ذاتی مفادات قرآن کی تعلیمات سے متصادم ہیں۔ مثلاً قرآن نے ربوٰی کو حرام قرار دیا۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 38ایف میں وعدہ کیاگیا ہے کہ ربوٰی کو ختم کیا جائے گا لیکن جب کوئی عدالت ربوٰی کو ختم کرنے کا حکم دیتی ہے تو جمہوری حکومت بھی نظر ثانی کی اپیل دائر کردیتی ہے اور فوجی حکومت بھی نظر ثانی کی اپیل دائر کردیتی ہے حالانکہ ربوٰی کو برقرار رکھنا ناصرف قرآنی حکم بلکہ آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ میری اس گستاخی کو بنیاد پرستوں کی حمایت قرار دیا جائے گا لیکن عرض یہ ہے کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جو صرف قرآن ا ور آئین پاکستان کے مطابق نہیں بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات کے بھی عین مطابق ہے۔ قائد اعظم نے 1948میںا سٹیٹ بنک آپ پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بنکنگ کے نظام کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ مغرب کے اقتصادی نظام نے پوری انسانیت کو مسائل سے دو چار کردیا ہے، لہٰذا ہمیں اپنے اقتصادی مسائل حل کرنے کے لئے اسلام سے رہنمائی لینی چاہئے۔
کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہمارے کئی روشن خیال رہنما یہ تو کہتے ہیں کہ اسلام میں جبر نہیں اور کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جاسکتا لیکن جب عدالت کہتی ہے کہ ربوٰی ختم کرو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ کے مترادف ہے تو نظرثانی کی ا پیل دائر کردی جاتی ہے ،حالانکہ اب غیر مسلم ممالک میں غیر سودی کاروبار کرنے والے بنک فروغ پارہے ہیں۔ کہنا صرف یہ ہے کہ روشن خیالی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ قرآن کی ان تعلیمات کا حوالہ دیں جن میں غیر مسلموں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے۔ ان تعلیمات کا ذکر بھی کیا جائے جن میں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا ہے اور ربوٰیختم کرنے کا مقصد غریب لوگوں کو امیر لوگوں کے استحصال سے بچانا ہے۔ آئین و قانون کی بالا دستی کی بات کرنے والوں کو سب یاد رہتا ہے لیکن38ایف یاد نہیں رہتا۔ یاد بھی کیسے رہے کیونکہ یاد دلانا جن کی ذمہ داری ہے ان کے لئے فاٹا کو الگ صوبہ بنانا زیادہ اہم ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) مرکز میں مسلم لیگ(ن) کی اتحادی ہے۔ ہمیں انتظار ہے کہ یہ جماعت کبھی آئین کے آرٹیکل 38ایف کی طرف بھی ا پنے روشن خیال وزیر اعظم کی توجہ دلائے۔ یہ وزیر اعظم کا کمال ہے کہ انہوں نے مرکز میں جے یو آئی (ف) کو اپنا اتحادی بنا رکھا ہے۔ آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی ان کا دایاں بازو ہے اور بلوچستان میں محمود خان اچکزئی ان کا بایاں بازو بنے ہوئے ہیں۔ بہاریں پھول برسا رہی ہیں اور وہ بیک وقت فضل الرحمن اور اچکزئی کے محبوب بنے ہوئے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ پامانا کیس کا فیصلہ بھی ان کے حق میں آئے گا لیکن اصل فیصلہ تو دنیا کی عدالت میں نہیں کہیں اور ہونا ہے۔ دنیا کی عدالت میں بچت ہوسکتی ہے اصل عدالت میں کوئی بچت نہیں۔
دنیا کی عدالت سے تو حسین حقانی بھی بچ گئے تھے لیکن اب انہوں نے خود ہی اعتراف جرم کرلیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور سفارت میں ایسے اقدامات کئے جن کے نتیجے میں امریکہ کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں آسانی ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے فوری طور پر حسین حقانی کو غدار قرار دے کر اپنی جان چھڑا لی ہے لیکن یہ ناچیز اپنے قارئین کو یاد دلانا چاہتا ہے کہ جو حسین حقانی نے کیا وہی کچھ 1999میں بھی تو ہوا تھا۔ 30مئی 2000کو دی نیوز کے صفحہ اوّل پر نسیم زہرہ صاحبہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اگست 1999میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی طرف سے سی آئی اے کے 25اہلکاروں کو ویزے دئیے گئے جنہوں نے پاکستان آکر 50سابق کمانڈوز کو خصوصی تربیت دینی شروع کی تاکہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا جاسکے لیکن 12اکتوبر 1999کو نواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حسین حقانی سی آئی اے والوں کو ویزے دے تو غدار لیکن نواز شریف کے دور میں سی آئی اے کو ویزے ملیں تو روشن خیالی؟ سچ یہ ہے کہ دونوں نے غلط کیا۔ نواز شریف صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ناموس رسالت کے دشمنوں کی سرگرمیوں کے خلاف بیان دیا لیکن انہیں سوشل میڈیا پر مسلم لیگ(ن) کی طرف سے جاوید لطیف کے حق میں چلائی جانے والی مہم پر بھی غور کرنا چاہئے۔ مسلم لیگ(ن) ایک ایسے شخص کی حمایت کررہی ہے جس نے کسی کی دو معصوم بہنوں پر جھوٹا ا لزام لگایا، کیا یہ ہے آپ کی روشن خیالی؟

.