وزیراعظم میاں نوازشریف اورمحمد رفیع کے نام

March 18, 2017

وزیر اعظم میاں نوازشریف دیوالی کے موقع پر ہندوئوں کے ہاں گئے تو انہوں نے ان کاسواگت اس گیت سے کیا ’’بہاروپھول برسائو میرامحبوب آیا ہے‘‘۔ وزیر اعظم خوش مزاجی اوربذلہ سنجی کیلئے مشہور ہیں انہوں نے کہاکہ ’’آپ اگر دس سال پہلے اس گیت کو گانے کی فرمائش کرتے تو وہ اسے اس انداز سے گاتے کہ محمد رفیع اور ان میں فرق کرنا مشکل ہوتا‘‘۔ وزیراعظم کے جمالیاتی ذوق کی داد دینا پڑتی ہے، یہ گیت 1966 میں محمد رفیع نے اس وقت گایاتھاجب ان کی عمر لگ بھگ 42سال تھی۔ بھارتی فلم ’’سورج ‘‘ کے لئے یہ گیت حسرت جے پوری نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی شنکر جے کشن نے ترتیب دی تھی۔استادوں کا کہنا ہے کہ محمد رفیع یہ گیت گاتے ہوئے اپنے فنی عروج پر دکھائی دئیے ہیں۔وزیر اعظم نے محمد رفیع کے گائے جس گیت کاحوالہ دیاہے وہ ہر لحاظ سے داد کے قابل ہے ۔اس کی شاعری سے لے کر کمپوزیشن سب اعلیٰ ہیں ،یہ گیت راجندرکمار اور وجنتی مالا پر فلمایاگیاتھا۔وجنتی مالا اپنے وقت کی ڈانسنگ کوئین اور راجندرکمار کو بالی وڈ باکس آفس نے ’’جوبلی کمار‘‘ کانام دے رکھاتھا۔میاں نوازشریف سیاست کے ’’جوبلی کمار‘‘ ہیں جنہوں نے 2مرتبہ وزیر اعلیٰ اور 3مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوکر ورلڈریکارڈ قائم کیاہے۔
بزرگوار ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے کالم ’’صبح بخیر‘‘ میں لکھا ہے کہ میاں نوازشریف مقدر کے سکندر واقع ہوئے ہیں اگر فلمی گائیکی کے میدان میںآتے تو محمد رفیع کوپیچھے چھوڑ جاتے۔ڈاکٹر صاحب کی طرف سے میاں صاحب کے لئے اس قسم کی خوش خیالی کے لئے یہی کہاجاسکتاہے کہ وہ محمد رفیع کو انوررفیع یا زیادہ سے زیادہ ’’تانگے والہ خیر منگدا ‘‘فیم گلوکار مسعود راناسمجھ رہے ہیں۔محمد رفیع دنیا کے سب سے بڑے اورمنفرد پلے بیک سنگر ہیں جن کی صلاحیتوں کا موازنہ کسی دوسرے سنگر سے نہیں کرایا جاسکتا ہے۔ ویسے بھی ثقافت اور سیاست کے میدان میں کامیابیاں سمیٹنے کی تکنیک ایک سی نہیں ہوتی ۔ ڈاکٹر صفدر ایک مورخ ہیں میں انہیں یاد کراتاہوں کہ محمد رفیع اور میاں نوازشریف کی کامیابیوں کے سفر میں کون ان کے ہم سفر اور کون سہولت کار رہے۔ محمدرفیع کوموسیقار شیام سندر نے متعارف کرایا تھااورپھر نوشاد ،شنکر جے کشن ، کلیان جی آنند جی،مدن موہن، لکشمی کانت پیارے لال اوردوسرے موسیقاروں کی بنائی دھنیں گاتے ہوئے وہ اسٹار بن گئے۔دوسری طرف میاں نوازشریف کی سیاسی پرورش وپرداخت کرنے والوں میں جنرل غلا م جیلانی ،جنرل اختر عبدالرحمن، جنرل حمید گل،جنرل اسد درانی ، جنرل جاوید ناصر اور جنرل ضیاالحق شامل رہے۔محمد رفیع اپنے کیرئیر کے آغاز میں نوشاد ِاعظم کے کورس میں ایک جونیئر گلوکار کی حیثیت سے شامل رہے۔دوسری طرف میاں محمد نوازشریف کی انٹری جنرل ضیاالحق کے وسیع وعریض کورس میں ہوئی اورانہیں 1981میں مارشل لاحکومت کی طرف سے پہلی مرتبہ پنجاب کا وزیر خزانہ مقررکیاگیا۔میاں نوازشریف 1985کے غیر جماعتی الیکشن اور بعدازاں 1988کے انتخابات میں یکے بعد دیگرے دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے انہیں ایک مرتبہ عدالت اور دوسری مرتبہ آرمی چیف مشرف نے برخاست کیا۔میاں نوازشریف نے تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوکر ایک منفرد ریکارڈ قائم کیاہے اور اب وہ چوتھی باربھی وزیراعظم کے عہدے کے لئے فیورٹ سمجھے جارہے ہیں۔البتہ مقتدر حلقوں سے قربت کے دعویداروں کاکہناہے کہ شریف خاندان کا ستارہ پاکستان کے مستقبل کے سیاسی آسمان پر نہیں چمکے گا۔ 70ء کی دہائی میں جب محمد رفیع اپنے کیرئیر کے عروج پر تھے تو میوزک رائلٹی کے مسئلہ پر انہیں لتامنگیشکر اور بھارتی فلم انڈسٹری کے کرتادھرتوں کی طرف سے شدید مخالفت کاسامناکرناپڑاجس کے باعث وہ تین سال تک گھر بیٹھ گئے مگر انہوں نے موقف اختیارکیاکہ میوزک رائلٹی میں شاعر اور موسیقار کا حصہ گلوکار سے زیادہ ہوناچاہئے۔ ان دنوں پانامہ کیس میں قطری شہزادے کے خطوںکا بڑا تذکرہ ہواہے۔محمد رفیع نے بھی فلم ’’کنیادان‘‘ کے لئے حسرت جے پوری کا لکھا گیت گایاتھا۔شنکر جے کشن کی دھن اور محمد رفیع کی آواز نے اس گیت کو یادگار بنادیاتھا جو آج بھی ہمارے ناسٹلجیاکو مہکائے ہوئے اور شاید برموقع اور بر محل بھی ہے ’’لکھے جو خط تجھے وہ تیری یاد میں ،ہزاروں رنگ کے نظارے بن گئے ،سویرا جب ہوا تو پھول بن گئے ،رات آئی جو ستارے بن گئے ‘‘۔
میاں نوازشریف ،محمد رفیع کی طرح خوش مزاج اور خوش خوراک ہونے کے ساتھ ساتھ لاہوری بھی ہیں۔دونوں کا تعلق اندرون لاہور سے ہے ،محمدرفیع موہنی روڈ کے عقب میں واقع محلہ بلال گنج میں مقیم رہے اور نوازشریف کاتعلق گوالمنڈی سے ہے ۔محمد رفیع کے بارے میں مجھے ممبئی کے میرے دوستوں نے بتایاہے کہ وہ کھانے پینے کے بڑے شوقین تھے اور گھر آئے مہمان کی خاطر تواضع لاہوری انداز سے کیاکرتے تھے۔میاں برادران کے دستر خوان سے تناول ماحضر کرنے والے بھی بیان کرتے ہیں کہ اس کا سواد من وسلویٰ سے کم نہیں ہوتا۔میاں صاحب نے اپنی دوسری ٹرم میں دلیپ کمار صاحب کو پاکستان کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا تھا ۔جس کے باعث دلیپ صاحب کے دل میں ان کے لئے بڑا احترام بھی ہے۔محمد رفیع 1980 میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اگر وہ زندہ ہوتے تو یقینا میاں صاحب ان سے بھی اسی قسم کا حسن سلوک فرماتے۔میاں صاحب ،محمد رفیع کے سچے پرستار ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ کبھی کبھار وہ مکیش کے گائے گیت بھی گنگناتے رہے ہیں شرط یہ ہے کہ لتامنگیشکر کاحصہ کوئی ساتھی گنگنانے میں ان کی مدد کرے۔مکیش اور لتا کا گایاوہ دوگانا یاد کیجئے جو کچھ یوں ہے ’’جیت ہی جائیں گے ہم تم ،کھیل یہ ادھورا چھوٹے نا،پیار کا بندھن جنم کا بندھن ،جنم کا بندھن ٹوٹے نا‘‘۔میاں نوازشریف نے دیوالی کے موقع پرخوش دلی سے اپنے آپ کو محمدرفیع ثانی قراردیا ہے ،وہ بھارت کے ساتھ دوستانہ مراسم چاہتے ہیں جو ان کی طرف سے ایک منتخب وزیر اعظم کی دلی خواہش بھی ہے۔ یہ اسلئے بھی ضروری ہے کہ ایک منتخب حکومت جب تک خارجہ پالیسی میں آزاد نہ ہو وہ اپنی ترجیحات نافذ کرکے خاطر نتائج حاصل نہیں کرسکتی۔ میاں صاحب کا پسندیدہ گیت جو میکش اورلتا نے گایاتھا اس کا انترہ کچھ یوںہے ’’ملنے کی خوشی نہ ملنے کا غم ،ختم یہ جھگڑے ہوجائیں،تو تو نہ رہے میں میں نہ رہوں اک دوجے کے ہوجائیں‘‘۔میاں نوازشریف چیلنجزکا سامنا کرنے والے لیڈر ہیںانہیں چاہئے کہ وہ سب کچھ کردکھائیں جسے پاکستان کے عوام کے حق میں بہتر سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر صفدر محمود صاحب کی خدمت میں محمد رفیع کا گایاایک سدا بہار گیت حاضرہے جو بیان کرتاہے کہ ان کاموازنہ کسی دوسرے سے نہیں کرایاجاسکتا ’’یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں‘‘۔کیفی اعظمی نے انترے میں جو لکھا محمد رفیع کی آواز نے اسے مستقل بازگشت بنا دیا ’’کس کو سنائوں حال دل ِ بے قرار کا، بجھتاہوا چراغ ہوں اپنے مزار کا،اے کاش بھول جائوں مگر بھولتا نہیں ،کس دھوم سے اٹھا تھا جنازہ بہار کا ،یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں‘‘۔

.