بلوچستان کے طلبا اورای روزگار سینٹر

March 30, 2017

بلوچستان کے طلباسے مِلنا ہمیشہ ایک خوشگوار حیرت رہا ہے کیونکہ یہ وہ نسل ہے جو پرانی روایات کی امین بھی ہے اور جس کے خیالات میں وقت نے جدّت کے کئی سپنے بو رکھے ہیں ان سپنوں کی تعبیر کا اندازہ ان سے گفتگو کے ذریعے لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں بلوچستان سے کیڈٹ کالج مستونگ کے طلبا پنجاب حکومت کی دعوت پر لاہور تشریف لائے تو وزیراعلیٰ پنجاب نے اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی۔ جس میں وزیرتعلیم ہائر اور اسکول ایجوکیشن، سیکرٹری تعلیم و انفارمیشن، وی سی جی سی یونیورسٹی لاہور کے علاوہ مختلف محکمہ جات کے سربراہوں نے شرکت کی اور طلبا کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ اپنے محکمے کی طرف سے بلوچ طلبا کے حوالے سے کی جانے والی کاوشوں کا ذکر کیا۔ وزیراعلیٰ نے تفصیلی گفتگو کے دوران 23مارچ سے شروع کرکے پاکستان کے اغراض و مقاصد اور اس کے حالات کا محاسبہ کیا اور مختلف ادوار میں ہونے والی غلطیوںاور کوتاہیوں کا بطور ایک شہری اور سیاستدان نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس پر شرمندگی کا اظہار بھی کیا۔ یہ سچ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ریاست نے بلوچستان میں ہمیشہ سرداروں اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والوں کو اہمیت دے کر عام شہریوں کو نظرانداز کیا جس کی وجہ سے وہ دگرگوں حالات کا شکار ہوئے۔ تمام صوبے ریاست کے لئے ایک باپ کی اولاد کی طرح ہیں۔ اگر پنجاب آبادی کے حوالے سے بڑا ہے تو بلوچستان رقبے اور جغرافیائی لحاظ سے اہم اور بڑا صوبہ ہے۔ یوں دونوںصوبوںکے درمیان اشتراک کی کئی وجوہات ہیں باہمی محبت کے لئے اشتراک نہ بھی ہو تو محبت ازخودرابطوں کے بہت سے وسیلے تلاش کر لیتی ہے۔ ہم سب تنقید کرتے ہوئے اصل حالات و واقعات کو فراموش کر دیتے ہیں بہرحال بہت کچھ جاننے کا زغم مجھ سمیت بہت سے لوگوں کا ہوا ہوتا دکھائی دیا ۔ جب وزیراعلیٰ پنجاب نے محفل کو بتایا کہ پنجاب بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے 2010سے اپنے حصے کے گیارہ ارب روپے سالانہ دے رہا ہے اور محبت کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے یعنی اب تک 66 ارب روپے پنجاب اپنے بلوچ بھائیوں کو دے چکا ہے۔ صوبائی محبتوں کو بڑھانے کے لئے یہ ایثار ہے قربانی نہیں۔ دانش اسکول اور ڈویژنل پبلک اسکول میں سینکڑوں بلوچ طلبا کو داخلہ دیا گیا ہے اور ان کے اخراجات حکومت پنجاب برداشت کر رہی ہے۔ چین میں چینی زبان سیکھنے کے لئے بھجوائے گئے 200 طلباء میں بلوچستان کے طلبا بھی شامل ہیں اسی طرح اپریل میں 10 بچے گوادر سے بھی چین بھجوائے جا رہے ہیں۔ جی سی یونیورسٹی لاہور میں بلوچ طلبا کے لئے داخلے اور فیس کے حوالے سے خصوصی رعایت رکھی گئی ہے۔ علاوہ ازیں پیف بھی بلوچستان میں کئی منصوبوں پر عمل پیرا ہے لیکن جب بلوچ طلباکے سوالات شروع ہوئے تو حاضرین محفل کی حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ یہ دو انتہائوں کو چھو رہے تھے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ تبدیلی کا ذکر بہت سنتے رہتے ہیں مگر پنجاب کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ حکومت کس طرح اپنے صوبے کے لئے اخلاص سے کام کر رہی ہے۔ ایک طالب علم نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ بلوچستان کو وزیراعلیٰ پنجاب کی رہنمائی کی ضرورت ہے کاش وہ ہمارے وزیراعلیٰ ہوتے، مگر اسی دوران کچھ طالبعلموں نے چبھتے سوال بھی کئے ان کا موقف تھا کہ بلوچستان میں ہر نعمت موجود ہے گیس وہاں سے نکلتی ہے مگر وہاں کے عوام گیس اور دیگر بنیادی نعمتوں سے محروم ہیں۔ لاہور میں میٹرو بس ہے بلوچستان میں کیوں نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ وزیراعلیٰ نے تحمل سے چبھتے سوالوں کے جوابات دیئے اور کہا کہ صوبوں کو ان کا حصہ ملتا ہے۔ ایک طالب علم کا سوال تھا کہ سی پیک کا جھگی میں رہنے والے بلوچ کو کیا فائدہ ہو گا۔ نیز کیا وہاں پیدا ہونے والی بجلی بلوچستان میں استعمال کی جائے گی؟ جس کے جواب میں انہیں بتایا گیا کہ بجلی کسی بھی صوبے میں پیدا ہو وہ نیشنل گرڈ میں جاتی ہے اور صوبوں کو منتقل کی جاتی ہے۔ پنجاب میں مختلف منصوبوں سے پیدا ہونے والی بجلی بھی نیشنل گرڈ میں جائے گی۔ نیز سی پیک کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوں گے۔ جب بلوچستان میں معاشی ترقی ہو گی تو اس سے جھگی میں رہنے والا بلوچ بھی مستفید ہوگا۔ اس کے گھر تک بھی سڑک آئے گی جو اسے ترقی کی شاہراہ سے جوڑے گی۔ پنجاب کی ترقی کے حوالے سے دیگر صوبوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے کچھ خاص اقدامات کی ضرورت ہے۔ معاملہ یہ نہیں کہ پنجاب کو بہت زیادہ نوازا جا رہا ہے یا اس کے حصے سے بڑھ کر دیا جاتا ہے۔ یاد رہے سابقہ حکومت کے دوران پنجاب کو مرکز کی طرف سے شدید پریشانی کا سامنا رہا۔ اس کے باوجود یہاں ریکارڈ ترقیاتی منصوبے تکمیل کو پہنچے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے اپنی کاوشوں سے اپنے لئے وسائل کو ممکن بنایا۔ سرمایہ دار کمپنیوں سے معاہدے کیے اور ہر حوالے سے سوچ بچار کی مگر دیگر صوبوں کے حکمران لوگوں کی اپنی کوتاہیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے انہیں پنجاب کے خلاف محاذ آرائی پر اکسا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ہو نا تو یہ چاہئے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بہت سے اختیارات تفویض ہونے کے بعد وہاں کے عوام کو پنجاب پر تنقید کے بجائے اپنے صوبائی رہنمائوں سے سوال کرنا چاہئے کہ ان کی کارکردگی کیا ہے۔ وہ پنجاب کی طرح ڈیلیور کیوں نہیں کرتے ۔ ڈاکٹر نظام الدین کی یہ صلاح بالکل جائز ہے کہ پنجاب بلوچستان کے لئے جو کام کر رہا ہے اس کے لئے ایک سیل بنا دیا جائے جو پروگراموں کو مانیٹر بھی کرے اور عوام تک اصل صورتحال بھی پہنچائے۔ بہرحال پنجاب بڑے پن کا مظاہرہ کرتا رہا ہے کیونکہ وہ تنقید کے بجائے تعمیر پر یقین رکھتا ہے۔ بھلے اس کے بارے میں مختلف آرا رکھی جائیں وہ اخوت اور محبت کے راستے پر آگے بڑھتا رہے گا۔ خدا کرے یہی جذبہ دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور عوام میں بھی پیدا ہو اور وہ بھی بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اپنی اپنی سطح پر کاوشیں کریں۔
پاکستان میں ہر سال گریجویشن کرنے والے لاکھوں طالبعلم ملازمت اور روزگار کے وسیلے ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ انھیں مایوس نہ ہونے دے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کے لئے نت نئے مواقع فراہم کرے۔ زیادہ آبادی والا صوبہ پنجاب گزشتہ کئی سالوں سے بے روزگاری کے مسائل سے نبرد آزما ہے کیونکہ تمام لوگوں کو سرکاری ملازمتیں مہیا کرنا کسی بھی حکومت کے بس کا کام نہیں۔ پھر بہت سے لوگ خود روزگار شروع کرنے سے گھبراتے ہیں لیکن اگر انھیں رہنمائی میسر ہو اور نقصان کا اندیشہ نہ ہو تو بہترین نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے پنجاب حکومت نے ای روزگار اسکیم کا آغاز کیا ہے۔ پنجاب کے تمام اضلاع میں 40ای روزگار سینٹر قائم کئے جہاں ٹیکنیکل رہنمائی موجود ہے۔ یہاں سے ٹریننگ کے بعد یہ طلبا فری لانسر کے ذریعے نہ صرف اپنی گزر اوقات کو ممکن بنائیں گے بلکہ دیگر لوگوں کے لئے بھی وسیلہ بنیں گے۔ یہ ایسا روز گار ہے جس میں سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں یعنی رقم ڈوبنے یا ہیرا پھیری کا کوئی جواز ممکن نہیں اس لئے ہر طالبعلم اور نوجوان کی دسترس میں ہے وہ صرف اپنی ذہانت کے بل بوتے پر لاکھوں روپیہ کما سکتا ہے۔ یہ ایک مثبت رویہ ہے جو نئی نسل کی باوقار زندگی سے مشروط ہے۔



.