کراچی آپریشن: توجہ طلب سوالات

April 01, 2017

کراچی تین سال پہلے تک جس بدامنی، لاقانونیت، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے ، گینگ واراور اغواء برائے تاوان جیسے سنگین جرائم کا گڑھ بنا ہوا تھا ،ان کے خلاف رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں بلاشبہ آج اس کیفیت میں نمایاں بہتری آچکی ہے۔تاہم اس عمل کے دوران سامنے آنے والے بھاری کرپشن اور دیگر جرائم کے متعدد بڑے بڑے معاملات میں جس طرح پسپائی کا رویہ اختیار کیا جارہاہے ، وہ لوگوں کے ذہنوں میں سوالات اٹھانے کا سبب بن رہا ہے۔ ایک اخباری تجزیے کے مطابق ڈاکٹر عاصم حسین کی تمام مقدمات میں ضمانت، انور مجید کیس، پانچ ارب کی کرپشن کے ذمہ دار قرار دیے جانے والے شرجیل میمن کی وطن واپسی،عزیر بلوچ کے معاملے میں خاموشی،نثار مورائی اور منظور کاکا کے انجام کی بے یقینی،عزیز آباد سے اسلحہ کی بہت بڑی کھیپ پکڑے جانے کا معمہ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر سے سولہ ہزار فائلوں کا لاپتہ ہونااور ایسے ہی کئی اہم معاملات انجام کو نہیں پہنچے۔ گزشتہ تین سال میں سولہ ہزار افراد گرفتار ہوئے جن میں سے سات ہزار اب تک زیر حراست ہیں لیکن بیشتر مقدمات کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں جبکہ اکثر مقدمات میں استغاثے نے پیروی ہی نہیں کی جس کے باعث ملزمان کی ضمانت پر رہائی کا سلسلہ جاری ہے اور اسے بریت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ان تفصیلات سے واضح ہے کہ کراچی آپریشن کے مقاصد کے پوری طرح حاصل کیے جانے کے امکان کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ سنگین جرائم کے جو کئی بڑے معاملات نہایت بلند بانگ دعووں کے ساتھ سامنے لائے گئے تھے، استغاثہ ان کی پیروی میں کیوں ناکام رہا ۔ اس پسپائی کے نتیجے میں عوام یقیناًبے اعتمادی اور بددلی کا شکار ہوں گے جبکہ جرائم پیشہ عناصر کے لیے یہ صورت حال نہایت حوصلہ افزاء ہوگی۔لہٰذا کراچی آپرپشن کو بدانجامی سے بچانے اور اس کے مثبت نتائج کو مستحکم کرنے کے لیے تمام ممکنہ تدابیر لازماًاختیار کی جانی چاہئیں ۔

.