مرے مولا مجھے صاحب ’’خر د‘‘ کر

April 02, 2017

پنجاب یونیورسٹی میں طلبا کے دو گروہوں کے درمیان ہونے والے تصادم کے بعد انتظامیہ نے جو انکوائری کروائی ہے اس کی ابتدائی رپورٹ میں ایک ضابطہ اخلاق کی سفارش کی گئی ہے جس کے مطابق ’’داخلے کے وقت بچے کے والدین ایک بیان حلفی جمع کروائیں گے کہ ان کا بچہ دوران تعلیم کسی نوع کی سیاسی یا لسانی سرگرمی میں ملوث نہیں ہو گا۔ طلبا کی جانب سے ہر قسم کے نعروں پر پابندی ہوگی، ہاسٹلز میں مہمانوں کے داخلے پر پابندی ہوگی، یونیورسٹی میں سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات کے داخلے پر بھی پابندی ہوگی‘‘ (جو اگرچہ ناممکن ہے)یہ بھی کہا گیا ہے کہ’’اس افسوسناک واقعہ اور مابعد کشیدگی میں یونیورسٹی انتظامیہ کی ناقص منصوبہ بندی اور فرائض سے چشم پوشی بھی کار فرما ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ حملے میں پہل ایک طلبہ تنظیم نے کی تھی اور یہ کہ کلچر ڈے کے موقع پر پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ لائوڈ اسپیکر کی اجازت نہ دیتی یا اس کے استعمال کو روک لیتی تو طلبا تنظیموں میں جھگڑا اور تصادم جنم نہ لیتا جبکہ یونیورسٹی ماحول کو سازگار نہ بنانے میں یونیورسٹی کے سابق سربراہوں اور موجودہ پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں‘‘۔
رپورٹ کے مطابق’’اس آگ نے37 سال قبل اس وقت جنم لیا جب ایک مذہبی طلبہ تنظیم نے 1983میں ایف ایس ایف اور دیگر طلبا تنظیموں کو یونیورسٹی سے آئوٹ کیا اور اپنا سکہ قائم کر لیا جو اب تک قائم ہے۔ گزشتہ 23سالوں کے دوران پنجاب یونیورسٹی میں لڑائی جھگڑوں کے 6110واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں 110واقعات میں پولیس حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حرکت میں آنا پڑا۔ ان واقعات میں 22طلبا اور راہگیر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن طلبا تنظیموں کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی گئی جبکہ یونیورسٹی میں بیرونی عناصر کا بھی کافی اثر ورسوخ پایا جاتا رہا ہے جس پر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یونیورسٹی ہاسٹلز میں متعدد بار سرچ آپریشن کرنے پڑے جن کے دوران کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے 30سے زائد ملزمان پکڑے گئے۔ جمعیت طلبا تنظیم اور پختون طلبا کے درمیان درجن سے زائد تصادم کے واقعات ہو چکے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا ایک گروپ یونیورسٹی کے ماحول کو سازگار نہیں دیکھنا چاہتا ......‘‘
اپنے دیگر بہت سے ساتھیوں کی طرح ناچیز درویش کی بھی بہت سی یادیں اس مادر علمی کے ساتھ وابستہ ہیں کیونکہGCسے گریجویشن کرنے کے بعد ایم اے ایل ایل بی کے لئے ادھر کا رخ کیا تھا۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی مناسب ہوگا کہ ناچیز اس زمانے میںجمعیت کا پرجوش اور متحرک کارکن تھا۔ میاں طفیل محمد اور سید اسعد گیلانی صاحب کے اپنے نام تحریر کردہ بہت سے خطوط بھی محفوظ ہیں۔ جمعیت اور جماعت کی شخصیات کے ساتھ ہونے والی گفتگوئیں بھی ناچیز کے پاس بطور یادگار اثاثہ محفوظ ہیں جو کبھی ضرور اپنے قارئین کی نذر کی جائیں گی۔
ان تعارفی کلمات کے بعد عرض ہے کہ آج ناچیز اپنی اس عظیمت، جدوجہد، خدمت یا کاوش پر بہت نادم دکھی اور دل گرفتہ ہے۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ تحریکی علما و اہل دانش سے آگے آسماں اور بھی ہیں۔ بس اسی مطالعہ کی عادت سے آنکھیں کھل گئیں یا پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ آج اپنے تمام تحریکی دوستوں اور ساتھیوں کی خدمت میں استدعا کرتا ہوں کہ وہ نوجوانوں کی زندگیوں کا کھلواڑ کرنے سے احتراز کریں۔ آج ہماری قوم کو جذبہ جنون کی نہیں۔ فہم و ادراک اور گہرے تدبر و شعور کی ضرورت ہے سو اقبال سے معذرت کے ساتھ عرض ہے۔
جنوں کے طوفاں اٹھا چلا میں
مرے مولا مجھے صاحب ’’خرد‘‘ کر
یہ جو کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں ان بیچاریوں نے کیا کرنا ہے۔ کس کو نہیں پتہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں کئی دہائیوں سے تشدد کی جو اپروچ پروان چڑھی ہے اس کا منبع یا سورس کہاں سے پھوٹتا ہے؟
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
تمام طلبہ تنظیموں کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اب بس کر دیں۔ جبر اور دہشت کی سیاست یا پالیسی ترک کرتے ہوئے جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنا لیں۔ عصر حاضر اسلام کے سافٹ امیج کا طلبگار ہے۔ عصر کی اہمیت سورہ العصر سے سمجھیں۔
21مارچ کو یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا اس کی تمام رپورٹس ہمارے میڈیا میں موجود ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ پختون طلبا نے اپنے کلچر ڈے کو منانے کے لئے باقاعدہ تحریری اجازت لے رکھی تھی جبکہ تنظیم کو بھلا ایسے کسی اجازت نامے کی کیا محتاجی تھی۔ جب ایک تنظیم کے لوگوں نے اجازت لے کر اپنا پروگرام رکھا تھا تو انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ تنظیم کے بھائیوں کو اس سے روکتے۔ یوں ہمارے یہ نونہال زخمی ہوتے نہ یونیورسٹی کا تقدس پامال ہوتا۔ یہ کوئی جواز ہے کہ لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر دھاوا بول دیا جائے اگر پختون بچے اپنا روایتی رقص کر رہے تھے تو یہ اُن کے پختون کلچر کا حصہ ہے۔ یہ اظہار خیال بلوچ صاحب جیسے متوازن اور وسیع المجرب انسان کی شخصیت کے شایان شان نہیں ہے۔
بادشاہ خان جیسے عدم تشدد کے عظیم علمبردار کی محبت سے سرشار یہ بچے تو ہم پنجابیوں کے بڑےقابل احترام مہمان ہیں۔ کوئی باشعور پنچابی اپنے مہمانوں کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ اگر تعلیم کے لئے یہاں آئے ہیں تو ہمیں ان سب کی چاہے وہ پختون ہیں یا بلوچ یا سندھی دلجوئی کرنی چاہئے۔ انہیں یہ احساس دلانا چاہئے کہ یہ خطہ آپ کا اپنا خطہ ہے۔ آپ کا اپنا گھر ہے۔ آپ کا اپنا پاکستان ہے جو ہم سب کا پیارا وطن ہے۔ یہاں کسی کے ساتھ نسلی لسانی یا مذہبی بنیادوں پر قطعی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔



.