ہر طرف ہے رسوائی

April 04, 2017

رسوائیوں کا سفر جاری ہے۔ فی الحال معاملہ قطری سے پتھری تک پہنچا ہے۔ اگر ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کی تازہ مثالوں کو دیکھا جائے تو پھرمعاملہ کھتری سے عطری بن جائے گا۔ پھر میڈیا کوبتایا جائے گا کہ دیکھا ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ یہ سب الزامات ہیں۔ اب تو ہم عطر سے نہا کر آئے ہیں۔ مگر یہ تازہ بیان آنے سے پہلے ایک مرحلہ بڑا مشکل ہے کہیں سے عطر نہیں مل رہا۔ جو عطر، قطر سے آیا تھا اسے کوئی عطر ماننے کو تیار نہیں بلکہ عوامی رائے تو یہ ہے کہ وہاں سے آنے والی تمام چیزیں ہی گدلی ہیں۔ ہمارے لوگوں کو کون سمجھائے کہ ریگستانوں سے گزرتے وقت ’’چہرہ‘‘ صاف نہیں رہتا، باقی سامان کہاں شفاف رہ سکتا ہے۔ ایک خط بھی رسوائی، حقائق نامہ بھی رسوائی، قطری بھی رسوائی، حقانی بھی رسوائی۔
پاکستانی سیاستدانوں کی کرپشن کی مسافت میں قطری خط اور حقانی مضمون بڑے مشہور ہوئے ہیں۔ ویسے تو حج اسکینڈل اور ایفیڈرین کو بھی شہرت ملی تھی مگر اس سار ےکھیل میں ’’مک مکا‘‘ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ وہ واشنگ مشین ہے جس میں سب مال دھویا جاتا ہے۔ اس میں ہنڈی، منی لانڈرنگ، ایفیڈرین، لیدر اور قرضے شرضے سب دھل جاتے ہیں۔ اس دھلائی کے بعد پاکبازی کا چرچا کیاجاتاہے۔ مک مکا کی جادوگری کے باعث سب سےپہلے ’’دختر ملت‘‘ ایان علی کی تمام رکاوٹیں دور کی گئیں، پیشیوں پر بننے والی تصاویر تو شہرت کے لئے بنائی گئی تھیں۔ اس کے بعد تھوڑی سی رسوائی (وہ بھی رات کے اندھیرے میں) برداشت کرنے کےبعد شرجیل میمن کو ’’فخر سندھ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا۔ سندھ کی دھرتی کے اس ’’قابل فخر سپوت‘‘کے اعلیٰ کارناموں پر اسے حیدرآباد میں سونےکا تاج پہنایا گیا۔ شرجیل انعام میمن کاماضی کیا تھا۔ اسے نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ اس نے یہ مقام بڑی محنت سے حاصل کیاہے۔ پچھلا ڈیڑھ سال اس نے بیماری کے باعث ملک سےباہر گزارا۔ لندن کی ایک پاکیزہ عمارت سے نکلتے وقت ایک ’’بدتمیز‘‘نےاس کا ایک ویڈیوکلپ بناکر پوری قوم کو نذر کردیا تھا حالانکہ وہ وہاں ’’دوائی‘‘ پینےگئے تھے۔ وہ دوائی گھر میں بھی پی سکتے تھے مگرانہوں نے اپنی صحت کے لئے بہتر سمجھا کہ انہیں ’’اسپتال‘‘جا کر ہی دوائی پینی چاہئے۔ مبارک ہو، حامد سعید کاظمی کو بھی رہائی مل گئی ہے۔ ہوسکتا ہے اگلی حکومت میں انہیں کوئی اضافی ٹائٹل بھی دے دیاجائے۔ انہوں نے اپنی محنت سےثابت کیا ہے کہ وہ اس کے مستحق ہیں اور مستحقین کو ان کا حق ملنا چاہئے۔ حکیم الامت کا خطاب علامہ اقبالؒ کو مل چکا ہے ورنہ پیپلزپارٹی یہ خطاب بھی دے سکتی تھی۔ اب ڈاکٹر عاصم کو’’طبیب امت‘‘ ہی کہاجاسکتا ہے۔ انہوں نےپی ایم ڈی سی کو بہت ’’سنوارا‘‘ جس کی وجہ سے ان کی صحت خراب ہوگئی تھی۔ انہیں آرام کی سخت ضرورت تھی۔ اس ضرورت کے پیش نظر انہیں کچھ عرصے کے لئے محض آرام کی غرض سے گھرسے دور رکھاگیا تھا۔ ان کے کارنامے گنوانے کے لئےیہ کالم ناکافی ہے۔ اس نیک کام کے لئے کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن آج کل کتابوں کے چکر میں کون پڑے، نام ہی کافی ہے۔
پاکستانی سیاست میں کئی نمونے پیش کئے جاسکتے ہیں مگر یہاں صرف ایک ماڈل پیش کر رہاہوں تاکہ آپ کو پاکستانی سیاست کی الف ب سمجھ آسکے۔ پاکستانی پارلیمنٹ میں آپ کو ایک چادر پوش ’’درویش‘‘ نظرآئے گے۔ اس سادہ لباس چادرپوش ’’درویش‘‘ کا نام محمود خان اچکزئی ہے جسے میاں نوازشریف صرف محمود خان کہہ کر بلاتے ہیں۔ اپنائیت کااظہار بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔ محمود خان اچکزئی خود ایم این اے یعنی قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ ان کے بھائی محمدخا ن اچکزئی بلوچستان کےگورنر ہیں۔ دراصل بلوچستان کےمسائل کو حل کرنے کے لئے وفاق کو ایک ’’مستند‘‘ نمائندے کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت محمود خان اچکزئی کا بھائی ہی پوری کرسکتا تھا۔ خود محمود خان اچکزئی کے لئے بھی کوئی حیثیت ہونی چاہئے تھے تو انہیں وزیراعظم کے مشیر کی حیثیت حاصل ہے۔ محمود خان اچکزئی کے ایک اور بھائی بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں۔ عوامی خدمت کے لئے ان کا ایم پی اے بننا بڑاضروری تھا۔ یہ کیا بات ہوئی کہ سب بھائی عوامی نمائندگی کا حق ادا کریںاور ایک بھائی محروم رہے۔ اس محرومی کو دور کرنےکے لئے درویش نےاپنے ایک اور بھائی کو بھی ایم پی اے بنوایا۔ یہی انصاف کےتقاضے تھے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ’’درویش‘‘ اپنےگھر کو یادرکھے اور سسرال کو بھول جائے۔ اس کارِ خیر کو نبھاتے ہوئے درویش نے اپنی ایک سالی کو قومی اسمبلی کا رکن بنوایا۔ جب سالی ایم این اے بن گئی تو سالے نے کہا ہوگا کہ ہمیں کیا ملا؟ اس کے جواب میں پھر درویش کی سیاست کی جادوگری کام آئی۔ انہو ںنےاپنے سالے کی بیوی کو ایم پی اے بنوا دیا۔ دراصل بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں عورتوں کے مسائل حل کرنے کے لئے ان سے بہتر کوئی خاتون نہیں تھی۔ درویش ایک جہاندیدہ سیاستدان ہے اسی لئے اس نے اپنے سالوں کو نظرانداز نہیں کیا۔ انہیں اچھی پوسٹنگ لے کر دی۔ ایک سالے کو کوئٹہ ایئرپورٹ کامنیجرلگوا دیا جبکہ دوسرے کو موٹروے کا ڈی آئی جی لگوا دیا۔ اس میں بھی ایک حکمت ہے دراصل یہ درویش سیاستدان زمینی اور ہوائی راستوں کو خودکے لئے محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔
قارئین کرام! یہ ہے پاکستانی سیاست کاایک ’’چہرہ‘‘ ایسے کئی ایک چہرے ہیں یہی صورتحال کم و بیش تمام مسلم ممالک میں ہے۔ اسی لئے دنیا میں جگہ جگہ رسوائیاں مسلمانوں کا استقبال کررہی ہیں۔ رات کے پہلے پہر کسی نے مجھے میرے ایک برمی مسلمان بھائی کا ویڈیو کلپ بھیج دیا تھا۔ پھرمیںساری رات نہ سو سکا کہ حضرت محمد ﷺ نے تو تمام مسلمانوں کوایک جسم کی مانند قرار دیا تھا، آپﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ..... ’’جب جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف میں مبتلا ہوجاتا ہے.....‘‘ مجھے یہ سوچ باربار ڈستی رہی کہ مسلمان حکمرانوں کو اس حدیث کا کوئی پاس کیوں نہیں،مسلمانوں کے سفارتخانےکیوں خاموش ہیں؟ او آئی سی کیوں چپ ہے؟ جب محمدﷺ کا ماننے والا کوڑے کھاتے ہوئے لہولہان ہو کر بھی اللہ اکبر کانعرہ بلند کرتا ہے تو صدا مسلمان حکمرانوں کے کانوں میں کیوں نہیں پہنچتی؟ اس سے بڑی رسوائی کیا ہوسکتی ہے کہ برما جیسا ملک ہمارے بھائیوں پر، ہماری بہنوں پر ظلم کر رہا ہے اور ہم خاموش ہیں۔ مسلمانوں کے حکمران چپ ہیں؟ مسلمان حکمران دولت کی ہوس میں کیوں اندھےہوگئے ہیں کہ انہیں سوائے دولت کے کچھ نظر نہیں آتا، سوچتا ہوں مسلمان حکمران روز ِ محشر کون سا ’’چہرہ‘‘ نبی پاکﷺ کو دکھائیں گے؟ مجھے ایک پاکستانی مسلمان ہونے کےسبب پاکستانی حکمرانوں پر زیادہ افسوس ہوا، جو اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ جو دولت کے کھیل میں ہر دم تیار رہتے ہیں مگر مسلمان پر ہوتے ہوئے ظلم کو روکنے کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے۔ شایدانہیں یاد نہیں کہ دولت کا انجام رسوائی کے سوا کچھ نہیں، جب آپ کسی قوم کو دھوکہ دیتے ہیںتو پھر کوئی طاقت آپ کو رسوائی سے نہیں بچا پاتی۔ 2013کےالیکشن میں جن دو اداروں کے سربراہوں نے قوم کے ساتھ دھوکہ کیا، انہیں رسوائی ملی۔جس کے لئے دھوکہ کیا تھا وہ بھی رسوائی کے کٹہرے میں ہے۔ بقول ناصر بشیر؎
ناصر بشیر خون میں لتھڑی ہوئی یہ خاک
کوزہ گروں کے ہاتھ میں مہندی لگائے گی



.