انقلاب ایران کے 37 سال

January 25, 2016

انقلاب ایران کے 37 سال 10 فروری کو مکمل ہو رہے ہیں ۔ جس طرح ایران کا انقلاب حیرت انگیز تھا ، اسی طرح انقلاب کے بعد 37 سالوں میں ایران کے استحکام اور ترقی کی داستان بھی حیرت انگیز ہے ۔ 1979 میں برپا ہونے والا ایرانی انقلاب میری دانست میں اپنی نوعیت کا آخری انقلاب تھا کیونکہ مستقبل میں ایسے انقلاب کا کوئی امکان نہیں ہے ۔ 18 ویں صدی کے انقلاب فرانس اور 20 ویں صدی کے انقلاب روس اور انقلاب چین کے بعد تاریخ میں انقلاب ایران کا تذکرہ تاریخ میں نمایاں طور پر رہے گا ۔ ایران کے عوام نے اس انقلاب کے ذریعے ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت اور مطلق العنانیت کا خاتمہ کیا اور اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ میں تبدیل کیا ۔ اس اسلامی جمہوریہ میں ’’ ولایت فقہیہ ‘‘ نافذ ہوئی لیکن ایران کو جمہوری انداز میں چلایا گیا ۔ اس دوران قدامت پسندوں اور اصلاحات پسندوں کے درمیان جمہوری انداز میں مسابقت بھی جاری رہی لیکن ایران اپنی مضبوط قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتا رہا ۔ ایرانی انقلاب کا رنگ اگرچہ مذہبی تھا لیکن یہ اپنی خصوصیت میں سامراج دشمن انقلاب تھا ۔ اس انقلاب کی جڑیں تہذیب فارس میں بہت گہری ہیں ۔ یہ انقلاب محض ایرانی عوام کی بغاوت نہیں تھی بلکہ تہذیب فارس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ایک تاریخی کایا پلٹ تھی ۔ ایران نے اپنی تہذیب و ثقافت کے دفاع کے لئےبیرونی قوتوں کو تاریخ میں زبردست مزاحمت دی ۔ ایرانی انقلاب کے پس پردہ یہی قومی سوچ تھی ، جو انقلاب کے بعد بھی مشکل حالات سے نبرد آزما رہی ۔
ان 37 سالوں کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران سیاسی طور پر ایک مستحکم ریاست رہا حالانکہ اسی عرصے میں ایران کے ارد گرد انتشار اور افرا تفری کی آگ مسلسل بھڑکتی رہی اور اب اس آگ کے شعلے آج مزید بلند ہو رہے ہیں ۔ اس وقت مشرق وسطیٰ خوف ناک انتشار کا شکار ہے ۔ تیل کی دولت سے مالا مال تقریباً اکثر ممالک خانہ جنگی سے دوچار ہیں اور ان کی معیشت کمزور ہو رہی ہے ۔ اسی عرصے میں ایران نہ صرف عدم استحکام سے محفوظ رہا بلکہ اس کی معیشت مسلسل ترقی کر رہی ہے ۔ اسی دوران ایران کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ انقلاب کے فوراً بعد نومبر 1979 ء میں ایرانی طلباء نے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کر لیا اور سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا ۔ اس واقعہ کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ اس کے بعد عالمی طاقتوں نے ایران کو عراق کے ساتھ جنگ میں الجھا دیا ۔ یہ عالمی طاقتیں نہ صرف انقلاب ایران کو ناکام بنانا چاہتی تھیں بلکہ وہ اپنی جنگی معیشت کو فروغ بھی دینا چاہتی تھیں اور ان کی مشرق وسطیٰ کے تیل پر بھی نظریں تھیں ۔ عراق کو سپر پاورز کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ عراق کی معیشت بہت بڑی اور مضبوط تھی ۔ وہاں لوگوں کو تعلیم اور صحت کی مفت سہولتوں کے علاوہ بجلی بھی مفت فراہم کی جاتی تھی ۔ 1980 ء سے 1988 تک 9 سال کی اس جنگ میں عراق معاشی طور پر تباہ ہو گیا اور اس جنگ کے بعد وہاںکبھی سیاسی استحکام نہیں آسکا مگر اس جنگ سے بھی ایران میں افرا تفری پیدا کرنے کی عالمی سازشیں کامیاب نہ ہو سکیں ۔ انقلاب کے بعد امریکہ اور اسکے مغربی اتحادیوں کا رویہ ایران کیساتھ انتہائی مخاصمانہ رہا اور طویل عرصے تک یہ خدشات بھی رہے کہ امریکہ اور اسرائیل کسی وقت بھی ایران پر حملہ کر دینگے ۔ خطے کے بعض دیگر ممالک کے تعلقات بھی ایران کیساتھ کشیدہ رہے ۔ ایران کو طویل عرصے تک اقتصادی پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ دنیا کے شاید کسی دوسرے ملک کو اس قدر طویل اقتصادی پابندیوں کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو ۔ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو بنیاد بنا کرہر طریقے سے ایران کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ۔ فروری 2012ء میں امریکی صدر باراک اوباما نے یہ حکم دیا کہ امریکہ میں ایران کے حکومتی اور مالیاتی اداروں کے تمام اثاثے منجمد کر دیئے جائیں ۔
مذکورہ بالا چیلنجز کے علاوہ ایران کے پڑوسی ملک افغانستان میں 1979 ء میں لگنے والی بدامنی کی آگ آج تک بھڑک رہی ہے ۔ ہم اس آگ سے محفوظ نہیں رہ سکے ہیں لیکن ایران محفوظ ہے ۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ہمارا خطہ سب سے زیادہ نیو ورلڈ آرڈر کے عذاب میں مبتلا رہا ۔ دہشت گردی نے مسلم دنیا کے معاشروں کے تانے بانے بکھیر دیئے ۔ دہشت گردی نے عالمی سامراجی ایجنڈے کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اس خطے میں اس عالمی ایجنڈے کا سب سے بڑا ہدف ایران تھا ، اس کے باوجود بھی ایران نے دہشت گردی کے عفریت کو اپنے سرزمین سے بہت حد تک دور رکھا ۔ ان غیر معمولی چیلنجز ، رکاوٹوں اور بے بس کر دینے والے حالات میں ایران میں استحکام ان 37 سالوں کی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔
سیاسی اور داخلی استحکام کے علاوہ بلکہ مغربی اقتصادی ماہرین یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ایران کی معیشت مضبوط ہو چکی ہے اور وہ علاقائی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے ۔ سعودی عرب اور ایران کے حالیہ تنازع کو حل کرنے میں پاکستان کے علاوہ چین ، روس اور امریکہ کی قیادت کود پڑی ہے ، اس کا کچھ عرصہ پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ اس طرح کے تنازعات پہلے بھی پیدا ہوئے لیکن ان میں ایران کو ہی عالمی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اب صورت حال اس کے برعکس ہے ۔ ایران نے ان 37 سالوں میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی مخاصمت کو دوستی میں تبدیل کیا۔ عالمی طاقتوں کے ساتھ نیو کلیئر معاہدہ کیا ۔ اس نے خطے کی سیاست میں اپنا کردار تسلیم کرایا اور اب امریکہ نے ایران کے 100 ارب ڈالرز سے زائد کے منجمد اثاثے ایران کو واپس کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ان 37 سالوں میں ایران میں قدامت پرست سخت گیر سیاسی قیادت بھی رہی اور اصلاح پسند بھی حکومت میں رہے ۔ ایران نے عالمی طاقتوں کو چیلنج بھی کیا اور سفارت کاری کے ذریعے باوقار طریقے سے ان کے ساتھ مفاہمت بھی کی ۔ 37 سالوں میں ایران نے مختلف اقتصادی اور سماجی شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کی ۔ 1980ء سے 2012ء تک اوسط عمر ، تعلیم تک رسائی اور معیار زندگی کے حوالے سے ایران کے ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 67 فیصد اضافہ ہوا اور اس انڈیکس میں ایران دنیا کے سرفہرست ملکوں میں شامل ہو گیا۔ 1976 ء میں وہاں شرح خواندگی 36 فیصد تھی اور اب 99 فیصد ہے ۔ ایران نے سائنسی طور پر بھی بہت ترقی کی ۔ وہ اسٹیم سیل اور کلوننگ ریسرچ میں دنیا کے 10 ملکوں میں شامل ہے ۔ نینو ٹیکنالوجی ، کیمسٹری ، میڈیسن ، کمپیوٹر سائنس اور ریاضی میں اس کا شمار دنیا کے پہلے 20 ملکوں میں ہوتا ہے ۔ یہ دنیا کا 9 واں ملک ہے ، جس کی اپنی اسپیس ٹیکنالوجی ہے اور جس نے مدار میں کامیابی سے سیٹیلائٹ چھوڑے ہیں ۔ آئی بائیو امپلانٹس کرنے والا دنیا کا پہلا ملک ہے ۔ ایران کی مصنوعات کو دنیا کے مختلف ملکوں میں بہت پذیرائی ملتی ہے ۔ اس دوران ایران نے اپنی فوج کو بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے ۔ شاہراہوں اور انفرا سٹرکچر کی تعمیر میں بہت پیسے خرچ کئے گئے ہیں اور تعلیم ، صحت ، پینے کے صاف پانی اور دیگر سماجی شعبوں میں ان 37 سالوں کے دوران ایران نے مشکلات کے باوجود سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران ایک ریجنل لیڈر کے طور پر ابھر رہا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ ایران ہمارے خطے میں سرمایہ کاری کیلئے سب سے زیادہ پرکشش جگہ بن گئی ہے کیونکہ اس کا انفراسٹرکچر ، معاشی استحکام اور پرامن ماحول بین الاقوامی سرمایہ کاری کیلئے انتہائی سازگار ماحول فراہم کرتا ہے ۔چین کے صدر شی چن پنگ کا حالیہ دورہ ایران انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔چینی صدر اور ایرانی صدر حسن روحانی کے درمیان دونوں ملکوں کی تجارت کا حجم 600 ارب ڈالرز تک لے جانے پر اتفاق ہوا ہے ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایران کی معیشت کتنی ترقی کرے گی ۔ چین کے علاوہ روس کے صدر پیوٹن ، جرمنی کی چانسلر اور دیگر مغربی ممالک بھی وہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔ دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام اور اس خطے میں نئی صف بندی کیلئے ایران کی طرف دیکھا جا رہا ہے ۔اس پس منظر میں چینی صدرکا دورہ اور اس سے پہلے چینی صدر کا فلسطینی اسٹیٹ کے بارے میں قاہرہ میں بیان اور سعودی عرب کے دورے کو تجزیاتی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ اس دوران ایران کی مذہبی اور سیاسی قیادت نے تدبر ، سیاسی بصیرت ، گڈ گورننس اور بہترین خارجی وداخلی پالیسیوں اور سفارت کاری کے ذریعے اس خطے کی جیو پولیٹکس میں ایران کو مرکزی حیثیت دلا دی ہے ۔ اس عرصے میں چین اور ایران حیرت انگیز طور پر آگے بڑھے ۔ ایران کو چین سے زیادہ مشکل حالات کا سامنا تھا ۔ ایران کی کامیابی کی داستان سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ فردوسی ، حافظ ، عمر خیام ، سعدی ، شمس تبریز اور حسین بن منصور حلاج کی سرزمین ایران میں انقلاب ناکام نہیں ہوا ، جیسا کہ تاریخ کے دیگر انقلابوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے بلکہ ان 37 سالوں میں استحکام کے ماحول میں انقلابی تبدیلیاں جاری رہیں ۔