اللہ والے!

May 04, 2017

بلاشبہ اللہ والے وہی کہ جنہیں مل کر اللہ یاد آجائے اور بے شک یہ ہماری ہی تلاش ختم ہو چکی ورنہ اللہ والے تو آج بھی موجود۔
اِدھر گاڑی موٹروے پرچڑھی تو اُدھر میں نے ’’بابوں‘‘ میں بیٹھ بیٹھ کر خود بھی ’’آدھے بابے‘‘ ہو چکے کرنل زبیر سے پوچھا ’’حافظ صاحب سے آپ کی پہلی ملاقات کب اور کیسے ہوئی‘‘، چند لمحے سوچنے کے بعد کرنل صاحب بولے ’’ان سے پہلی ملاقات 2002میں ہوئی، دراصل میرے ایک عزیز کے اپنی بیٹی کی وجہ سے گھریلو حالات بہت خراب ہو گئے تھے اور مختلف جگہوں سے دینی و دنیاوی علاج کرواتے ہوئے فیصل آباد کے ایک دوست کے بتانے پر میں اس عزیز کو لے کر جھنگ گیا، ہم حافظ صاحب سے ملے، انہیں مسئلہ بتایا، دعا کروائی اورحیرت انگیز طور پر دعا کا ایسا معجزاتی اثر ہوا کہ 3ماہ میں ہی میرے عزیز کے سب مسائل یوں سدھر ے کہ جیسے کبھی بگڑے ہی نہ ہوں لیکن دوستو! پہلے ذرا یہیں رُک کر بتا دوں کہ کرنل زبیر اور میں اس لئے حافظ صاحب سے ملنے جھنگ جارہے تھے کہ ڈیڑھ دو ماہ پہلے میں بھی یکے بعد دیگرے کچھ ایسی پریشانیوں میں گھرا کہ لگنے لگا شاید اب یہ بُرا وقت کبھی ختم نہیں ہو گا، انہی مایوس لمحوں میں ایک دن کرنل زبیر نے فون پر میری حافظ صاحب سے بات کروائی اور مجھے اچھی طرح یاد کہ میری بات سن کر حافظ صاحب نے کہا تھا کہ ’’ویسے تو میں بھی آپ کیلئے اللہ تعالیٰ سے گریہ زاری کروں گا لیکن ایک تسبیح پڑھنے کیلئے دے رہا ہوں، فجر کی نماز کے بعد پڑھیں اور ہر تیسرے چوتھے روز صدقہ دے دیا کریں،‘‘ میں نے یہ تسبیح شروع کی اور جب حیرت انگیز طور پر 8دس دنوں میں ہی سب الجھنیں سلجھ گئیں تو میں نے حافظ صاحب سے ملنے کا پروگرام بنایا اور یوں اس وقت میں اور کرنل زبیر حافظ صاحب سے ملنے جھنگ جارہے تھے، یہیں لگے ہاتھ مختصر سا تعارف حافظ صاحب کا بھی، بقول کرنل زبیر سر تا پاؤں اللہ لوک حافظ عبدالحق کا مقصدِ حیات خدا کی خوشنودی اور مخلوقِ خدا کی بھلائی، روحانی طور پر خواتین سے نہ ملنے، جھنگ شہر نہ چھوڑنے، سفر ہمیشہ پیدل کرنے اور زیادہ وقت تنہائی میں رہ کر عبادت کرنے والے حافظ صاحب صرف وہ دن چھوڑ کر کہ جب شرعاً روزہ رکھنا جائز نہیں باقی سال بھر روزے رکھیں، ان کا روزانہ کا یہ معمول کہ جھنگ شہر کی ایک مسجد میں عشاء کی نماز پڑھا کر اور چند گز کے فاصلے پر ایک گھر میں ملک بھر سے آئے لوگوں سے مل کر پھر 8دس کلومیٹر پیدل چل کر دریا کے کنارے اپنے ’’روحانی ڈیرے‘‘ پر جاکر رات بھر عبادت کریں، پھر وہاں سے ظہر کی نماز کے بعد 8دس کلو میٹر پیدل چل کر عصر تک اپنے گھر پہنچیں اور یہاں عصر کی نماز پڑھ کر گھنٹہ سوا گھنٹہ ٹیلی فون پر لوگوں کے مسائل سنیں اور انہیں روحانی علاج بتائیں اور پھر روزہ افطار کرنے اور مغرب پڑھنے کے بعد 5سات کلومیٹر پیدل چل کر شہر کی مسجد میں عشاء کی نماز پڑھانے آئیں۔ ہم وقت اور سفر کا اندازہ لگا کر کچھ ایسے اسلام آباد سے جھنگ کیلئے روانہ ہوئے کہ عشاء کی نماز حافظ صاحب کے پیچھے پڑھی جا سکے، اس وقت گاڑی موٹروے پر دوڑ رہی تھی جبکہ گاڑی کے اندر حافظ صاحب کے بارے میں کرنل زبیر کی گفتگو کی نان اسٹاپ ٹرین بھی دوڑے جا رہی تھی، کرنل صاحب بتا رہے تھے کہ ’’ایک مرتبہ حافظ صاحب سے مل کر میں رات کو جھنگ سے نکلا تو مین ہائی وے پر ایسا ٹریفک جام کہ کئی کئی کلومیٹر تک گاڑیوں کی لائنیں، میں ابھی یہ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ آج تو ساری رات سڑک پر ہی گزارنا پڑے گی کہ اچانک کسی نے میری گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹایا، میں نے شیشہ نیچے کر کے دیکھا تو ایک لڑکا نظر آیا، اس سے پہلے کہ میں بولتا، لڑکا بولا، آپ اپنی گاڑی آہستہ آہستہ رائٹ سائیڈ پر کرتے جائیں، میں آپ کو اس ٹریفک سے نکالتا ہوں، میں نے اس کے کہنے پر گاڑی رائٹ سائیڈ کی طرف کھسکانا شروع کی اور جب میری گاڑی بالکل سڑک کے دائیں کنارے پر آئی تو اس لڑکے نے میری گاڑی کچے پر اتروا کر اور ایک کچی پگڈنڈی پر ڈلوا کر کہا کہ بس اسی پر چلتے جائیں ،آپ سڑک پر پہنچ جائیں گے، میں کھیتوں کے درمیان ویران و بیابان پگڈنڈی پر 15,20کلومیٹر کی ڈرائیو کے بعد دوبارہ جس جگہ سے مین ہائی وے پر چڑھا تو وہاں سے تھوڑا پیچھے سڑک کے عین درمیان مجھے وہ 2ٹرک گرے ہوئے دکھائی دیئے کہ جن کی وجہ سے ٹریفک جام تھا، خیر اگلی شام جب میں نے حافظ صاحب کو فون کیا تو سلام دعا کے بعد کہنے لگے ’’کرنل صاحب پریشان نہ ہوا کریں، آپ کو خیریت سے گھر پہنچانا ہماری ذمہ داری ہوتی ہے‘‘۔
اچانک کرنل زبیر کا موبائل بجا، باتیں کرتے کرتے رُک کر فون سننے اور منرل واٹر کی بوتل سے پانی کے دو چار گھونٹ بھرنے کے بعد وہ دوبارہ اسٹارٹ ہو گئے ’’ایک مرتبہ میں حافظ صاحب کو بتائے بغیر عمرے کیلئے چلا گیا، اسلام آباد سے مدینہ پہنچ کر اگلے دن مسجد نبویؐ میں بیٹھے بیٹھے مجھے حافظ صاحب کا خیال آیا اور میں نے گھڑی دیکھی تو وہ وقت حافظ صاحب سے ٹیلی فون پر بات کرنے کا تھا، نہ صرف موبائل سے فون ملانے پر پہلی کوشش میں ہی ان کا نمبر مل گیا بلکہ ابھی پہلی گھنٹی پوری طرح بجی بھی نہ ہوگی کہ حافظ صاحب کی آواز سنائی دی ’’کرنل صاحب اتنی مقدس جگہ پر پہنچنے پر مبارک ہو لیکن یہاں اب آپ نے کسی کو فون کرنا اور نہ کسی کا فون سننا ہے، کیونکہ یہاں گفتگو کرنا بے ادبی ہے، سرکارؐ کی خدمت میں میرا سلام پیش کریں اور بس بیٹھ کر درود پڑھتے رہیں‘‘ حافظ صاحب کی یہ بات سن کر میں نے کہا ’’حافظ صاحب دلی طور پر حاضری کی کوئی کیفیت نہیں بن رہی‘‘ حافظ صاحب نے دوبارہ اپنی بات دہرا کر کہ ’’بس درود پڑھتے رہیں‘‘ فون بند کر دیا، کرنل صاحب کہنے لگے ’’فون بند کر کے ابھی مجھے درود شریف پڑھتے ہوئے کچھ وقت ہی گزرا ہوگا کہ اچانک پہلے میرے آنسو بہنے لگے پھر مجھ پر رقت طاری ہو گئی اور آخر کار میں ایسے پھوٹ پھوٹ کر رویا کہ چند منٹوں میں ہی میرا پورا جسم آنسوؤں اور پسینے سے بھیگ گیا اور پھر اسی کیفیت میں جب میں روضہ رسولؐ کے سامنے آیا تو ایسے لگا کہ جیسے مجھ گناہگار کی واقعی سرکارؐ کے روضہ میں حاضری ہوگئی، وہ لمحے یاد آنے پر آج بھی میری جو کیفیت ہوتی ہے وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
چار سوا چار گھنٹے کے سفر کے دوران وقفے وقفے سے حافظ صاحب کی باتیں کرتے کرنل زبیر نے ان کی دعا سے اپنے بیٹے کا عین عالمِ شباب میں پنج وقتہ نمازی ہو جانے کا واقعہ بھی سنایا، اُنہوں نے اپنے گھر میں سرِعام چلتے پھرتے اور سب گھر والوں کو مسلسل تنگ کرتے جنوں سے چھٹکارے کا قصہ بھی بتایا، اُنہوں نے حافظ صاحب کی باکمال یادداشت کی درجنوں مثالیں بھی دیں اور اُنہوں نے حافظ صاحب کی دنیا سے بے غرضی کی بیسیوں کہانیاں بھی سنائیں، کرنل صاحب کی باتیں تو شاید کبھی ختم نہ ہوتیں مگر ہمارا سفر ختم ہوا اور پھر دوستو! جب ہم بنا پلستر کے پکی اینٹوں والے کشادہ صحن اور خالصتاً دیہی اسٹائل میں بنی مسجد کے برآمدے میں لوہے کے لمبے پائپ کے ساتھ لگی ٹوٹیوں سے وضو کر چکے، جب ہم کہیں اندھیرے اور کہیں ہلکی ہلکی روشنی والی مسجد کے صحن میں بچھی صف پر نفل پڑھ چکے، جب مسجد کے نسبتاً تاریک کونے میں کھڑے ہو کر ایک ادھیڑ عم شخص خالصتاً دیہاتی انداز میں اذان دے چکا، جب 5,7منٹوں کے بعد غیر محسوس طریقے سے آنے والے حافظ صاحب کی امامت میں عشاء کی نماز ہو چکی، جب مسجد سے باہر آکر چند گز کے فاصلے پر ایک گھر میں حافظ صاحب سے ملنے آئےباقی لوگوں کے ساتھ میں اور کرنل زبیر دریوں والے فرش پر بیٹھ چکے، جب کرنل صاحب کے بعد اپنی باری آنے پر میں اُٹھ کر ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے پہنے اور سر پر رومال باندھے زیرِلب مسکراتے حافظ صاحب کے سامنے بیٹھا اور جب اُنہوں نے کچھ کہے، سنے بغیر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دم کرنا شروع کردیا تو پھر ان دو چار منٹوں میں نجانے اک عجیب سا سکون اور اطمینان کہاں سے آگیا، نجانے ایسا کیوں لگا کہ جیسے سر سے منوں ٹنوں بوجھ اتر گیا اور نجانے ابھی تک یہ کیوں محسوس ہو رہا کہ جیسے پھر سے زندہ ہو گیا یا جیسے زندگی پھر سے زیرو سے اسٹارٹ ہو چکی، دوستو! یقین جانئے مجھے یہ سب کچھ تو بالکل سمجھ نہیں آ رہا، ہاں البتہ چند منٹوں کی یہ ملاقات مجھے یہ ضرور سمجھا گئی کہ ایک تو اللہ والے وہی کہ جنہیں مل کر اللہ یاد آجائے اور دوسرا یہ ہماری ہی تلاش ختم ہوئی ورنہ اللہ والے تو آج بھی موجود۔

.