تراویح

May 29, 2017

پارہ نمبر3،(خلاصہ تراویح)
مولانا ڈاکٹر سعید احمد صدیقی
انبیائے کرام کی خصوصیات اور انفاق:
خلاصہ تراویح میں ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تیسرے پارے کا آغاز کر رہے ہیں، جس کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ، رسولوں کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے ان خصوصیات کا ذکر فرما رہا ہے جو بعض نبیوں کو عطا فرمائیں کہ کسی کو بلاواسطہ ہم کلامی کا شرف بخشا، کسی کو سیادت و قیادت عطا فرمائی اور کسی کی تائید واضح معجزات سے فرمائی، ہر نبیؑ نے دین اسلام ہی پیش کیا مگر ان کے ماننے والوں نے ان کی تعلیمات کو بھلا کر اختلاف پیدا کئے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ کے راستے میں مال خرچ کرنے والوں کو آخرت میں کامیابی کی بشارت دی۔
آیۃ الکرسی:
اس کے بعد قرآن پاک کی سب سے عظیم اور مبارک آیت ’’آیۃ الکرسی‘‘ بیان ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ ذکر کی گئیں، آپﷺ نے ارشاد فرمایا! جو شخص ہر فرض نمازکے بعد آیۃ الکرسی پڑھے تو اس کے اور جنت کے درمیان صرف موت کا فاصلہ ہے۔
حضرت ابراہیمؑ اور حضرت عزیرؑ کا ذکر:
حضرت ابراہیمؑ کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کس طرح وہ خدائی کے دعویدار نمرود بادشاہ کے سامنے سرخرو ہوئے، حضرت ابراہیمؑ نے مردوں کو زندہ کرنے کی فرمائش کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے یہ منظر دکھا دیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام جنہوں نے ایک تباہ حال بستی دیکھی تو ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اللہ اس بستی کو دوبارہ کیسے آباد کرے گا؟تو اللہ تعالیٰ نے سو سال کےلئے ان پر موت طاری فرما دی اور پھر انہیں زندہ کیا، بستی آباد تھی۔
اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے مال خرچ کرنے کی ترغیب:
اہل ایمان کو مخاطب کر کے ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی اور یہ نصیحت بھی کی گئی کہ اخلاص کے ساتھ مال خرچ کرو، دکھاوا نہ کرو، احسان نہ جتائو اور نہ جن پر خرچ کر رہے ہو انہیں تکلیف دو، اچھی چیز، اچھا مال صدقہ خیرات کرو۔ جو صدقہ چھپا کر دیا جائے وہ اعلانیہ سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال خرچ کرنے پر اللہ تعالیٰ نے آخرت میں مغفرت اور اپنے خاص فضل کا وعدہ فرمایا ہے۔
سود کی حرمت:
سود کو حرام قرار دیتے ہوئے دنیا میں ذلت اور آخرت میں سخت عذاب کی وعید سنائی گئی اور سود کو چھوڑنےاور ختم کرنے کا حکم دیا گیا، نافرمانی کی صورت میں اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کی صورت قرار دیا گیا۔
مالی معاملات اور اس کے متعلق احکام:
الفاظ اور حروف کے اعتبار سے قرآن کریم کی سب سے طویل آیت(282) میں ادھار، تجارت، باہمی لین دین اور رہن کے احکام بیان کرتے ہوئے اسے لکھنے (محفوظ) کا حکم دیا گیا اور فرمایا دو مردوں کو گواہ مقرر کر لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔
طاقت سے زیادہ بوجھ:
سورۃ البقرہ میں متعدد شرعی احکامات بیان ہوئے اس لئے سورت کے آخر میں وضاحت کر دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اس لئے لوگوں کو چاہئے مصیبت کے وقت صبر کریں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں، شکوہ، شکایت اور ناشکری کے الفاظ منہ سے نہ نکالیں۔
جامع دعا:
’’سورۃ البقرہ‘‘ کا اختتام اہل ایمان کو ایک جامع ترین دعا سکھاتے ہوئے کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے یوں دعا کرو کہ ’’اے اللہ اگر احکام کی تعمیل میں ہم سے کوئی غلطی ہوجائے تو معاف فرما دینا۔‘‘ ……… آخر تک ……… یہ وہ آیات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کوبراہ راست شب معراج میں عطا فرمائیں۔
سورہ آل عمران:
ترتیبی اعتبار سے یہ قرآن پاک کی تیسری سورت ہے جب کہ نزولی اعتبار سے89سورت ہے، یہ مدنی سورت ہے چونکہ اس میں آل عمران اور ان کے خاندان کا ذکر کرتے ہوئے آل عمران کا لفظ آیا ہے اس مناسبت سے اس کا نام سورہ ’’آل عمران‘‘ رکھا گیا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا دو روشن سورتیں یعنی سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران پڑھا کرو۔
قرآن کریم، توریت اور انجیل:
اس سورت میں بیان فرمایا گیا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور قرآن کریم سچی کتاب ہے، توریت اور انجیل بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں، اہل کتاب نے جب ان کا انکار کیا تو وہ سخت عذاب میں مبتلا ہوئے لہٰذا قران کریم سے انکار اور عمل نہ کرنے پر بھی یہی سزا ہے کہ دنیا اور آخرت میں ذلت کا سامنا کرے۔
غزوہ بدر:
غزوہ بدر کا ذکر ہے، جس میں اہل ایمان کو تعداد میں اور سامان جنگ کم ہونے کے باوجود نصرت الٰہی کے ذریعے عظیم فتح حاصل ہوئی۔
اسلام:
اسلام کو اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اللہ نے اپنے بندوں کے لئے یہی دین منتخب کیا ہے۔
اہل کتاب کے جرائم:
اہل کتاب کے بڑے جرائم کا ذکر ہے، جس میں انہوں نے انبیائے کرام کو قتل کیا، خونریزی کی، اللہ تعالیٰ کے بندوں پر مظالم ڈھائے۔
کفار سے دوستی:
کفار سے دوستی کی ممانعت کی گئی اگرچہ ہر انسان سے حسن سلوک کا حکم ہے مگر بتا دیا گیا کہ کفار کبھی تم سے مخلص نہیں ہو سکتے۔
تین واقعات:
تین عبرت آموز واقعات کا ذکر ہے (1) بی بی مریمؑ کی والدہ کی نذر کہ پیدا ہونے والے بچے کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کروں گی لیکن جب لڑکی پیدا ہوئی تو اسے بھی قبول کر لیا گیا اور حضرت زکریاؑ کی کفالت میں ان کی پرورش ہوئی۔ (2) حضرت زکریاؑ نے جب بی بی مریمؑ کے پاس بے موسم کے پھل دیکھے تو بڑھاپے میں اولاد ہونے کےلئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی، اللہ کی طرف سے حضرت یحییٰؑ کی صورت میں بیٹا عطا ہوا۔ (3) بی بی مریمؑ کے ہاں نکاح کے بغیر معجزانہ طریقے سے حضرت عیسیؑ کی ولادت ہوئی جنہوں نے ابتدائی دنوں میں والدہ کی پاکبازی اور اپنے نبی ہونے کی گواہی دی، جب بڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو نبوت اور معجزات عطا فرمائے اور جب قوم نے ان کو ستایا اور سولی دینے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے بحفاظت آسمان پر اٹھا لیا۔
مباہلے کی دعوت:
جب نجران کے عیسائی، آپﷺ سے تمام دلائل سننے کے باوجود حق قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے تو انہیں مباہلے کی دعوت دی گئی کہ تم اپنے اہل و عیال لے کر آئو اور میں، یعنی محمدﷺ اپنے اہل و عیال کو لے کر آئوں پھر مل کر خشوع و خضوع سے دعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو لیکن عیسائی وفد مباہلے کے لئے تیار نہ ہوا اور جزیہ دینے پر راضی ہوا۔
اہل کتاب کو دعوت:
اہل کتاب کو ایک کلمے کی طرف متحد و متفق ہونے کی دعوت دی گئی جس کی تمام انبیاؑ کرام نے تلقین فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
سید الانبیاء کی عظمت اور شان مبارک:
نبی آخرالزماں محمد رسول اللہﷺ کی عظمت اور شان مبارک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمام انبیاء سے عہد لیا تھا کہ میرے آخری رسول آ جائیں تو اپنی کتاب اور رسالت کو چھوڑ کر اس نبی آخرالزماںﷺ پر ایمان لائو گے اور ان کی مدد کرو گے، تمام نبیوں نے اس کا وعدہ کیا مگر افسوس انبیاء کی امتوں نے اس عہد کی پاسداری نہ کی اور تصدیق و مدد کے بجائے مخالفت پر اتر آئے۔
اللہ کی محبت:
اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا واحد ذریعہ آپﷺ کی پیروی و اطاعت ہے۔
ایمان اور کفر:
تیسرے پارے کے اختتام پر ایمان اور کفر ایک دوسرے کی ضد قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جو ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گئے ان کے لئے آخرت میں سخت سزا ہے۔


.