حوصلوں کو مہمیز دینے والی بجٹ تقریر

June 02, 2017

اِس بار ہماری باتدبیر وزیرِ خزانہ جناب اسحٰق ڈار سے تین بار ملاقات ہوئی۔ اُن کی گفتگو سے میں نے اپنے اندر ایک جذبہ اُبھرتے اور اُمید کا ایک شعلہ لپکتے محسوس کیا۔ مجھ ایسا طالب علم جو پاکستان کی بقا کے لیے جمہوریت کو ناگزیر سمجھتا ہے، اِس کے لیے سب سے خوشی کی بات یہ تھی کہ پاکستان کی ایک منتخب حکومت اپنا پانچواں بجٹ پیش کر رہی ہے جو ملک میں جمہوریت کے تسلسل اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی ایک صحت مند روایت کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرے لیے یہ پہلو بھی حددرجہ خوش آئند تھا کہ پانچوں بجٹ ایک ہی وزیرِ خزانہ نے پیش کیے جو وزیراعظم نوازشریف کے وژن کے مطابق پاکستان کی خستہ حال معیشت کو بھنور سے نکال کر بڑی مہارت سے ترقی اور خوشحالی کے ساحلِ مراد تک لے آئے ہیں۔ اُنہوں نے پریس کانفرنس میں سالِ رواں کا اقتصادی جائزہ پیش کرتے ہوئے قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ ہم بفضلِ خدا 5.28فی صد شرح نمو تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو گزشتہ دس برسوں میں سب سے بلند سطح اور اُمید کا ایک زبردست پیغام ہے۔
ہمارے صحافی بھائی جو حقائق کی جستجو میں بعض اوقات مایوسی کے ویرانوں میں نکل جاتے ہیں، اُنہوں نے اندیشہ ہائے دور دراز کے انبار لگا دیے۔ ڈار صاحب نے بڑے تحمل اور بردباری سے جواب دیا کہ ایک دنیا ہماری اقتصادی ترقی پر حیرت زدہ ہے اور عالمی معاشی ادارے پیشین گوئی کر رہے ہیں کہ آٹھ برسوں میں پاکستان بیس بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائے گا، اِس لیے ہمارے میڈیا کو ملکی اقتصادیات کی ایک تاریک تصویر کھینچنے کے بجائے ان مثبت قوتوں کی ہمت بندھانی چاہیے جو نہایت کٹھن حالات میں عوام کی زندگی بہتر بنانے میں ہر آن کوشاں ہیں۔ آپ ہمارا ساتھ دیں گے تو ہم اِن شاء اللہ نہایت قلیل مدت میں نئی بلندیوں کو چھوتے دکھائی دیں گے۔ دراصل ہم اپنے آپ کو ہر وقت کوسنے دینے کے اِس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ ہمیں اپنی کسی کامیابی اور خوش بختی پر یقین ہی نہیں آتا۔ اُنہوں نے سیاسی قائدین سے اپیل کی کہ پاکستان معاشی طور پر ٹیک آف کرنے والا ہے اور انتخابات صرف ایک سال کے فاصلے پر ہیں، چنانچہ ہم سب کو نہایت غور و خوض کے بعد متفقہ میثاقِ معیشت پر دستخط کرنے چاہئیں تاکہ جو بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آئے، اس کے پاس ایک معاشی روڈ میپ بھی ہو اور سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی۔ مجھے ڈار صاحب کی اِس اپیل میں بے پایاں دردمندی اور وطن کے ساتھ شیفتگی محسوس ہوئی۔
جناب وزیرِ خزانہ نے 26مئی کی شام بجٹ تجاویز قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیں۔ ان کی تقریر میں اعداد و شمار کا ایک جال بُنا ہوا تھا جن کے جملہ پہلوؤں کا ماہرین ہی گہرائی کے ساتھ جائزہ لے سکتے ہیں۔ مجھے اپنی زندگی میں ستر کے قریب بجٹ تقریریں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ پہلا بجٹ مارچ 1948ء میں وزیرِ خزانہ ملک غلام محمد نے پیش کیا تھا جبکہ پاکستان نوے لاکھ مہاجرین کی آمد اور بھارت کی ریشہ دوانیوں کے باعث سخت معاشی دباؤ میں تھا۔ اِس کے باوجود وہ پہلا بجٹ فاضل بجٹ تھا جس نے مصائب میں گِھرے اہلِ وطن کو بہت حوصلہ دیا اور انڈین کانگریس کی قیادت کا یہ دعویٰ غلط ثابت کر دیا کہ مسلمان مالیاتی نظام چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ کچھ ایسا ہی حوصلہ جناب اسحٰق ڈار کی بجٹ تقریر نے دیا جس میں عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے، مل جل کر معیشت کو نئی بلندیوں تک پہنچانے اور غربت، جہالت اور دہشت گردی کے خاتمے کا داعیہ رواں دواں تھا۔ اُنہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا ’’یہ میرا، یا مسلم لیگ نون کا نہیں، پاکستان کا بجٹ ہے اور اسے بہتر سے بہتر بنانے کی خاطر میں آپ کی قابلِ عمل تجاویز کا خیر مقدم کروں گا۔‘‘ مجھے اُن کی اِس فراخدلانہ پیشکش سے یہ اعتماد پیدا ہوا کہ مفاہمت کے ماحول میں باہمی احترام سے قومی زندگی میں ایک نئی رُوح پھونکی جا سکتی ہے۔
ڈار صاحب نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران میثاقِ معیشت کے خدوخال بھی واضح کیے اور پانچ سالہ روڈ میپ بھی دیا۔ وہ شاید یہ پیغام دے رہے تھے کہ معیشت کا مکمل احیا اِتنا بڑا اور اِس قدر صبر آزما کام ہے جو کوئی بھی سیاسی جماعت تنہا سرانجام نہیں دے سکتی۔ انتخابات سے پہلے حکمران جماعت کی طرف سے اِس حقیقت کا اعتراف اور سیاسی جماعتوں کو میثاقِ معیشت پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی دعوت ایک بہت بڑا سیاسی اقدام ہے جس کا اپوزیشن جماعتوں کو انتہائی خوش دلی سے خیرمقدم کرنا چاہیے تھا۔ وہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اِس روڈ میپ سے بھی ایک قدم آگے چلے گئے اور اپوزیشن جماعتوں کو تجویز دی کہ ہم چھٹے بجٹ کی تیاری میں اُنہیں بھی شامل کر سکتے ہیں۔ انتخابات کے لیے عبوری حکومت جون 2018ء میں قائم ہو گی۔ اس سے پہلے حکومت اور اپوزیشن کی جماعتیں مل کر بجٹ بنا سکتی ہیں جس پر عمل درآمد کی عبوری حکومت پابند ہوگی۔ میں حُسنِ ظن رکھتا ہوں کہ بجٹ سازی کے عمل میں شریک ہونے سے سیاسی مفاہمت کو زبردست فروغ ملے گا اور معیشت استحکام اور ترقی کا سفر جاری رکھ سکے گی۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نے اس تجویز کا خیر مقدم کرنے کے بجائے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا جو سیاسی جماعتوں کے اندر اپوزیشن لیڈر کا منصب حاصل کرنے کے لیے رسہ کشی کا شاخسانہ ہے۔ اس رویے کے باوجود مجھے پورا یقین ہے کہ جناب اسحٰق ڈار نے جو اذانِ حق دی ہے، اِس پر قوم لبیک کہے گی اور کامل حوصلہ مندی سے آگے بڑھے گی۔
جہاں تک بجٹ تجاویز میں بہتری لانے کا سوال ہے، تو چند بنیادی باتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ آج کے حالات میں کم سے کم تنخواہ پچیس ہزار روپے ماہانہ اور سیلز ٹیکس کی شرح سات فی صد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، اِس طرح غریب آدمی کو خاصا ریلیف ملے گا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اربوں روپوں کی بے نظیر انکم سپورٹ سے کہیں ہم لاکھوں کی تعداد میں بھکاری تو پیدا نہیں کر رہے، اُنہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے ہنر سکھانا ہو گا اور ضلع اور تحصیل کی سطح پر اعلیٰ معیار کے تربیتی اداروں کے قیام کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو ترغیبات دینا ہوں گی۔ تارکینِ وطن کی ترسیلات میں کمی آ رہی ہے، اِس پر سائنٹفک انداز میں منصوبہ بندی کے علاوہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو سرمایہ کاری کی طرف راغب کرنا ہو گا۔ حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے کے لیے اشتہار بازی میں تخفیف اور مختلف سرکاری شعبوں میں من پسند افراد کی فوج تحلیل کرنا ہوگی۔ قرض کے شکنجے (Debt Trap)سے باہر نکلنے کے لیے قومی ترجیحات کا ازسرِنو تعین کرنا ہو گا۔ دو چار سال کے لیے بڑی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی لگانے سے زرِمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ کسانوں کی حالت بہتر بنانے کے لیے مڈل مین کا کردار ختم کرنا ہو گا۔ یہ بہت خوش آئند امر ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک ہزار ارب مختص کیے گئے ہیں۔ میری تجویز ہے کہ اُن کی مانیٹرنگ کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دہشت گردی کے خاتمے اور بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیوں کی روک تھام کے لیے فوج کے بجٹ میں مزید اضافہ کیا جانا چاہیے اور اسپیشل الاؤنس میں پولیس فورس بھی شامل کی جائے۔ اِس موقع پر یہ واضح کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ صدرِ مملکت کی تنخواہ میں صرف پچاس ہزار ماہانہ اضافے کی تجویز ہے جس کے بارے میں طرح طرح کے افسانے پڑھنے میں آرہے ہیں جو بجٹ کا امیج خراب کر رہے ہیں۔



.